Daily Roshni News

البیرونی کی تعلیم اور تربیت پر ہے

آج کا کالم البیرونی کی تعلیم اور تربیت پر ہے

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )بچین سے ہی البیرونی کو علم کا شغف تھا۔ اس کی ذات مختلف محاسن سے مزین تھی ۔ اس کی شخصیت ایک بیدار  ذہن اور دو متجسس آنکھوں سے مزین تھی جو ہمیشہ قدرت کے کرشموں کو اپنے میں سمونے کے لیے بیتاب رہتیں ۔ اس کے جسم میں ایک بے چین روح تھی جو ہمیشہ حقائق کو جانچنے پر کھنے اور تجزیہ کرنے میں لگی رہتی تھی۔ اس کے اندر تڑپتا ہوا احساس یہ تھا کہ یہ عالم وسیع اور مختلف النوع ہے اور یہ کہ اس میں جاننے کے بہت گنجائش ہے ۔ البیرونی نے ان محاسن کی مدد سے کہ جن سے وہ آراستہ تھا “غیر معلوم ” کو سمجھنے میں مدد لی اور بلا تفریق مذہب، ملت اور قوم کے جہاں سے اسے جو کچھ ملا حاصل کیا۔ اور یہاں تک کہ زبان کے قیود بھی اس کی راہ میں حائل نہ ہو سکے اپنی کتاب

السیدنا ” کے ابتدائی باب میں وہ ایک واقعہ بیان کرتا ہے

جو اس بات کو سمجھنے میں مدد گار ثابت ہوتا ہے ۔

بلحاظ اپنی افتاد طبع میں بچپن سے ہی علم حاصل کرنے)

 کی ایک حقیقی جب جستجو اپنی عمر اور پیش شدہ حالات کو دیکھتے ہوئے بھی اپنے میں رکھتا تھا۔ جیسا کہ ایک واقعہ اس کی بھر پور وضاحت کر دے گا۔ میرے ملک میں ایک رومی ریونانی شخص رہتا تھا جس کے پاس میں کچھ اناج کے دانوں ، بیجوں ، پھلوں، پودوں اور دوسری اشیاء کو لے جایا کرتا تھا اور اس سے ان کے نام اس کی زبان میں دریافت کرتاتھا اور پھر ان کو عربی میں لکھ لیاکرتا تھا)

علم کی بازیابی کا یہ حوصلہ مند جزبه تمام عمر البیرونی کی زندگی کا ایک حصہ رہی اور جس نے

،  اسے ہر چوکھٹ پر ایک شاگرد کی شکل میں لاکھڑا کیا اور اسے ایک صحیح عالم بنادیا وہ اس سے کبھی نہیں تھکا اور یہاں تک کہ بستر مرگ پر بھی وہ اس سے باز نہ آیا۔ اس ضمن میں ایک بہت دلچسپ واقعہ تحریر کے لائق ہے۔ ابو حسن علی بن عیسی الوالجی مزاج پرسی کی خاطر اس وقت پہنچا جب اس کی حالت بہت نازک تھی اور موت تقریباً قریب آچکی تھی ۔ اس حالت کے باوجود البیرونی نے علم الہیئت کے اس ایک مسئلہ پر بات کرنی چاہی کہ جس کا تذکرہ کچھ دن پہلے وہ کرچکا تھا۔ الوالجی نے حیرت سے اس کی طرف دیکھا اور البیرونی کی نازک حالت کو دیکھتے ہوئے بحث سے گریز کیا ۔ البیرونی کا رد عمل بیساختہ تھا۔ اس نے کہا کہ کیا اس مسئلہ کی واقفیت اس سے بہتر نہیں ہے کہ میں اس دنیا کو بغیر اسے سمجھے چھوڑوں ؟ الوالجی نے تب اس اصرار پر مسئلہ کی پوری کیفیت بیان کی اور ابھی اس نے البیرونی کی چوکھٹ چھوڑی تھی کہ اسے اطلاع ملی

کہ البیرونی کا انتقال ہو گیا ہے۔

 البیرونی کی ایک اور خوبی کہ جس نے اس کے علم و ادراک کو وسعت دینے میں مدد کی وہ اس کے مزاج کی اکملیت تھی۔ چاہے کوئی بھی مسئلہ یا مضمون ہو جب تک کہ وہ اس کی تہہ تک نہیں پہنچ جاتا تھا نہیں چھوڑتا تھا وہ خود لکھتا ہے کہ میں یہ مناسب نہیں سمجھتا کہ کسی مضمون سے گزر جاؤں کہ جس کا علم مجھے سرسری ہو۔ میں اس کے بارے میں تذکرہ کرنا اس وقت تک نہیں چھوڑوں گا جب تک کہ میں نے اس پر مکمل طور پر قابو نہ پالیا ہو۔

ان استادوں اور عالموں کے بارے میں ہماری واقفیت بہت کم ہے کہ جنھوں نے

البیرونی کو مختلف سائنسوں سے نہ صرف روشناس کرایا بلکہ ان میں ضروری مہارت پہنچائی وہ اپنی کتاب آثار الباقیہ میں دو اشخاص کا نام اس سلسلہ میں لیتا ہے ایک ابو نصر منصور بن علی بن عراق اور دوسرا محمود بن اسحاق بن استاد بنداد سرخی ۔ ایک تیسرے استاد کا نام یا قوت نے لیا ہے اور وہ عبد الصمد اول بن عبد الصمد ہے جو البیرونی کے ساتھ قید کر لیا گیا تھا جب محمود غزنوی نے خوارزم پر حملہ کر کے اسے فتح کیا ۔ یہی شخص بعد ازاں اس جرم کی پاداش میں کہ وہ ایک کا فر ہے قتل کر دیا گیا ۔ کتاب الہند میں بحیثیت استاد ایک نئی شخصیت ابھرتی ہے جو ابو سہل عبد المنعم ابن علی ابن نوح الطفلسی ہے ۔ کہ جس کی منشا پر البیرونی نے “کتاب الہند لکھی ان ذات گرامیوں کے بارے میں سوائے نام کے اور مزید کوئی بات معلوم نہیں ہے ۔ ہاں یہ کہنے میں کوئی تامل نہیں کہ یہ وہ معلمین تھے کہ جنھوں نے البیرونی کو اس وقت کے سب سے اہم مضمون علم الہیت اور متعلقہ مضامین پر تعلیم دی۔ پھر بھی البیرونی کا زیادہ تر علم اس کی کا وشوں اور تجربوں کا نتیجہ تھا

البیرونی ایک ہفت زبان تھا ۔ اس کو دنیا کی ان زبانوں سے واقفیت خاص طور سے وہ جو اس کے اپنے ملک کے قرب وجوار میں بولی جاتی تھیں یا وہ کہ جن میں اس وقت کا زیادہ تر سائنسی اور فلسفیانہ ادب محفوظ تھا بے مثل تھی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ چند زبانی تھا۔ وہ فارسی سے واقف تھا اس لیے کہ وہ اس کی مادری زبان تھی۔ ترکی زبان میں بھی وہ یکتا تھا اس لیے نہیں کہ اس کا ملک خوارزم ایک ترکی زبان ملک تھا بلکہ اس لیے بھی کہ یہ غزنی کے ان ترک بادشاہوں کی زبان تھی جن کی سرپرستی میں وہ اپنی عمر کے چوالیسویں سال (1017) کے بعد متواتر رہا ۔ البیرونی کے موروثی ملک کی جائے وقوع کچھ ایسی تھی کہ ایک طرف تو وہ قدیم ایرانی تہذیب کی سرحد سے پیوست تھا اور دوسری طرف وسطی ایشیا کا اسیپی علاقہ (اسٹیپ لینڈ ) تھا ۔ جو ترک خانہ بدوشوں کی آماجگاہ تھا

خوارزمی زبان کی غربت اور کم اہلی کا یقین ہو جانے کے بعد البیرونی فارسی اور عربی زبانوں کی طرف متوجہ ہوا جس میں اس کی سبہی کتابیں تحریر ہوتی ہیں۔ عربی زبان ہلالی ملت اور خواص کی بین الاقوامی زبان  تھی اور جس میں مشرق اور مغرب کے سائنسی علوم ترجموں کی شکل میں یا اصلی شکل میں برا بر جمع ہو رہے تھے ۔ دراصل عربی زبان اس عہد میں قدیم یونانی لاطینی، سریانی  اور سنسکرت زبانوں کے شاندار ادبی روایات کی وارث اور محافظ بن گئی تھی ۔ عرب علمی دنیا میں نجوم ، ریاضی ، حکمت ، دینیات مذہب اور فلسفہ وغیرہ جیسے مضامین کے معتبر اور مستند عربی ترجموں کے ذریعہ اس زبان نےایک پر وقار جگہ اپنے لیے بنا رکھی تھی مگر جس رفتار سے یہ زبان غیر عربی دنیا میں ذہنوں کی بصیرت افروزی کر رہی تھی اس نے البیرونی پر یہ واضح کر دیا کہ وہ اس زبان سے استفادہ حاصل کیے بغیر کچھ نہیں کر سکے گا۔ “کتاب السیدنا ” میں وہ خود اس لسانی تبدیلی کے بارے نہ صرف لکھتا ہے بلکہ ان مشکلات کا بھی ذکر کرتا ہے جو اس سلسلہ میں اُسے اٹھانی پڑیں وہ لکھتا ہے کہ حالانکہ میں نے عربی اور فارسی کو اپنا لیا لیکن ان دونوں میں میں اب بھی اپنے آپ کو حیران ساپاتاہوں۔ یہ یقینی طور پر کہنا تو مشکل ہے کہ البیرونی کے یہاں یہ زبان کی تبدیلی کب آئی لیکن یہ اندازہ ضرور لگایا جا سکتا ہے کہ ایسا شروع میں ہی ہو گیا ہو گا اس لیے کہ جلد ہی البیرونی اس قابل ہو گیا کہ وہ زبان کی ہوتی ہیت اور رسم الخط جیسے نازک مسائل پر تبصرہ کر سکے۔ کتاب السیدنا میں جیسے آگے چل کر ایک تنقیدی مسئلہ اٹھاتا ہے اور کہتا ہے کہ عربی رسم الخط میں ایک بڑا عیب ہے اور وہ یہ کہ اس کے حروف کے اشکال یکساں ہیں اور ان میں امتیاز کرنے کے لیے نقطوں اور حروف علت کا استعمال از حد ضروری ہے۔ اس لیے کہ اگر وہ چھوٹ گئے تو الفاظ کے معنی کو مشتبہ بنا دیتے ہیں ۔البیرونی بعد ازاں عربی زبان سے اتنا واقف ہو گیا کہ جیسے وہ اس کی مادری زبان ہو۔ عربی اور فارسی کے علاوہ دوسری زبانیں جن سے وہ واقف تھا ۔ سریانی

عبرانی ، یونانی اور سنسکرت تھیں ۔ اپنے علمی مضامین میں اس نے ارسطو ، جالینوس اور بطلیموس جیسے یونانی ماہرین کے نظریات کا بیشتر حوالہ دیا ہے جس سے اس کی یونانی دانی کا پتہ چلتا ہے ۔ البیرونی کے کچھ تبصرہ نگار حالانکہ اس امر سے متفق نہیں ہیں اس لیے کہ یونانی عالموں کے کام کا ایک بہت بڑا حصہ البیرونی کے زمانہ تک عربی اور سریانی زبانوں میں منتقل ہو چکا تھا۔ ندوی ان تبصرہ نگاروں میں سے ایک ہیں جو البیرونی کے یونانی علوم سے وانگی عربی اور سریانی تراجم کے ذریعہ منسوب کرتے ہیں یہ تبصرہ از خود اس کی شہادت تو دیتا ہی ہے کہ البیرونی کو کم سے کم سریانی زبان پر عبورہ تو حاصل ہی تھا۔  یہ بات کہ البیرونی کاملیت کا ایک اعلیٰ نمونہ تھا کسی مزید تعارف کی محتاج نہیں ہے ۔

البیرونی کی زبان دانی کا ایک دلچسپ پہلو حال ہی میں روشن ہوا ہے ۔ وسط ایشیا کی سامانی دور حکومت میں ایک باضابطہ اور مختلف زبان  (دری) بلخ ، بخارا، خوارزم اور مشرقی ایران کے حدود میں رائج تھی ۔ اس زبان نے اس عہد میں ادبی اور سائنسی زبان کا درجہ حاصل کر لیا تھا ۔ دراصل اس زبان کو فروغ دینے اور یہ رتبہ دینے میں مشرق وسطیٰ کے دو نامور عالموں کا بیحد ہاتھ ہے ۔ ایک ابو علی ابن سینا اور دوسرا ابوریحان البیرونی ۔ خیال کیا جاتا ہے کہ آخر الذکر نے اپنی مشہور کتاب( التفہیم فی اوائل صنعت التنجیم -) 420ھ (1029)میں اولاً اسی زبان میں تشکیل کی تھی اور بعد میں اسی

سال اس کا ترجمہ عربی زبان میں پیش کیا

البیرونی سنسکرت سے بخوبی واقف تھا۔ سجاد نے بیرکرد کاوش سے ان سنسکرت حوالوں کو نقل کیا ہے کہ جن کے طویل اقتباسات البیرونی نے اپنی تخلیق کتاب الہند” اور دیگر کتابوں میں استعمال کیے ہیں ۔ اگرچہ اس کو زبان کے سیکھنے میں بڑے دشوار گذار راستوں سے گزرنا پڑا  مگر اس نے جلد ہی ان مشکلات پر قابو پالیا اور بہت سی اصل

سنسکرت زبانوں کا ترجمہ عربی زبان میں کر ڈالا اور یہی نہیں بلکہ عربی کتابوں کا ترجمہ سنسکرت میں بھی کیا

حوالہ جات

کتاب الہند۔

کتاب التحدید۔

القانون المسعودی ۔

پیج پر فالورز کم ہونے کی بنیاد پر تمھارے سپورٹ کی ضرورت ہے ۔

Loading