Daily Roshni News

اندر شہر صرافہ بازار پشاور میں ڈاکہ۔۔۔ تحریر و تحقیق۔۔۔ عالمگیر خان آفریدی پشاور یونیورسٹی

اندر شہر صرافہ بازار پشاور میں ڈاکہ

تحریر و تحقیق۔۔۔ عالمگیر خان آفریدی پشاور یونیورسٹی

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ اندر شہر صرافہ بازار پشاور میں ڈاکہ۔۔۔ تحریر و تحقیق۔۔۔ عالمگیر خان آفریدی پشاور یونیورسٹی)برصغیر پاک و ہند اور وسطی ایشیاء کی کوئی پہاڑی گزرگاہ درخیبر سے بڑہ کر تاریخی اور کلیدی اہمیت کی حامل نہیں.  صدیوں سے بڑے بڑے نامور فاتحین اور قسمت آزما اسی دروازے سے گزر کر برصغیر میں وارد ہوتے رہے_ سر اولف کیرو کے الفاظ میں ” اس خطے نے اتنے تاریخی اتار چڑھاؤ دیکھے ہیں جو ایشیاء کے کسی ملک بلکہ دنیا کے کسی اور علاقے نے ہر گز نہیں دیکھے ” ایسے کلیدی علاقے کے لوگ بڑے مہم باز ہیں  بڑے جوش اور ولولہ کے مالک ہیں اور شکار کو دیکھتے ہی فورا اس پر جھپٹ پڑتے ہیں…

درہ خیبر آفریدی جنگ آزماؤں کا وطن ہے.  آفریدی قوم کے آٹھ ذیلی قبلیوں میں سے ایک قبیلہ ذخہ خیل ہے.  انگریز کی آمد 1849ء سے لیکر ذخہ خیل من چلے ہمیشہ اس کے خلاف برسر پیکار رہے ٬ جونہی موقع ملتا وہ پشاور چھاؤنی اور نواحی چوکیوں پر پر دھاوا بولتے اور جو ہاتھ لگتا لے کر چلتے بنتے.  انگریز نے بارہا آفریدیوں پر لشکر کشی کی لیکن منہ کی کھائی.

اپنے محل وقوع کے اعتبار سے خیبر کی بڑی اہمیت ہے ٬ اسی لئے افغانستان کے حکمران بھی اس کی سیاست میں گہری دلچسپی لیتے رہے.  وہ آفریدی اور بالخصوص ذخہ خیل جانبازوں کو اکثر  انگریز کے خلاف اکساتے رہتے…

1908 ء میں ایسا واقعہ رونما ہوا جس سے انگریز کی سرحدی حکومت عملی اور اس کا وقار خاک میں مل گیا…  رات کا وقت تھا.  پشاور شہر کے سولہ دروازوں میں سے کوئی بھی کھلا نہ تھا.  مسلح پولیس پہرہ پر تھی٬ ایسے میں ذخہ خیل مہم باز اپنے سربازوں کو لیے آیا.  فیصل  پر سیڑھیاں لگائیں اور مسجد مہابت خان کی دیوار پھلانگ کر پشاور کے مالدار صرافہ بازار میں داخل ہوگیا.  پولیس نے ملتان خان کا نام سنا تو ادھر ادھر کونوں کھدروں میں دبک گئی.  اب میدان صاف تھا.  ذخہ خیلوں نے پورے اطمنان سے سارا مال و اسباب سمیٹا اور واپس چل پڑے.  جاتے جاتے انھوں نے ہوائی فائرنگ بھی کی.  ٹیلی فون کے کھمبوں اور دوسری جگہوں پر ان کی گولیوں کے نشانات کافی عرصہ بعد تک دیکھے جاتے رہے…

ملتان خان کی ایک بار پھر کسی مہم پر سوڑیزے کے میرہ میں مقیم تھا کہ جاسوس کے اطلاع پر فوجی دستہ نمودار ہوا… اس نے سنگینیں چڑھی ہوئی بندوقیں سنبھال رکھی تھیں.  آتے ہی سپاہیوں نے چاروں طرف سے ملتان خان اور اس کے سرفروشوں کو گھیرے میں لے لیا.  انگریز کمانڈر نے بار بار ذخاخیلوں کو ہتھیار ڈالنے کا حکم دیا.  لیکن ذخہ خیل ڈٹے رہے.  وہ کل سات آٹھ افراد تھے اور دوسری طرف پوری پلٹن…  آفریدیوں کے پاس چند بندوقیں تھیں اور ٹھوڑی سی گولیاں…  ان کے مد مقابل کے پاس گولہ بارود کی کمی تھی نہ روپے پیسے اور خوراک کی.

ا نگریز کمانڈر نے ایک بار پھر ملتان خان کو للکارا اور ایسے ہتھیار ڈالنے کو کہا لیکن ہتھیار ڈالنے کے نام سے ملتان خان واقف نہ تھا.  فرنگی نے فائرنگ شروع کی تو ملتان خان نے بھی سنبھلا . اس کی پہلی گولی سے ایک انگریز کپتان خاک و خون میں لت پت ہوا.  دوسری گولی سے دوسرا انگریز ارمی آفیسر ہلاک ہوا. انگریز جانتے تھے کہ ملتان خان کے پاس کارتوس محدود تعداد میں تھے.  اس لیے وہ لڑائی کو طول دیتے رہے.  ملتان خان نے بھی جوابی فائرنگ کی رفتار کم سے کم کردی تاکہ زیادہ سے زیادہ وقت  تک مخالف کو الجھائے رکھے.  رفتہ رفتہ ملتان خان اور اس کے ساتھیوں کی بندوقیں خاموش ہوگئیں.  پھر بھی انگریز ان کے سامنے آنے سے خائف تھے.  اسے معلوم تھا کہ ہر آفریدی جانباز نے ایک ایک کارتوس ضرور بچا کر رکھا ہوگا.  جس سے وہ اخری حریف کو ٹھنڈا کر سکے ٬ لیکن ایسا نہ تھا صرف ملتان خان کے پاس تھا باقی سب کی بندوقیں  خالی پڑی تھیں.  اب ان کی حیثیت لکڑی کی ایک لاٹھی سے زیادہ نہ تھی _

متواتر چار گھنٹے تک مقابلہ جاری رہا…  جب آفریدیوں کی طرف بڑھے.  جو آفریدی زندہ بچ رہے تھے وہ بندوقیں پھینک کر ایک طرف کھڑے ہو گئے.  انگریز کمانڈر کو ملتان خان کی تلاش تھی جو ایک مردہ گھوڑے کی اوٹ میں لیٹا تھا ٬ یوں دکھائی دیتا تھا جیسے اب بھی وہ نشانہ لے رہا ہو ٬ جب کافی دیر تک اس نے کوئی حرکت نہ کی تو وہ سمجھ گیا کہ ملتان خان موت کی آغوش میں پہنچ چکا ہے . اسکی بندوق دیکھی گئی تو واقعی اس میں ایک گولی موجود تھی.

گورا سپاہی بڑھے اور اس کی لاش کو چارپائی پر ڈال کر رسیوں سے باندھ دیا.  انھیں اس وقت بھی خدشہ تھا کہ کہیں ملتان خان اٹھ کر نہ بیٹھ جائے یا بھاگ نہ نکلے.  جن آفریدیوں کو زندہ گرفتار کیا گیا تھا ان پر مقدمہ درج ہو کر FCR کے تحت انھیں دار پر لٹکایا گیا.

پہ تورو غرو راشہ ملتانہ

شین سترگو بیا لارے نیولے دینہ .

ملتان خان ذخہ خیل کے اس کارنامے پر ہزاروں پشتو ٹپے اشعار موزوں  کیے گئے.  بچے بوڑھے اور عورتیں سبھی وہ ٹپے نغمے اور ملتان خان کے جزبہ حریت کو خراج تحسین ادا کرتے.

زڑگیہ پریگدہ دا پردی خویونہ

زان کے پیدا کڑہ آفریدی خویونہ

تہ خو پختون یے پہ پختو وائیگہ

مکوہ دلتہ انگریزی خویونہ .

تحریر و تحقیق : عالمگیر خان آفریدی پشاور یونیورسٹی

Loading