Daily Roshni News

انسانوں کو کینسر کیوں ہوتا ہے؟۔۔۔ تحریر۔۔۔سہیل افضل

انسانوں کو کینسر کیوں ہوتا ہے؟

تحریر۔۔۔سہیل افضل

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ انسانوں کو کینسر کیوں ہوتا ہے؟۔۔۔ تحریر۔۔۔سہیل افضل)اگر ہم مختلف بیماریوں کی تاریخ پڑھیں تو آج سے کچھ سو سال پہلے تک کینسر کوئی خاص مشہور بیماری نہیں تھی انسانوں کے درمیان۔ صرف انیسویں صدی میں انسانوں کے درمیان جو بیماریاں زیادہ خطرناک تھی ان میں چیچک، ایک حلق کی بیماری diptheria یا ٹی، بی زیادہ عام تھی۔ صرف 1930 میں سپینش فلو کی وبا نے دنیا بھر میں تقریباً 10کروڑ افراد کی جان لے لی۔ چیچک بھی اس حوالے سے کچھ کم نہیں تھی صرف بیسویں صدی کے اندر یہ بیماری تقریباً 30 کروڑ سے 50 کروڑ  کے قریب انسانوں کی جان لے چکی ہے۔ یہ بیماریاں انسانوں کے درمیان کینسر سے زیادہ مشہور تھی۔

کینسر اس حوالے سے بہت کم تھا۔ اس کی بڑی وجہ آج سے صرف ایک صدی پہلے تک انسانوں کی اوریج عمریں یہی 30 سے 40 برس کے درمیان تھی۔ اب جب لوگوں کی عمریں ہی کم تھی تو انہیں کینسر ہونے کے چانسز بھی بہت تھوڑے تھے۔ آج انسانوں کی اوریج عمریں دنیا بھر میں اس حوالے سے 70 سے 80 سال کے لگ بھگ ہیں لہذا آج ہم انسانوں کو کینسر ہونے کے چانسز بھی اس حوالے سے 95% بڑھ گئے ہیں۔ یہی وجہ ہے انیسویں صدی کے دوسرے حصے میں اس بیماری کی رجسٹریشن میں تیزی آئی اور آج دنیا بھر میں دل کی بیماری کے بعد دوسری بڑی بیماری کینسر ہے ہمارے درمیان۔

اب سوال یہ ہے یہ ہمیں کیوں ہوتا ہے؟

👈تو اس سوال کا جواب کینسر وہ قیمت ہے جو ہم لوگ آپنے ارتقاء کے لئیے دے رہے ہیں۔ اگر ہمارے سیلز کے اندر میوٹیشن نا یوتی تو ہمیں کبھی کینسر نا ہوتا دوسری طرف اگر یہ سب نہ ہوتا تو ہمارا ارتقاء بھی کبھی نا ہوتا۔ ہم ہمیشہ کے لئیے کینسر فری رہتے۔ ان ساری باتوں کا عملی طور پر مطلب یہی ہے۔ ارتقاء بعض اوقات کچھ انفرادی لوگوں کے لئیے ایک انتہائی مشکل امتحان ہوتا ہے لیکن بنیادی طور پر یہ کافی فائدہ مند ہے ہماری نوع کے لئیے۔

کینسر دراصل کوئی ایک بیماری نہیں بلکہ مجموعہ ہے 200 سے بھی کچھ اوپر قسم کے کینسرز کا جس سے کچھ لوگ آپنی زندگی سے گزرتے ہیں۔ ایک نوجوان لڑکے 15 سے 25 سال کی عمر میں اس کی شرح 1% ہے جبکہ یہی شرح 90% سے اوپر ہو جاتی ہے جب ہم لوگ 70 سے 80 سال کی عمر تک پہنچتے ہیں یعنی جوں جوں ہم بوڑھے ہوتے ہیں۔ ہمارے سیلز اندر کینسر کی شرح بھی تیزی سے بڑھ جاتی ہے۔۔۔

تحریر: سہیل افضل

Loading