Daily Roshni News

انسان اور دوسرے گریٹ ایپس کی دم کیوں نہیں ہے۔۔۔ترجمہ و تلخیص۔۔۔ قدیر قریشی

انسان اور دوسرے گریٹ ایپس کی دم کیوں نہیں ہے

ترجمہ و تلخیص۔۔۔ قدیر قریشی

ہالینڈ(ڈیلی روشنی  نیوز انٹرنیشنل )کم و بیش تمام فقاری جانوروں (یعنی ایسے جانور جن میں ریڑھ کی ہڈی ہوتی ہے) میں دم جسم کا ایک لازمی حصہ ہوتی ہے- جانوروں کے لیے دم ایک کثیر المقاصد ٹول ہے جس سے مختلف جانور مختلف کام لیتے ہیں۔ صرف انسان اور دوسرے گریٹ ایپس (great apes) مثلاً گوریلا، چمپنزی اور بونوبو ایسی انواع ہیں جن کی دم نہیں ہوتی، اگرچہ پرائمیٹس کی اکثر انواع کی دم ہوتی ہے- فاسل ریکارڈ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ انسانوں اور دوسرے گریٹ ایپس کے مشترکہ اجداد کی دم موجود تھی لیکن اب سے لگ بھگ دو اڑھائی کروڑ سال پہلے ان اجداد کی دم معدوم ہو گئی-

اب سائنس دانوں نے وہ جین دریافت کر لیا ہے جس میں میوٹیشن سے ہمارے اجداد میں دم معدوم ہوئی- سائنسی جریدے ‘نیچر’ میں شائع ہونے والے ایک حالیہ پیپر میں سائنس دانوں نے ڈی این اے کی وہ سیکوینس دریافت کرنے کا دعویٰ کیا ہے جس میں میوٹیشن کی وجہ سے انسانوں اور دوسرے گریٹ ایپس کے اجداد میں دم معدوم ہوئی- اس پیپر کے مصنف ہارورڈ یونیورسٹی کے سائنس دان ڈاکٹر بو شیا (Bo Xia) اور ان کی ٹیم ہے۔ اس ٹیم کی دریافت سے ہمیں وہ ارتقائی پریشرز سمجھنے میں مدد ملے گی جن کی وجہ سے یہ میوٹیشن ہمارے اجداد میں فائدہ مند ثابت ہوئی۔ ماہرین کا خیال ہے کہ ہمارے اجداد کے دو پاؤں پر چلنے کی قابلیت میں دم کی عدم موجودگی نے انتہائی اہم کردار ادا کیا- اگر ہمارے اجداد کی دم معدوم نہ ہوئی ہوتی تو انسان دو پاؤں پر چلنے پھرنے اور خصوصاً بھاگنے کی قابلیت نہ رکھ پاتے

اس سے پہلے چوہوں پر تجربات سے سائنس دان لگ بھگ سو ایسے جینز دریافت کر چکے تھے جو دم کی تشکیل میں کردار ادا کرتے ہیں- یہ تمام جینز انسانوں اور دوسرے گریٹ ایپس کے ڈی این اے میں بھی پائے جاتے ہیں- ڈاکٹر شیا کی ٹیم نے اس مفروضے سے اپنی تحقیق کا آغاز کیا کہ گریٹ ایپس کے اجداد میں دم کی عدم موجودگی کی وجہ انہی میں سے کوئی جین ہو گا- چنانچہ اس ٹیم نے گریٹ ایپس اور باقی جانوروں کے ڈی این اے میں ان سو جینز میں نیوکلیوٹائڈز کا تفصیلی موازنہ کیا تو انہیں ایک جین ملا جس کا نام TBXT ہے- یہ جین کچھ مخصوص پروٹینز کی اینکوڈنگ کرتا ہے جو حمل کے دوران جنین کے جسم میں وہ سٹرکچر بناتا ہے جن سے حمل کی اگلی سٹیجز میں دم تشکیل پاتی ہے- گریٹ ایپس میں اس جین میں ایک میوٹیشن موجود ہے جس وجہ سے یہ جین اب فعال نہیں رہا- یہ میوٹیشن تلاش کرنا آسان کام نہیں تھا کیونکہ یہ میوٹیشن ایک یا دو نیوکلیوٹائڈز کی تبدیلی نہیں ہے بلکہ TBXT جین میں ایک ‘جمپنگ جین’ شامل ہو چکا ہے جسے AluY کہا جاتا ہے

انسانوں اور جانوروں کے ڈی این اے میں AluY بکثرت پایا جاتا ہے- انسانی ڈی این اے میں AluY کی لاکھوں کاپیاں جگہ جگہ پائی جاتی ہیں- اس جین کو ‘جنک ڈی این اے’ (junk DNA) سمجھا جاتا ہے۔ عموماً ڈی این اے کا یہ ٹکڑا کسی پروٹین کو اینکوڈ نہیں کرتا اس لیے اسے جین میپنگ کے دوران AluY کی سیکونس کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے- عموماً یہ ٹکڑا کسی فعال جین میں پو تو بھی اس جین کی کارکردگی کو متاثر نہیں کرتا یعنی AluY کی شمولیت کے بعد بھی جین کا باقی حصہ پروٹین بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے- لیکن TBXT کے کیس میں یہ ٹکڑا جین میں ایک ایسی جگہ شامل ہوا کہ یہ حصہ اب جین کی ٹرانسکرپشن میں بھی شامل ہو رہا ہے (یعنی خلیوں کا ٹرانسکرپشن میکانزم جو جین کو پڑھ کر اس کی انفارمیشن کو آر این اے مالیکیول میں کاپی کرتا ہے، اس غیر فعال جین کو بھی آر این اے میں منتقل کرنے کی کوشش کر رہا ہے)۔ اس طرح جو آر این اے بنتا ہے وہ دم بنانے کے لیے درکار پروٹین بنانے کے قابل نہیں رہتا۔ گویا اس ٹیم نے غالباً وہ میوٹیشن دریافت کر لی ہے جو ہمارے اور دوسرے گریٹ ایپس کے مشترکہ اجداد میں دم کے معدوم ہونے کا باعث بنی-

اب سوال یہ تھا کہ یہ کیسے ثابت کیا جائے کہ دم کی معدومیت کی وجہ یہی میوٹیشن تھی؟ یہ ثابت کرنے کے لیے اس ٹیم نے چوہوں پر تجربات کیے- کرسپر ٹیکنالوجی کے ذریعے چوہوں کے ایمبریو (جنین) کے ڈی این اے میں TBXT جین میں عین اسی جگہ پر AluY کی سیکوینس شامل کی گئی جہاں پر گریٹ ایپس کے ڈی این اے میں یہ سیکونس شامل ہے- اس کے بعد ان جنین کو مادہ چوہوں میں امپلانٹ کیا گیا اور حمل کے دوران ان ایمبریوز کی دم کی تشکیل کے پراسیس کو سٹڈی کیا گیا- ان ایمبریوز کی دم یا تو بالکل تشکیل نہیں پائی یا پھر بنی لیکن نارمل چوہوں کی دم سے بہت زیادہ چھوٹی رہی- اس کے علاوہ کچھ ایمبریوز میں نہ صرف دم نہیں بنی بلکہ حرام مغز بھی مکمل طور پر نہیں بن پایا اور پیدائش کے بعد ایسے چوہوں کا نچلا دھڑ مفلوج پایا گیا- عین یہی مسئلہ انسانوں اور دوسرے گریٹ ایپس میں بھی پایا جاتا ہے- انسانوں میں لگ بھگ 0.1 فیصد نوزائیدہ بچوں میں حرام مغز نامکمل ہوتا ہے

اس سٹڈی سے سائنس دانوں نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ ہمارے اور گریٹ ایپس کے مشترکہ اجداد میں اب سے لگ بھگ اڑھائی کروڑ سال پہلے یہ میوٹیشن ہوئی جس سے ان میں سے کچھ اجداد کی دم بہت چھوٹی ہو گئی اور کچھ میں بالکل ہی معدوم ہو گئی- یہ وہ وقت تھا جب افریقہ میں ماحول کی تبدیلی کی وجہ سے درخت کم ہو رہے تھے اور میدانوں میں اونچی گھاس بہت زیادہ ہو رہی تھی- اس گھاس میں رہنے والی انواع کے لیے دو پاؤں پر چلنا بہت زیادہ فائدہ مند تھا کیونکہ ایسا کرنے سے افراد اپنا سر گھاس سے اوپر رکھ سکتے تھے اور ارد گرد کے خطرات سے جلد باخبر ہو سکتے تھے- یہ ارتقائی پریشر اس قدر زیادہ تھا کہ دم کی عدم موجودگی افراد کی فٹنس میں خاطر خواہ اضافہ کر دیتی تھی- اس وجہ سے ہمارے وہ اجداد زیادہ کامیاب رہے جن کی دم نہیں تھی

افریقہ میں اب تک دریافت ہوئے فاسل ریکارڈ سے یہ بات بالکل واضح ہے کہ آج سے لگ بھگ اڑھائی کروڑ سال پہلے ہمارے اجداد درختوں کے بجائے زیادہ وقت زمین پر گھاس میں گذارتے تھے- دم کے بغیر افراد کے لیے عمودی کھڑے ہونا، دو پاؤں پر چلنا اور گھاس میں رہتے ہوئے خطرات پر نظر رکھنا نسبتاً زیادہ آسان تھا- کئی ملین سال کے پراسیس میں دم کے بغیر اجداد کی نسلیں اس قدر کامیاب رہیں کہ ان کی ذہانت میں تیزی سے اضافہ ہونے لگا- انہی اجداد سے موجودہ گوریلا، چمپنزی، بونوبو ارتقاء پذیر ہوئے اور ان کی ایک برانچ ارتقاء کر کے موجودہ انسانوں کی شکل میں اس دنیا میں موجود ہے

اوریجنل انفارمیشن کا لنک:

Loading