Daily Roshni News

انسان: حیوان سے بدتر مخلوق؟ ۔۔۔تحریر۔۔۔۔ بلال شوکت آزاد

انسان: حیوان سے بدتر مخلوق؟

تحریر۔۔۔۔ بلال شوکت آزاد

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ انسان: حیوان سے بدتر مخلوق؟ ۔۔۔تحریر۔۔۔۔ بلال شوکت آزاد)میں نے برسوں تک یہ بات محض ایک فلسفیانہ جملہ سمجھ کر ہنسی میں اڑا دی تھی کہ ”جانور انسان سے بہتر ہیں“۔ مگر اب، عمر کے اس پڑاؤ پر آ کر، زندگی کے نشیب و فراز دیکھ کر اور معاشرتی چہروں کے پیچھے چھپے تعفن کو سونگھ کر، میرا دل کہتا ہے یہ محض جملہ نہیں، بلکہ ایک عہد کی گواہی ہے۔

آپ نے کبھی غور کیا؟

شیر اپنے بچے کو نوچ کر نہیں کھاتا، کتیا اپنے پلّے کو درخت سے لٹکا کر سزا نہیں دیتی، گائے اپنے بچھڑے کو دودھ سے محروم کر کے دوسرے کے سامنے نخرے نہیں دکھاتی۔

یہ سب سفاکیاں صرف انسان کا ہنر ہیں۔

جنگل میں اگر کوئی کچا خون پیا جاتا ہے تو بھوک کی شدت میں، اور وہ بھی اتنا ہی جتنا پیٹ بھرنے کو کافی ہو۔ لیکن انسان بھوکا بھی کھاتا ہے اور پیٹ بھرنے کے بعد بھی دوسرے کا نوالہ چھین لیتا ہے۔ انسان کی بھوک صرف پیٹ کی نہیں، اس کے نفس کی ہے، اس کی انا کی ہے، اس کی خودغرضی کی ہے۔

جانور سوتیلا نہیں ہوتا۔ لیکن انسان ہر رشتے کو سوتیلا بنانے کی مہارت رکھتا ہے۔ ماں کا رشتہ بھی انسان کے ہاتھوں کمزور پڑ جاتا ہے۔ ایک عورت دوسری کی اولاد کو دیکھ کر دل میں ایسا زہر پالتی ہے کہ سانپ بھی شرما جائے۔ اور یہ زہر فقط نظر یا بات تک محدود نہیں رہتا، یہ روٹی کے نوالے تک جا پہنچتا ہے۔ ایک بچے کو پیٹ بھر کر کھلا دینا اور دوسرے کو دانہ دانہ ترسوانا، یہ ظلم کسی جانور کے دِل میں نہیں آتا۔ لیکن انسان یہ ظلم نہ صرف کرتا ہے بلکہ اسے عقل، چالاکی اور گھریلو سیاست کا نام دے کر جائز بھی بنا لیتا ہے۔

جنگل کی زندگی میں طاقتور اور کمزور کا فرق ہے۔ مگر وہاں کمزور کو مارنے والے بھی کمزور کے حصے کا گوشت کھا کر شکریہ ادا کرتے ہیں۔ وہاں کسی کی موت دوسرے کے لیے رزق ہے، وہاں کسی کی ہلاکت نظامِ قدرت کا حصہ ہے۔ لیکن انسان کی سفاکی ایسی ہے کہ وہ زندہ کو بھی زندہ رہنے نہیں دیتا۔ وہ سانس لیتے ہوئے وجود کو مسل کر خوش ہوتا ہے۔ وہ دوسرے کی خوشی میں اپنے غم کا مرہم ڈھونڈتا ہے۔ انسان وہ واحد مخلوق ہے جس کا دل تب خوش ہوتا ہے جب دوسرا جل کر راکھ ہو۔

یاد ہے آپ کو وہ قصے کہانیاں، جن میں پرانی عورتیں سوتیلی ماں کی مثالیں دیا کرتی تھیں؟ کہ فلاں بچہ بھوکا رہ گیا، فلاں کی پرورش رُل گئی۔ تو یہ کہانیاں محض خیالات نہیں، معاشرتی تجربے تھے۔ آج بھی گھروں کے اندر ایسے ڈرامے چل رہے ہیں جنہیں دیکھ کر شیطان بھی ہنس پڑتا ہے کہ

“میں نے تو صرف وسوسہ ڈالا تھا، باقی کام تو یہ خود ہی فنکاری سے کر گئے۔”

اور سوتیلی ماں کا قصہ صرف بچوں تک محدود نہیں۔ بیوی کا دل بھی شوہر کی دوسری بیوی کے سامنے جلتا ہے۔ سوتن کا زہر ایسا ہے کہ وہ اپنے شوہر کو خوش دیکھنے کے بجائے اس بات پر خوش ہوتی ہے کہ دوسری عورت رو رہی ہے۔ ایک دیورانی کے دل کی تسکین اپنی خوشی میں نہیں بلکہ جیٹھانی کی بے عزتی میں ہے۔ ایک بھابھی کا سکون اپنے کمرے کے آرام میں نہیں بلکہ دوسری بھابھی کی تھکن دیکھ کر ہوتا ہے۔ یہ سب کچھ انسان کے دِل کی سفاکی ہے، جو کسی جانور کو ودیعت نہیں کی گئی۔

آپ نے کتیا کو دیکھا ہوگا، وہ اپنے پلّوں کو اگر کوئی دوسرا کتا بھی چھو لے تو غصے میں ضرور آتی ہے، مگر کبھی ایسا نہیں کہ اپنے کسی پلّے کو خود بھوکا مار دے۔ انسان مگر ایسا کرتا ہے۔ اپنی ہی اولاد کو بھوک، غربت یا نفرت کے حوالے کر دیتا ہے۔ بیوی کے ساتھ ذاتی مسئلے کا بدلہ بچے سے لیتا ہے۔ بہن کے ساتھ انا کا بدلہ بھانجی کو ترسا کر لیتا ہے۔ بیوی، ساس کے مقابلے میں بیٹے کی زندگی کا زہر گھول دیتی ہے۔ یہ زنجیریں اور گھناؤنے کھیل صرف انسان ہی کھیلتا ہے۔

ہم اکثر کہتے ہیں کہ

“جانور عقل نہیں رکھتے۔”

ہاں، جانور عقل نہیں رکھتے، مگر احساس رکھتے ہیں۔ ہم عقل رکھتے ہیں، مگر احساس کھو چکے ہیں۔ عقل کو ہتھیار بنا کر ہر رشتے کو زخمی کرتے ہیں۔ ایک ماں اپنی ہی بیٹی کو شادی میں اس لیے روک دیتی ہے کہ بہو کے نصیب کی خوشیاں پہلے نہ آجائیں۔ ایک بھائی اپنے بھائی کو اس لیے برباد کرتا ہے کہ جائیداد کے دو ٹکڑے برابر نہ ہو جائیں۔ ایک بہن اپنی سگی بہن کی ہنسی اس لیے برداشت نہیں کرتی کہ اس کا نصیب اس کے نصیب سے بہتر کیوں نکلا۔

یہی وہ جگہ ہے جہاں انسان جانور سے کم تر ہو جاتا ہے۔ جانوروں میں غیرت ہوتی ہے، اپنی نسل کی بقا کا شعور ہوتا ہے۔ شیرنی اپنے زخمی بچے کو بھی زندہ رکھنے کی کوشش کرتی ہے۔ گائے اپنے بچھڑے کو پیار سے چاٹتی ہے تاکہ وہ کھڑا ہو سکے۔ پرندے اپنی چونچ سے چونچ ملا کر بچوں کو دانہ کھلاتے ہیں۔ مگر انسان اپنی اولاد کو بھی یتیم سا کر دیتا ہے، اپنی عورت کو بھی رلنے دیتا ہے، اپنے ماں باپ کو بھی بوڑھوں کے گوشے میں پھینک آتا ہے۔

میں سوچتا ہوں کہ جنگل میں اگر کبھی جانوروں کی عدالت لگے، اور وہاں انسان کو کھڑا کر کے اس کے جرائم گنوائے جائیں، تو فیصلہ کیا ہوگا؟

کیا وہ کہیں گے کہ یہ اشرف المخلوقات ہے؟

یا کہیں گے کہ یہ وہ مخلوق ہے جس نے نہ صرف خدا کو دھوکہ دیا، بلکہ اپنے خون اور رشتوں کو بھی دھوکہ دیا؟

انسان کی خودغرضی کی انتہا یہ ہے کہ وہ اپنے ہی دکھ کو بھی سیاسی بنا لیتا ہے۔ اپنی ہی بدبختی کو دوسرے پر وار کرنے کا ہتھیار بنا لیتا ہے۔ اگر اس کی زندگی میں ذرا سا کانٹا بھی چبھ جائے تو وہ چاہتا ہے کہ دوسرا پورا جسم لہو لہان ہو۔ اور جب اسے اپنے برابر کوئی خوش نظر آئے، تو اس کے اندر کا حیوان جاگتا ہے, مگر یہ حیوان درندوں جیسا معصوم نہیں، یہ حیوان انسان جیسا سفاک ہے۔

یقین مانیے، میں نے ایک عورت کو اپنی ہی بہن کی شادی میں یہ کہتے سنا:

“اس کا جوڑا اتنا خوبصورت کیوں ہے؟ میری شادی میں تو اتنا قیمتی نہیں تھا۔”

اور اسی لمحے مجھے لگا کہ شاید شیرنی، کتیا، گائے اور پرندے ہم سے بدرجہا بہتر ہیں۔ وہ کبھی یہ نہیں سوچتے کہ دوسرے بچے کا دانہ زیادہ کیوں ہے۔ وہ کبھی حسد سے اپنی نسل کو برباد نہیں کرتے۔

اور پھر دل یہ کہتا ہے: شاید یہی وجہ ہے کہ انسان کی دعا کبھی قبول نہیں ہوتی، کیونکہ اس کی زبان جھوٹی ہے، دل منافق ہے اور نیت سیاہ ہے۔ شاید اسی لیے جانور دعا نہیں کرتے، مگر ان کی معصومیت ہی ان کی دعا ہے۔ ان کی خاموشی ہی ان کی عبادت ہے۔

آخر میں بس اتنا کہوں گا:

اگر کبھی آپ کے دل میں یہ خیال آئے کہ ہم اشرف المخلوقات ہیں، تو ذرا اپنی آنکھیں بند کر کے سوچئے… کہیں ایسا تو نہیں کہ شیر، بکری، کتا اور پرندے رات کو رب کے حضور یہ دعا کرتے ہوں:

“اے اللہ! ہمیں انسانوں کے شر سے محفوظ رکھ۔”

Loading