انسان کا مستقبل
قسط نمبر2
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ) حالیہ ریسرچ میں ماہرین نے موسمیاتی تبدیلی کو اقوام عالم کیلئے سب سے بڑا پاپانچ قرار دیا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ مستقبل میں موسم انسانوں کی برداشت سے زیادہ گرم ہو سکتے ہیں۔
سائنس دانوں کے مطابق کار خانوں اور زراعت کے ذریعے گرین ہاؤس گیسز فضا میں داخل ہو کر قدرتی درجہ حرارت میں اضافے کا سبب بن رہی ہیں، اس عمل کو عالمی تپش یا ماحولیاتی تبدیلی کہا جاتا ہے۔ ریکارڈ سے ظاہر ہوتا ہے کہ گزشتہ سو سال میں دنیا کے اوسط درجہ حرارت میں 0.8 درجے کا اضافہ ہوا ہے جب کہ 0.6 درجے فیصد اضافہ صرف پچھلے تین عشروں میں دیکھنے میں آیا ہے۔ مصنوعی سیاروں سے حاصل شدہ ڈیٹا کے مطابق حالیہ عشروں میں سمندر کی سطح تین ملی میٹر سالانہ اونچی ہو گئی ہے اور پہاڑوں پر واقع گلیشیئر اور قطبی برف کی تہہ پکھل رہی ہے۔ بین الا قوامی پینل برائے ماحولیاتی تبدیلی کے تخمینے کے مطابق 21 ویں صدی کے اختتام تک عالمی درجہ حرارت میں 1.5 ڈگری کا اضافہ ممکن ہے جبکہ دو ڈگری تپش کو خطرناک عالمی تبدیلی کی دہلیز سمجھا جاتا ہے۔ موسمیاتی تبدیلی سے صاف پانی کی فراہمی میں کمی، خوراک کی پیداوار میں بڑی تبدیلیاں اور سیلابوں، طوفانوں، قحط سالی اور گرمی کی لہروں میں اضافے کی وجہ سے بڑے پیمانے پر اموات واقع ہو سکتی ہیں۔ یو کے نیشنل ہیلتھ سروس کی 2015 میں ہونے والی بین الا قوامی تحقیق کے مطابق دنیا میں زیادہ اموات کی وجہ تبدیل ہو تا موسم ہے۔ ماہرین نے یہ نتائج دنیا کے 384 مقامات پر ہونے والی 7 کروڑ بیالیس لاکھ اموات کی بنیاد پر اخذ کیے۔ عالمی ادارہ صحت یونیسیف اور طبی جریدہ دی لینسٹ کی رپورٹ کے مطابق کوئی بھی ملک ماحولیاتی تبدیلی کے منفی اثرات سے بچاؤ کے لیے کما حقہ اقدامات نہیں کر رہا ہے۔
ہے۔ انسانوں کی منفی خواہشات اور طمع قدرتی ماحول اور فطرت کی ترتیب کو منتشر کر رہی ہیں۔ 1945ء کے بعد سے اتنی زمین زراعت کے استعمال میں آچکی ہے جتنی گزشتہ چار صدیوں میں بھی نہیں آئی تھی اور اسی وجہ سے زمین پر جانوروں کی 10 سے 30 فیصد تک اقسام کی زندگی مخطرے سے دوچار ہے۔ آلودگی، دنیا کو در پیش سب سے بڑا ما حولیاتی مسئلہ ہے۔ یہ آلودگی اب انسانی زندگی کیلئے شدید مخطرہ بنتی جارہی ہے۔ عالمی ادارہ صحت کا کہنا ہے کہ ہر سال دنیا بھر میں 55لاکھ انسان موٹر گاڑیوں، صنعتی اداروں اور کار خانوں کی جانب سے پھیلائی جانے والی فضائی آلودگی کی وجہ سے ہلاک ہو جاتے ہیں۔ ان انسانوں میں زیادہ کا تعلق غریب ممالک سے ہوتا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق ترقی پذیر ممالک میں ہر آٹھ سیکنڈ کے بعد ایک بچہ آلودہ پانی کے استعمال کی وجہ سے مر جاتا ہے۔ ان ممالک میں ہر سال 34لا کھ انسان آلودہ پانی کی وجہ سے ہونے والی مختلف بیماریوں سے
ہلاک ہو جاتے ہیں۔
ایک تحقیق کے مطابق 7 سے 20 فیصد کینسر کے مریض ہوا اور گھروں اور دفاتر میں موجود۱آلودگی کی بنا پر اس مرض میں مبتلا ہوتے ہیں۔ صنعتی ممالک میں کار خانوں اور بجلی گھروں کی جانب سے آلودہ ہونے والی زمین ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔ اس زمین میں بھاری دھاتوں کی ایک بڑی مقدار موجود ہے۔ ترقی پذیر ممالک میں کیڑے مار ادویات کی تلفی کیلئے زمین کا استعمال اسے آلودہ کر رہا ہے۔ نائٹریٹ کھادوں کا استعمال اور مویشیوں کا فضلہ زمین کو آلودہ کرنے کا بنیادی سبب ہے۔ یہ کیمیائی فضلہ جب دریاؤں تک پہنچتا ہے تو آبی حیات کیلئے زہر کا کام کرتا ہے۔ اس آلودگی کے نتیجے میں خلیج مکسیکو جیسے ڈیڈ زون
پچھلے کئی سالوں سے سائنس دان مسلسل یہ خبریں دے رہے ہیں کہ گلیشیئر کی برف قطب Dead Zoneتشکیل پاتے ہیں۔
شمالی North Pole اور قطب جنوبی South Pole کی برف نہایت تیزی سے پگھل کر سمندروں میں شامل ہورہی ہے۔ یہ موسمیاتی تبدیلی Climatic Change کے ذریعے ہو رہا ہے۔ اس کو گلوبل وارمنگ Global Warming کہا جاتا ہے۔ برفانی پہاڑوں کے کھلنے سے سمندروں کے پانی کی سطح میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ 2050ء تک یہ تبدیلی اپنی آخری حد پر پہنچ جائے گی۔ یہ ایک شدید تر قسم کا طوفان ہو گا اور دنیا کی اکثر آبادی اس کی زد میں آسکتی ہے۔
ماہرین ماحولیات کے مطابق زمین اپنی تاریخ کے ایک ایسے نئے دور میں داخل ہو رہی ہے جہاں اس کے ماحول کو تباہ کرنے والا بڑا سبب خود انسان ہو گا۔ بین الاقوامی جریدے انٹر نیشنل ہیرلڈ ٹریبیون میں شائع ہونے والے ایک مضمون لکھا گیا ہے کہ ہمارے سیارے میں تیزی سے تبدیلیاں آرہی ہیں اور گذشتہ کچھ دہائیوں میں آنے والی تبدیلیاں گذشتہ پانچ لاکھ سالوں میں رونما ہونے والی تبدیلیوں سے زیادہ ہیں۔انہوں نے کہا کہ پریشانی کی بات انسانی عمل سے آنے والی تبدیلی کی رفتار اور وسعت ہے۔ انسانی عمل کے نتیجے میں فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کی مقدار میں گذشتہ پانچ لاکھ سال میں ہونے والی قدرتی تبدیلی کی رفتار سے دس گنازیادہ ہے۔ سب ممالک کو چاہیے کہ مل کر اس مسئلے کا حل تلاش کریں وگرنہ آنے والی نسلیں موجودہ نسل کو معاف نہیں کریں گی۔ ہم اس حقیقت سے انکار نہیں کر سکتے کہ فطرت کے توازن اور قدرتی ماحولیات میں بگاڑ کی تمام تر ذمہ داری زیادہ منافع کی ہوس، اعلیٰ انسانی اقدار پر حیوانی جبلتوں کا غلبہ اور بے لگام مقابلہ بازی کے رجحان پر عائد ہوتی ہے۔ تلخ سچائی یہ ہے که تمام تر علمی، سائنسی اور فکری کامرانیوں کے با وجود طاقت در حلقوں کی لذت پرستی، خود غرضی اور ہوس گیری نے اس کرہ ارض کو شدید خطرات سے دو چار کر دیا ہے۔
ماحولیات کے جاری بگاڑ کی تشویشناک صورتحال میں عالمی برادری کے سامنے دو راستے ہیں۔ ایک یہ کہ تمام اختلافات، تنازعات اور تعصبات کو بھلا کر مشترک بقا انسانی کو ذہن میں رکھتے ہوئے مل کر جدوجہد کریں اور بگاڑ کو سدھاریں یا پھر دوسرا راستہ وہی ہے جس پر چل رہے ہیں، اس کو جاری رکھ کر کیا ہم تاریک مستقبل کی طرف پیش قدمی نہیں کر رہے…..؟
بشکریہ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ مئی 2021