Daily Roshni News

انسان کو کھلی کتاب کی طرح پڑھئیے۔۔۔قسط نمبر1

انسان کو کھلی کتاب کی طرح پڑھئیے

قسط نمبر1

بشکریہ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل۔۔۔ انسان کو کھلی کتاب کی طرح پڑھئیے )سیکھیے۔۔۔! جسم کی بولی:علم حاصل کرنے کے لئے کتابیں پڑھی جاتی ہیں لیکن دنیا کو سمجھنا اور پڑھنا اس سے بھی زیادہ اہم ہے۔ اس کام کے لیے انسانوں کا مطالعہ کیا جاتا ہے۔

ہر انسان کی شخصیت میں ایک اہم چیز باڈی لینگویج ہوتی ہے یعنی جسم کی زبان۔ ہر جسم کی اپنی ایک زبان ہوتی ہے، جو حالات و واقعات، سانحات و افعال پر غیر ارادی رو عمل ظاہر کرتی ہے، خوشی، غم ، پریشانی، ابہام اور دیگر جذبات کی عکاسی وجود خود بخود کرتا ہے۔ اکثر غیر ارادی طور پر جسم کی زبان اندر کا احوال بتانے لگتی ہے۔ آج کے دور میں باڈی لینگویج روز بروز اہمیت اختیار کرتی جارہی ہے۔ اس فن کے ذریعے دوسروں کو ایک کھلی کتاب کی مانند پڑھا جا سکتا ہے۔

باڈی لینگویج دراصل وہ دور بین ہے جو انسانی دل و دماغ میں جھانک کر دور کی خبر لاتی ہے۔ باڈی لینگویج سے ایسے قفل کھولنے میں مدد ملتی ہے جنہیں زبان کھولنے سے قاصر ہوتی ہے۔ انسانوں کی جسمانی حرکات و سکنات کی مدد سے کسی انسان کی ذہنی و جذباتی کیفیت، شخصیت اور رویوں کو بہتر طریقے سے سمجھا جا سکتا ہے۔

گزشتہ ماہ باڈی لینگویج کے اسباق میں کسی بھی ہنگامی یا غیر ہنگامی صورت حال کے دوران غیر رابطوں کی کیفیات Nonverbally لفظی اور رویوں میں سے ہم نے مستعد، چاق و چوبند ، پر اعتماد اور متفق ظاہر کرنے والے مثبت اور منفی رویوں کے درمیان فرق کا جائزہ لیا تھا۔ اس ماہ ہم بات کریں گے مایوسی، محرومی، نفرت، غصہ اور اضطراب کی کیفیات و جذبات کا لوگ کس طرح اظہار کرتے ہیں۔

Frustrationمایوسی، نفرت اور غصہ کا اظہار :ارونگ گونمین Erving Goffmanکینیڈا کے مشہور ماہر نفیسات اور سو شلوجسٹ تھے، وہ 1963ء میں لکھی اپنی کتاب Behavior in Public Places یعنی ”عوامی مقامات میں برتاؤ میں عام اجتماعات کی جگہوں پر انسانی رویوں کے متعلق کھتے ہیں کہ

تیوڑی چڑھانا، چیں بہ جبیں یعنی ماتھے پر بل، Flown ڈالنامنہ ہی منہ بڑ بڑانا یا کوئی لفظ کہنا، یا پاؤں پٹخنا اور ٹھو کر Kick مارنا، ایسا پیغام ہے جس کا اظہار ناراضی اور ناپسندیدگی کے لیے کیا جاتا ہے۔ یہ ترسیل یا سرایت صرف اس وقت وقوع پذیر ہوتی ہے جب اس کا جسم اس قسم کی سر گرمی کی تاب لانے کے قابل ہو۔“ اگر آپ ٹیلی ویژن پر کوئی فٹ بال میچ دیکھ رہے ہوں تو اس بات کے امکانات ہیں کہ آپ ایک جیسے منظر دیکھیں گے کواٹر بیک پیچھے ہٹتا ہے اور اپنے فارورڈ کو پاس دیتا ہے ، جسے وہ یا تو وصول کر لیتا ہے یا مس کر دیتا ہے۔ ٹیم کے دوسرے کھلاڑی پاس مس ہو جانے کی صورت میں اپنی کر کرتے ہیں۔ گراؤنڈ سے باہرخفگی کا اظہار زمین پر پاؤں مار رسم بیٹھا ہوا ٹیم کا ریزرو کھلاڑی اپنا ہیٹ اتار کر سر کو کھجاتا ہے۔ گردن کے پچھلے حصے کو ہاتھ سے رگڑتا ہے اور اس طرح اپنی محرومی یا فرسٹریشن کا اظہار کرتا ہے کہ اگر میں اس کی جگہ ہوتا تو پاس کبھی مس نہ کرتا۔ حتیٰ کہ کبھی کبھی ٹیلی ویژن دیکھنے والے ناظرین بھی ایسے موقعوں پر بر ملا اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہیں۔ ایسا ہی کرکٹ میچ دیکھتے ہوئے ہوتا ہے، جب آسانی سے ہاتھ میں آتا ہوا کیچ کسی کھلاڑی سے چھوٹ جاتا ہے یا پسندیدہ بلے باز اچانک آؤٹ ہو جاتا ہے تو ٹیلی ویژن پر میچ دیکھنے والے ناظرین میں اچانک مایوسی پھیلتی نظر آئی ہے اور اس کا اظہار وہ کبھی ریموٹ بیچ کر، کبھی صوفے پر ہاتھ مار کر اور کبھی سر کے بالوں کو کھجا کر کرتے ہیں۔ فٹ بال، کرکٹ ، ہاکی ، ریسلنگ یا کوئی بھی اسپورٹس دیکھتے ہوئے ہماری ہمدردیاں خود بخود بٹ جاتی ہیں ۔ ہم میں سے کچھ A ٹیم کی طرف اور کچھ Bٹیم کی طرف ہو جاتے ہیں۔

سانس کے انداز:چھوٹے چھوٹے سانس لینے کے بعض انداز آواز کے اثرات کے ساتھ مشترکہ جنبش کرتے ہیں۔

بیل جب سخت غصے میں ہوتا ہے تو وہ نتھے پھیلا کر اپنے غصہ کا اظہار کرتا ہے۔ جو لوگ طیش میں ہوتے ہیں عموماً چھوٹے چھوٹے سانس لیتے ہوئے باہر نکل جاتے ہیں۔ ایک افسردہ اور غمزدہ صورت حال میں بہت زیادہ جذباتی لوگ لمبے لمبے سانس لیتے ہیں اور پھر ایک لمبی سرد آہ بھرتے ہوئے سانس باہر نکالتے ہیں۔

سانس لینے کا عمل بھی مایوسی اور نفرت کے اظہار میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ مثال کے طور پر سیلز گرل ہیلن کو اس کے باس نے بلایا اور اس سے استفسار کیا کہ وہ بار بار گاہکوں سے چیزوں کی زیادہ قیمت وصول کرنے کی غلطی کیوں کرتی ہے۔ باس ایک لمبی سانس لیتے ہوئے بولنا شروع کرتا ہے۔

مس ہیلن تمہیں کتنی بار سمجھایا کہ تم چیزوں کی زیادہ قیمت وصول نہ کیا کرو لیکن تمہیں اس کا احساس ہی نہیں ہوتا۔ “ ہیلن جواب میں کہتی ہے کہ وہ حساب کتاب میں اتنی اچھی نہیں ہے اس لیے اس سے غلطی ہو جاتی ہے۔ بہتر ہے کہ اسے جمع تفریق کرنے والی مشین فراہم کردی جائے تو اس کی کار کردگی بہتر ہو سکتی ہے اور غلطی کا احتمال بھی نہیں رہے گا۔ باس ہیلن کے اس جواب،وضاحت اور تجویز کو اپنی ذات پر ایک قسم کی تنقید خیال کرتا ہے اور چھوٹے چھوٹے سانس لینا شروع کر دیتا ہے جو اس بات کا اظہار ہے کہ اب وہ ہیلین کو مزید برداشت نہیں کر سکتا۔

باس پھر تنک کر جواب دیتا ہے کہ ہم یہاں تمہارے کام کے بارے میں بات کر رہے ہیں کاروبار کے طریقہ کار کے بارے میں نہیں۔ اب اگر ہیکن سمجھ دار ہے تو وہ باس کے ان جملوں کو سن کر بالکل خاموش رہے گی۔

ہم میں سے بہت سوں کا اپنی روزمرہ کی زندگی میں اس قسم کی صورت حال سے واسطہ پڑتا ہے۔ ہمیں سانس لینے کی آوازوں کو سننے اور ان کے مطالب سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے تاکہ ہم اپنے ارد گرد کے ماحول میں جہاں پر کسی وقت بھی کوئی نازک صورت حال پیدا ہو ہو سکتی ہے صحیح طرح زندگی بسر کر سکیں۔

چچ چچ چچ اور تف کی آواز جسے انگریزی میں تسک Tsk کہتے ہیں، یہ آواز عموماً ناراضی اور نفرت کا اظہار کرنے کے لیے نکالی جاتی ہے۔ عموما ! لوگ کسی لاچار اور بے بس انسان یا کوئی خراب اور ناپسندیدہ منظر دیکھ کر اس لفظ کااظہار کرتے ہیں۔ ” بیچ بیچ بیچ بیچارا ….

مٹھی بھینچنا:ڈالٹر لوئیس لوئب Louis Loeb نے اپنے ایک ریسرچ پیپر The Fist میں اس انداز کے بارے میں لکھا ہے کہ یہ ایک لاشعوری حرکت کا دوسری لاشعوری حرکت کے درمیان رابطہ ہے۔ اس کی منطق یہ ہے کہ ایک شخص محض مٹھی کے انداز۔۔۔جاری ہے۔

بشکریہ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ

Loading