انسان کی اصل
نوری جسم ہے
)قسط نمبر(1
تحریر۔۔۔خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔انسان کی اصل نوری جسم ہے)یہ مضمون چھ زاویوں سے لکھا گیا ہے تا کہ قارئین آسانی سے سمجھ سکیں ۔ ماہنامہ قلند رشعور کے قارئین اگر اس سلسلے میں کوئی سوال کرنا چاہیں تو لکھ کر بھیج سکتے ہیں۔ اللہ کی دی ہوئی توفیق کے ساتھ جواب شائع کیا جائے گا۔
ہم رات کو گھڑی دیکھ کر ایک بجے سوتے ہیں۔ خواب کی حالت میں ایک ملک سے دوسرے ملک جا پہنچتے ہیں۔ واقعات کی طویل فلم کڑی در کڑی دیکھتے ہیں۔ اچانک بیدار ہو کر گھڑی دیکھتے ہیں تو چند سیکنڈ یا چند منٹ وقت گزرتا ہے۔ مادی جسم کے ساتھ یہ اعمال و حرکات واقع ہوں تو ہفتوں، مہینوں کے دن اور گھنٹوں سے گزرنا ہو گا۔ نیز ہزاروں میل کی مسافت طے کرنا ہوگی ۔ آدمی میں ایک صلاحیت جو بیداری اور خواب دونوں میں متحرک رہتی ہے۔ قوت حافظہ ہے۔ انسان زندگی کے ہر قدم پر اس قوت سے کام لیتا ہے۔ لیکن اس پر غور نہیں کرتا کہ بچپن کے زمانے کا تصور کیا جائے تو ایک لمحہ میں ذہن بچپن کے واقعات کا احاطہ کر لیتا ہے۔ اگرچہ ہم سالوں کا وقفہ گزار چکے ہیں۔ اور ہزار ہا تبدیلیوں سے گزر چکے ہیں لیکن ذہن جب ماضی کی طرف سفر کرتا ہے تو سالوں کا وقت سیکنڈ کے ہزارویں حصے میں طے کرکے بچپن کے زمانے میں جا پہنچتا ہے۔ ہم ماضی کے واقعات کو نہ صرف محسوس کر لیتے ہیں بلکہ یہ واقعات اس طرح نظر آتے ہیں جیسے آدمی کوئی فلم دیکھ رہا ہے۔ ایسا بھی ہوتا ہے کہ شعور اس کا ادراک کر لیتا ہے۔ اگر بہت زیادہ یکسو ہو جائے تو شعور میں سالوں کا وقفہ تقریبا صفر ہو جاتا ہے یعنی اگر آدمی ساٹھ سال کا ہے اور وہ پانچ سال کی عمر میں واقعہ گزرنے کا ذکر کرتا ہے تو یاد آجاتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ پچپن سال کے ماہ و سال اور شب روز کہاں گئے ؟ ہم کسی دلچسپ کتاب کا مطالعہ کرتے ہیں تو مطالعہ میں اتنی زیادہ دلچسپی بڑھ جاتی ہے کہ وقت گزرنے کا احساس نہیں رہتا ، وقت کی نفی ہو جاتی ہے۔ ہم مطالعہ سے فارغ ہوتے ہیں تو محسوس ہوتا ہے کہ چند منٹ گزرے ہیں لیکن وقت بہت زیادہ گزر چکا ہوتا ہے۔ اسی طرح اگر کسی کا انتظار کیا جائے تو منٹ گھنٹوں کے برابر لگتے ہیں۔ میرا ذاتی تجربہ ہے کہ میں ایک رات کوئی ناول پڑھ رہا تھا پڑھنے میں اتنی زیادہ یکسوئی ہوئی کہ فجر کی اذان ہوگئی۔
ایک شہر سے دوسرے شہر کی طرف سفر کرتے ہیں۔ راستے میں کئی جگہیں بہت خوبصورت ہوتی ہیں اور کتنی ہی جگہ گزرنے پر ناگواری محسوس ہوتی ہے۔ جگہ جگہ سائن بورڈ دیکھتے ہیں۔ سڑک پر دوڑتی ہوئی ہزاروں گاڑیاں ہماری آنکھوں کے سامنے گزرتی رہتی ہیں۔ مناظر میں سرسبز و شاداب درخت، اور بڑے بڑے لان دیکھتے ہیں۔ اور جب دوسرے شہر میں پہنچ جاتے ہیں، اگر کوئی پوچھے کہ راستہ میں کیا کیا دیکھا ہے تو سفر میں دیکھے ہوئے مناظر کو تفصیل کے ساتھ بیان نہیں کر سکتے۔ لیکن ہم نے اگر کسی جگہ قیام کیا ہے۔ کوئی منظر غور سے دیکھا ہے تو ہم بیان کر دیتے ہیں۔ تمام مناظر ہم بیان نہیں کرتے۔
جن باتوں پر ہماری توجہ قائم ہوتی ہے۔ اسے ہمارا ذہن ریکارڈ کر لیتا ہے۔ جن باتوں پر ہماری توجہ نہیں جاتی وہ یاد نہیں رہتیں ۔ شعور لاشعور کی کیفیات کو دیکھ لیتا ہے۔
لاشعور میں شعور اس طرح سما جاتا ہے کہ اس میں معانی پہنانا بھی مشکل نہیں ہوتا ۔ خواب کے حواس قدرت کا ایسا فیضان ہے جو ہر شخص کو حاصل ہے۔ انسان اس سے فائدہ اٹھانا چاہے تو زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھا سکتا ہے۔
روحانی علم کی ابتداء اس بنیادی سبق سے ہوتی ہے کہ انسان محض گوشت پوست کے جسم کا نام نہیں ہے۔ جسم کے ساتھ ایک اور ایجنسی وابستہ ہے جس کا نام روح ہے اور جو اس جسم کی اصل ہے۔ انسان کی روح جسم کے بغیر بھی حرکت کرتی ہے اور انسان کو اگر ملکہ حاصل ہو جائے تو وہ جسم کے بغیر بھی روحانی سفر کر سکتا ہے۔ روح کی یہ حرکت روزانہ غیر شعوری طور پر خواب میں واقع ہوتی ہے۔ دن رات میں کوئی وقت ایسا ضرور آتا ہے جب انسان طبیعت میں ایک دباؤ محسوس کرتا ہے۔ غیر ارادی طور پر حواس بوجھل ہونے لگتے ہیں۔ پوٹوں پر بوجھ پڑتا ہے اور طبیعت نیند کی طرف مائل ہو جاتی ہے۔ ہم اس حیاتیاتی دباؤ سے مجبور ہو کر خود کو نیند کے حوالے کرنے پر تیار ہو جاتے ہیں۔ آنکھیں بند ہو جاتی ہیں اور حواس بیداری کے ماحول سے دوری چاہتے ہیں۔ شعور ہر اس خیال کو رد کر دیتا ہے جو نیند میں مخل ہو۔ دیکھتے ہی دیکھتے اعصاب پر سکوت طاری ہو جاتا ہے اور انسان غنودگی سے گزر کر ہلکی نیند اور پھر گہری نیند میں چلاجاتا ہے۔
یہ کیفیت حواس کی ایسی تبدیلی ہے۔ جس میں انسان نہ چاہتے ہوئے بھی ماورائی حواس میں داخل ہو جاتا ہے۔ چنانچہ وہ جن کیفیات سے گزرتا ہے اس کے چند اجزاء حافظے میں ریکارڈ ہوتے ہیں باقی فراموش ہو جاتے ہیں۔
مادے کے اندر تفکر کیا جاتا . مادی خصوصیات معلوم ہوتی ہیں۔ جب ہمارا ذہن میں جستجو کرتا ہے تو ایسی دنیا کا پتہ چلتا مادے کی گہرائی میں جو ہے جو مادیت کی بنیاد ہے۔ اس کو ہم لہروں کی دنیا یا روشنی کی دنیا کہہ سکتے ہیں۔ سائنس دانوں نے مادے کے اجزائے ترکیبی تلاش کئے تو ایٹم اور ایٹم کے ذرات سامنے آئے ۔ ایٹمی ذرات میں الیکٹران کے بارے میں معلومات حاصل ہوئیں کہ وہ دوہری خصوصیات کا مالک ہے۔ ایک طرف مادی ذرہ ہے تو دوسری طرف لہر ہے۔ ایٹم کے اندر موجود لہروں کا نظام روشنی کی دنیا کا سراغ دیتا ہے چنانچہ ہم اپنے ماحول میں جو کچھ دیکھتے ہیں۔ وہ ایک طرف مادی نقش رکھتا ہے اور دوسری طرف روشنی کا ہیولا ہے۔ روشنی کے ہیولے میں جو تحریکات پیدا ہوتی ہیں۔ ان کے تبدیل ہو جانے سے مادی نقش میں بھی تبدیلیاں وقوع پذیر ہوتی ہیں۔ سائنسی اصول کے مطابق اگر الیکٹران اور پروٹون کی تعداد میں تبدیلی کر دی جائے تو ایٹم اپنی ماہیت تبدیل کر دیتا ہے۔ نیوکلیائی عمل میں یورینیم عمل انشقاق کے بعد پلوٹونیم میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ گویا وہ ایٹمی ذرات جو لہروں کی دنیا سے تعلق رکھتے ہیں، ان میں تبدیلی واقع ہو جائے تو عنصر شکل بدل لیتا ہے۔ روشنی کی دنیا میں تبدیلی واقع ہوتی ہے تو مادی شکل وصورت میں تبدیلی آجاتی ہے۔ جس طرح ہر مادی وجود کے ساتھ برقی رو کا نظام کام کرتا ہے اسی طرح انسان کے اندر بھی برقی نظام کار فرما ہے۔ / روحانی سائنس کے مطابق انسان محض گوشت پوست ہڈیوں اور خون سے مرکب ایک پتلا نہیں بلکہ خاکی وجود کے اندر نوری جو ہر بھی ہے اور یہی نوری جو ہر اس کی اصل ہے۔ یہ جو ہر برقی رویا کرنٹ ہے۔ انسان کے اندر بنیادی طور پر تین جزیٹر کام کرتے ہیں۔ یہ جزیٹر تین طرح کے کرنٹ پیدا کرتے ہیں۔ ان تینوں کرنٹ کے مجموعے کا نام انسان ہے۔ شمع یا شمع کی لو تین اجزاء کا مرکب ہے۔
1۔ شعلے کا رنگ
2۔ شعلے کا اجالا اور
3۔ گرمی جو شمع کے جلنے سے پیدا ہوتی ہے۔
جب ہم لفظ شمع کہتے ہیں تو اس سے مراد تینوں اجزاء کی اجتماعی شکل وصورت ہے۔ ان تینوں میں سے کسی ایک کو بھی شمع کے وجود سے الگ نہیں کیا جاسکتا ۔ شمع کی طرح انسان کے حواس بھی تین برقی رو کے تابع ہیں۔
ا۔ تمام خیالات
۲۔ تصورات
۳۔احساسات
چاہے وہ ظاہری ہوں یا باطنی پٹھوس ہوں یا لطیف،برقی رو سے تشکیل پاتے ہیں۔
ان تینوں جنریٹروں کو ایک مرکزی پاور اسٹیشن کنٹرول۔۔۔جاری ہے۔
بشکریہ ماہنامہ قلندر شعور اگست2013