” انو جیب کترا “
مصنف۔۔۔ کاوش صدیقی
تبصرہ۔۔۔ محمد جعفر خونپوریہ
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل۔۔۔” انو جیب کترا ۔۔۔ مصنف۔۔۔ کاوش صدیقی )پچھلے دنوں کراچی میں برسات نے شہر کو ایک نیا رنگ دیا تھا، جب بارش کی بوندیں دل کی گہرائیوں میں اُترتی جا رہی تھیں۔ ایسی ہی ایک رم جھم برسات کی شام کو، جناب کاوش صدیقی کی طرف سے پانچ بہترین بیسٹ سیلر کتابوں کا قیمتی تحفہ میرے دروازے پر پہنچا۔ یہ تحفہ صرف ادب کی محبت کی علامت نہیں بلکہ دل کی گہرائیوں سے اُبھرنے والی محبت کی بھی عکاسی ہے
” جگنو”، وہ پہلی کتاب تھی جسے میں نے ایک ہی نشست میں پڑھ ڈالا۔ یہ کہانی ہے ایک بچے کی، جو اپنے مزدور والد کی عارضی معذوری کی بنا پر خود بھی زندگی کے کٹھن راستوں پر قدم رکھنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ مگر میری توجہ کا مرکز اس وقت دوسری کتاب “انو جیب کترا” ہے، جو میری نظروں کے سامنے ہے۔
” انو جیب کترا” ایک ایسی تحریر ہے جس پر میں سب سے پہلے تبصرہ کرنا چاہتا ہوں، چاہے “جگنو” پہلے پڑھ لی گئی ہو۔ اس ناول کے خالق، جناب کاوش صدیقی ہیں جو ایک معروف نام ہے، جبکہ ناشر فہیم عالم ایک ایسی شخصیت ہیں جو خود اپنے طور پر ایک پہچان رکھتے ہیں۔ فہیم عالم کی شہرت ادبی دنیا میں کسی تعارف کی محتاج نہیں، اور ان کا نام ہر دل میں محفوظ ہے۔
کتاب کی کمپوزنگ نثار احمد نے انجام دی ہے، اور پروف ریڈنگ محمد فیصل علی نے کی ہے، جس نے کتاب کی جمالیات کو نکھار دیا۔ قیصر شریف نے کتاب کے سرورق کو بصری جاذبیت عطا کی ہے۔ یہ کتاب پہلی بار دسمبر 2023 میں چھپ کر مارکیٹ میں آئی ، اس کی قیمت 900 روپے ہے۔
کتاب کا انتساب “خون کے امراض میں مبتلا” بچوں کے نام کیا گیا ہے، جو اس کتاب کی مخلصانہ محبت اور انسانی درد کی گہرائیوں کو بیان کرتا ہے۔
ناول “انو جیب کترا” کے تین مرکزی کرداروں کی کہانی ایک دلکش اور جذباتی کینوس پر بکھری ہوئی ہے۔ سب سے پہلے، چھوٹی بچی “رانو” کی بات کریں، جو صرف سات برس کی عمر میں ہے گھر کی سب سے پیاری اور نازک پھول ، اپنی معصومیت اور دلکش حرکتوں سے سب کو مسحور کر دیتی ہے۔ اس کے چہرے اور آنکھوں کی چمک کی طرح، اس کی موجودگی بھی گھر کے ماحول میں روشنی پھیلانے کا باعث ہے۔ لیکن، بدقسمتی سے، رانو کی زندگی کا یہ خوبصورت خواب تھلیسیمیا کے کٹھن مرض کی سیاہی میں ڈوبا ہوا ہے، جو اس کی زندگی کو ایک چیلنجنگ سفر میں تبدیل کر دیتا ہے
کہانی کی دوسری جہت “گلو” ہے، جو ایک محبت بھرا بھائی ہے اور کہانی کا راوی بھی۔ گلو کی آنکھوں سے ہم رانو کی زندگی کے ہر پہلو کو سمجھتے ہیں، اور اس کی محبت اور درد کو محسوس کرتے ہیں۔ گلو کی کہانی کے ذریعے، رانو کے درد اور خوشیوں کا ایک متحرک منظر کھلتا ہے، جو دل کو چھو لینے والی تصویر پیش کرتا ہے۔
تیسرا کردار “انو (جیب کترا)” ہے، جو کہانی کی پیچیدگیوں کو کھولتے ہوئے، ایک اہم مقام رکھتا ہے۔ اس کردار کی موجودگی کہانی کی تھیمز اور جذبات کو ایک نیا رنگ دیتی ہے، اور کرداروں کی دنیا میں گہرائی اور پیچیدگی کو اجاگر کرتی ہے۔
کاوش صدیقی نے اس ناول میں تھلیسیمیا جیسے حساس موضوع کو نہ صرف بچوں کے لیے قابل فہم بنایا ہے بلکہ ان کے جذبات، خوف، اور امیدوں کی خوبصورتی کو بھی بخوبی بیان کیا ہے۔ ان کی مہارت سے، کہانی کی ہر لائن اور ہر صفحہ رانو کے درد اور حوصلے کی عکاسی کرتا ہے، جو اس بات کا ثبوت ہے کہ ادبی مہارت کس قدر دل کو چھو لینے والی ہو سکتی ہے۔
انو، جو اس کہانی کا ایک اہم اور پیچیدہ مرکزی کردار ہے، ایک یتیم بچہ ہے جس کے ماں باپ کا سایہ اس کے سر سے بہت پہلے ہی اُٹھ چکا ہوتا ہے۔ زندگی کی بے رحم موجوں نے اسے یوں اکیلا چھوڑ دیا تھا کہ بچپن کی معصومیت کہیں کھو گئی، مگر دل میں چھپی حساسیت نے اسے ایک خاص انداز میں پروان چڑھایا۔ ایک محلے کی مہربان خاتون نے اسے اپنایا اور پالا، لیکن بد قسمتی سے وہ بھی اس جہان رنگ وبو میں انو کو اکیلا چھوڑ کر دوسری دنیا میں سکونت اختیار کرلیتی ہے ۔۔۔ لیکن انو کا لاابالی اور لاپروائی کا روپ محض ایک نقاب ہے۔
انو کی شخصیت کے پیچھے چھپے پیچیدہ جذبات اور احساسات اسے ایک منفرد کردار بناتے ہیں۔ وہ بظاہر دنیا کی پرواہ نہ کرنے والا دکھائی دیتا ہے، لیکن اندر سے وہ ایک نڈر، بے باک، اور حساس دل کا مالک ہے، جو اپنے دوستوں اور عزیزوں کے لیے اپنی جان نچھاور کرنے سے بھی گریز نہیں کرتا۔ وہ دشمنوں کے سامنے لوہے کا چنا بن جاتا ہے، مگر اپنوں کے لیے نرم اور محبت بھرا دل رکھتا ہے۔ انو، رانو، اور گلو کے درمیان ایک محبت کی ان دیکھی زنجیر ہے جو ان تینوں کو مضبوطی سے باندھے رکھتی ہے۔ یہ تینوں کردار کہانی کے دھارے میں یوں بہتے ہیں کہ کبھی کہانی انہیں پروان چڑھاتی ہے، اور کبھی یہ خود کہانی کی تشکیل کرتے ہیں۔
کہانی میں ایک ایسا کردار بھی ہے جو بظاہر منظر سے غائب ہے، لیکن ہر صفحے، ہر جملے، اور ہر لفظ میں اس کی موجودگی محسوس ہوتی ہے۔ یہ کردار خود مصنف کاوش صدیقی کا ہے۔ ایک بار انہوں نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا تھا، “میں اپنے پڑھنے والوں کے ساتھ ساتھ ہر لفظ اور ہر سطر میں موجود ہوتا ہوں۔” اور واقعی، یہ سچائی اس کہانی کے ہر پیچ و خم میں جھلکتی ہے۔ کرداروں کی زندگیوں، ان کے احساسات، اور جذبات کی بُنت میں کاوش صدیقی کی روح کی گہرائی محسوس کی جا سکتی ہے۔ وہ نہ صرف کہانی کو زندگی عطا کرتے ہیں بلکہ قاری کو ایک ایسے سفر پر لے جاتے ہیں جہاں حقیقت اور فسانہ آپس میں گُھل مل جاتے ہیں، اور ایک نئی دنیا کا نقشہ کھینچ دیتے ہیں۔
آخر میں، یہی کہا جا سکتا ہے کہ “انو جیب کترا” کے 272 صفحات پر مشتمل یہ ناول اگر کسی نے ایک ہی نشست میں ختم کر لیا تو یہ محض ایک عام کہانی نہیں ہو سکتی۔ یہ ناول یوں متوازن ہے جیسے کسی پُرسکون دریا کا ہموار بہاؤ، جو قاری کو اپنی نرم لہروں میں بہا لے جاتا ہے، کبھی اسے خوشیوں کے ساحل پر لے جا کر مسکرانے پر مجبور کرتا ہے، تو کبھی دکھ کی گہرائیوں میں غرق کر کے آنکھوں کو نم کر دیتا ہے۔ اس کہانی کی دنیا میں قاری اس قدر محو ہو جاتا ہے کہ وہ کرداروں کے ساتھ جیتا ہے، ان کی خوشیوں میں شامل ہوتا ہے، اور ان کے دکھوں کو اپنے دل میں محسوس کرتا ہے۔
سادہ اور دلنشین الفاظ میں بُنی گئی یہ کہانی اپنے معیار اور مقصدیت میں ایسی گہرائی رکھتی ہے کہ حیرت زدہ کر دیتی ہے۔ جیسے کسی نے گوہر نایاب کو عام سی چمک دار شے سمجھ کر نظرانداز کر دیا ہو، مگر جب اس کی حقیقت کا ادراک ہوتا ہے، تو وہ آنکھوں کو خیرہ کر دیتا ہے۔ کوئی ناول بیسٹ سیلر کیسے بنتا ہے؟ “انو جیب کترا” کو پڑھنے کے بعد یہ راز کھلتا ہے کہ ایک عظیم کہانی کی طاقت کیا ہوتی ہے۔
اگر آپ نے ابھی تک “انو جیب کترا” نہیں پڑھا، تو یقیناً آپ ایک ایسی داستان سے محروم ہیں جو آپ کے دل کو چھو لینے والی ہے۔ یہ کتاب اپنی قیمت سے کہیں زیادہ قیمتی ہے، کیونکہ یہ ایک ایسی کہانی پیش کرتی ہے جو آپ کے دل و دماغ پر گہرے نقوش چھوڑے گی۔