ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )اور جب ابرہیم نے کہا تھا کہ اے میرے مالک، مجھے دکھا دے تو مردوں کو کیسے زندہ کرتا ہے۔ فرمایا، کیا تو ایمان نہیں رکھتا؟ اس نے عرض کیا، ایمان تو رکھتا ہوں مگر دل کا اطمینان درکار ہے۔ فرمایا، اچھا تو 4 پرندے لے اور ان کو اپنے سے مانوس کر لے۔ پھر ان کا ایک ایک ٹکڑا ایک ایک پہاڑ پر رکھ دے۔ پھر ان کو پکار، وہ تیرے پاس دوڑے چلے آئیں گے۔ خوب جان لے کہ اللہ نہایت بااقتدار اور حکیم ہے۔ البقرہ:260″
حضرت ابرہیم علیہم السلام نے پرندوں کے ٹکڑے پہاڑوں پر رکھ کر ان کو پکارا۔ پکار سن کر ہر پرندہ زندہ ہو کر آپ کے پاس اڑتا چلا آیا۔
سوال یہ ہے؟ حضرت ابرہیم نے آواز ذبح کئے گوشت کے ٹکڑوں کو دی تھی، زندہ پرندوں کو نہیں___ پھر وہ کس طرح آواز پر متحرک یا جاندار ہوئے؟؟
حقیقت میں کروموسوم کو ILLUSION یا نظر کا دھوکا کہنا چاہیئے۔ اس میں “روح” چھپی ہوئی ہوتی ہے جو پردے میں رہتی ہے۔ کروموسوم کی نظر اسے نہیں دیکھ سکتی۔ CONCEPT، روح یا SOUL کی نظر البتہ خود کو دیکھ سکتی ہے مگر یہ دیکھنا باطنی ہے۔ “
روح کے ساتھ CONCEPT کا لفظ استعمال ہے۔ ہر ایجاد کے پیچھے ایک CONCEPT موجود ہے۔ جس کی بنیاد پر ایجاد ہوتی ہے۔ دنیا سے کوئی شے مٹ جائے تو یہ لباس کا مٹنا ہے۔ علم شے یا CONCEPT ہمیشہ موجود رہتا ہے۔ اور اپنے لئے لباس BODY میں اپنا ظاہر پیش کرتا ہے۔
قبر میں لباس دفن ہوتا ہے۔ یعنی لباس یا CLOTHES__ جس عالم یا جو اس دنیا کی مٹی سے بنا تھا، اسی دنیا میں رہ گیا۔ اس کی روح دوسرے عالم یا دنیا میں منتقل ہوگئی ہے۔ اب وہ وہاں کی مٹی کے مطابق اپنا لباس بنائے گی۔ جب موت واقع ہوتی ہے تو ایک معین عرصے کے بعد جسم یعنی لباس مٹی میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ البتہ لباس پہننے والی ایجنسی یا روح موجود رہتی ہے۔ جب حضرت ابراہیم علیہم السلام نے آواز دی، تو روح کو دوبارہ اس دنیا کے لباس میں داخل ہونے کا حکم ملا۔ ذرات یکجا ہوئے اور لباس ظاہر ہوگیا__
“اور کوئی جانور نہیں جو زمین پر اپنے پائوں سے چلتا ہو اور کوئی پرندہ نہیں جو فضا میں اپنے دونوں بازوؤں سے اڑتا ہو، مگر یہ سب تمہاری ہی طرح ‘امتیں’ ہیں۔(سورہ انعام-38-6”)