Daily Roshni News

اولاد برائے فروخت۔۔۔تحریر۔۔۔حمیراعلیم

اولاد برائے فروخت

تحریر۔۔۔حمیراعلیم

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ اولاد برائے فروخت۔۔۔تحریر۔۔۔حمیراعلیم )کسی نے یہ تصویر اس کیپشن کے ساتھ شیئر کی کہ اس حکومت کے لیے ڈوب مرنے کا مقام ہے۔مانا کہ یہ حکومت کے لیے باعث شرم ہے مگر ان والدین کا کیا جو بچے پیدا کر لیتے ہیں مگر نہ تو انہیں دو وقت کا کھانا کھلانے کے قابل ہیں نہ ہی ان کی تعلیم و تربیت کے۔کیا یہ ان کا فرض ہے کہ وہ اولاد کی کفالت کریں یا حکومت کا؟کیا وہ بچے حکومت سے مشورہ کر کے پیدا کرتے ہیں جو یہ توقع کرتے ہیں کہ اب حکومت انہیں پالے۔اور فرض کیجئے حکومت اپنا فرض پورا نہیں کرتی تو یہ کس جگہ لکھا ہے کہ اس صورت میں والدین اپنی ذمہ داریوں سے بری الذمہ قرار پائے چنانچہ اب اس اولاد کو بیچیں اور اپنا اور باقی اولادوں کا پیٹ بھریں۔یا اور اولادیں پیدا کریں اور بیچ کر اپنے خرچے پورے کریں؟؟؟؟

     اگر مالی طور پر ہم اس قابل نہیں کہ بچوں کی کفالت کر سکیں تو کیا ہمیں آدھ درجن بچے پیدا کرنے چاہیے؟؟؟؟ قرآن میں جہاں جہاں نکاح کا حکم ہے وہاں کفالت مرد پر فرض قرار دی گئی ہے۔مرد والدین، نا بالغ/ بیوہ، طلاق یافتہ، معذور مستحق بہن بھائیوں حتی کہ ان بیواوں یتیموں کا بھی کفیل قرار دیا گیا ہے جن کا کوئی محرم کفیل نہ ہو۔ پھر کیسے وہ اپنے بیوی بچوں کی کفالت سے بری الذمہ ہو سکتا ہے؟فرض کیجئے کوئی شخص کسی ایسے ملک کا شہری ہے جو غربت کا شکار ہے جیسے افریقہ کا کوئی ملک یا جنگی علاقہ ہے جیسے فلسطین۔تو کیا وہاں کے والدین پر جائز ہو جاتا ہے کہ وہ اپنے بچے صرف اس لیے بیچ دیں کہ ان کی کفالت کے قابل نہیں رہے؟ افریقی یا فلسطینی گھاس پتے کھلا کر بچے پال رہے ہیں مگر انہیں بیچتے نہیں۔کیا پاکستانی ان سے بھی گئے گزرے ہیں؟ یا وہ بالکل بےحس، مردہ ضمیر اور سانپ بن چکے ہیں جو اپنے ہی بچے کھا جاتا ہے۔

کوئی بھی والد یا والدہ کیسے اپنے بچے کو بیچ سکتے ہیں؟؟؟ کیا وہ نہیں جانتے کہ لوگ ان بچوں کو سیکس سلیو بنا لیتے ہیں۔ان کے اعضاء بیچ کر لاش اسمگلنگ کے لیے استعمال کرتے ہیں۔انہیں چائلڈ لیبر کے لیے استعمال کرتے ہیں۔میں بارہا اپنی تحاریر میں یہ کہہ چکی ہوں کہ آپ مالی مسائل کا شکار ہوں تو پیٹ بھرنے جتنا حرام آپ کے لیے جائزہو جاتا ہے۔ اگر آپ محنت مزدوری نہیں کر سکتے کام نہیں ملتا تو کسی شخص سے بھیک مانگ لیجئے صدقہ زکوہ لے لیجئے کسی مزار سے کھانا لے لیجئے سڑک پر بستر لگا لیجئے اب تو ہر شہر میں پناہ گاہیں ہیں وہاں چلے جائیے۔یہ سب بھی نہیں کر سکتے تو خدارا کسی یتیم خانے میں چھوڑ دیجئے مگر بیچیے نہیں۔

     جو لوگ اپنے بچے بیچنے کے لیے سڑک پر کھڑے ہو جاتے ہیں قابل ہمدردی نہیں قابل تذلیل ہیں کیونکہ بیشتر اپنی عیاشی کے لیے ایسا کرتے ہیں۔ورنہ یتیم خانے، ایدھی سینٹرز اور ایس او ایس ویلیجز کے بارے میں تو بچے بھی جانتے ہیں۔کیا یہ بچے زندہ درگور کرنا نہیں؟ کیا یہ ظلم نہیں؟ بحثیت ماں میں اپنے بچوں کو اسکول بھیجتے بھی ڈرتی ہوں کہ خدانخواستہ ان کو کوئی حادثہ نہ پیش آ جائے جب تک وہ بحفاظت واپس نہ آ جائیں جان سولی پر اٹکی رہتی ہے پھر کیسے کوئی ماں اپنے نوزائیدہ سے لے کر جوان بچوں تک کو بیچ سکتی ہے۔

    کوئی مجھے یہ نہ بتائے کہ وہ مجبور ہیں والدین اپنے بچوں کے لیے ہر کام کر سکتے ہیں حتی کہ حرام کام بھی پھر کیسے یہ والدین بچوں کی کفالت نہیں کر سکتے؟؟؟؟جو خواتین گھروں میں کام کرتی ہیں، مرد مزدوری کرتے ہیں،  رکشہ، گدھا گاڑی، ہاتھ سے چلانے والی ٹرالی، ریڑھی چلانے والے بھی تو ہیں۔ پٹرول پمپ پر پٹرول ڈالنے والے، سڑک پر جھاڑو دینے والے، دھوبی، ویٹر، کنڈیکٹر اور ہزاروں کام کرنے والے بھی تو ہیں ۔وہ یہ سب کس لیے کر رہے ہیں؟اپنے لیے نہیں بلکہ بچوں کے لیے۔طلاق یافتہ بیوہ اکیلی مائیں جو پانچ بچوں کو پال رہی ہیں کوئی سلائی کڑھائی کرتی ہے تو کوئی کھانے بناتی ہے۔اکیلے باپ جن کی بیویاں مر گئی یا چھوڑ گئیں جابزکرتے ہیں اور بچے بھی پالتے ہیں۔ تو کیا ان کو کوئی مشکل نہیں ہوتی ہو گی۔بچے تو جانور بھی پیدا کرتے ہیں انسانوں میں اور ان میں فرق یہ ہے کہ انسان علم رکھتا ہے اور اولاد کی  تعلیم و تربیت کامکلف ہے۔اگر وہ یہ کام نہ کر سکے تو اس میں اور جانور میں کیا فرق ہوا؟جانور بھی چھوٹے بچے کو پالتا ہے کسی قابل بناتا ہے پھر اکیلا چھوڑتا ہے کیا آپ جانور سے بھی بدتر ہیں؟ معذرت کے ساتھ الفاظ بہت سخت ہیں مگر جرم بھی کبیرہ ہی ہے۔بچے پال نہیں سکتے تو یتیم خانے میں چھوڑ دیجئے مگر بیچیے مت۔کیونکہ ان کا کوئی قصور نہیں وہ اپنی مرضی سے اس دنیا میں نہیں آئے۔بلکہ آپ اس جرم کے سزاوار ہیں۔خود کو بیچیے اور انہیں پالیے۔کیونکہ کسی منسٹر سے آپ کے فرائض کا سوال نہیں ہو گا بلکہ آپ سے ہو گا انہیں اپنا حساب دینا ہے اور آپ کو اپنا۔

Loading