جنوری 2023 میں ایک امریکی کمپنی نے بھارت سے تعلق رکھنے والے ارب پتی گوتم اڈانی کی کمپنیوں کو اکاؤنٹنگ فراڈ اور اسٹاک کی ہیرا پھیری میں ملوث قرار دیا تھا۔
اب ایک بار پھر ایشیا کے دوسرے امیر ترین شخص کے حوالے سے نئی رپورٹس سامنے آئی ہیں جن میں کہا گیا ہے کہ گوتم اڈانی کی جانب سے کروڑوں ڈالرز بھارتی اسٹاک مارکیٹ پر لگا کر اپنے حصص خریدے گئے۔
برطانوی روزنامے دی Guardian کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ اڈانی خاندان کے قریبی افراد نے برسوں تک اڈانی گروپ کی کمپنیوں کے حصص خریدے۔
یہ سلسلہ اس وقت شروع ہوا جب گوتم اڈانی بھارت کے سب سے امیر شخص کے طور پر تیزی سے ابھر رہے تھے۔
2022 میں گوتم اڈانی بھارت اور دنیا کے تیسرے امیر ترین شخص بن گئے تھے جن کے اثاثوں کی مالیت 120 ارب ڈالرز سے زائد ہوگئی تھی۔
مگر 25 جنوری کو امریکی شارٹ سیلنگ کمپنی ہندن برگ کی جانب سے جاری رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ اڈانی گروپ دہائیوں سے اسٹاک مارکیٹ میں ہیرا پھیری اور اکاؤنٹنگ فراڈ اسکیم میں ملوث ہے۔
رپورٹ میں گوتم اڈانی کے لیے کارپوریٹ تاریخ کے سب سے بڑے دھوکے باز کے الفاظ بھی استعمال کیے گئے تھے۔
اس رپورٹ پر اڈانی گروپ کی جانب سے 29 جنوری کو 413 صفحات پر مشتمل ردعمل جاری کیا گیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ کمپنیوں کی جانب سے تمام مقامی قوانین پر عمل کیا گیا ہے۔
مگر اس رپورٹ کے بعد اڈانی گروپ کی مارکیٹ ویلیو میں 100 ارب ڈالرز سے زیادہ کی کمی آئی تھی جبکہ گوتم اڈانی خود دنیا کے امیر ترین افراد کی فہرست میں بہت نیچے پہنچ گئے تھے اور ابھی 64 ارب ڈالرز کے ساتھ 20 ویں نمبر پر موجود ہیں۔
اب نئی رپورٹ میں آرگنائزڈ کرائم اینڈ کرپشن رپورٹنگ پراجیکٹ (او سی سی آر پی) کے پاس موجود دستاویزات کا حوالہ دیا گیا ہے۔
ان دستاویزات سے موریشس سے آف شور فنڈز کے استعمال کا انکشاف ہوا ہے جن کا کنٹرول بظاہر اڈانی خاندان کے قریبی ساتھیوں کے پاس تھا۔
رپورٹ کے مطابق آف شور فنڈز کو 2013 سے 2018 کے دوران اڈانی گروپ کی کمپنیوں کے حصص کی قیمتوں کو بڑھانے کے لیے استعمال کیا گیا۔
رپورٹ میں بتایا گیا اب بھی یہ آف شور نیٹ ورک ختم نہیں ہوا ہے۔
دستاویزات سے عندیہ ملتا ہے کہ گوتم اڈانی کے بڑے بھائی ونود اڈانی نے آف شور آپریشنز کے حوالے سے مبینہ طور پر کردار ادا کیا تھا۔
دستاویزات کے مطابق ونود اڈانی کے 2 قریبی ساتھی کے نام آف شور کمپنیوں کے مالکان کے طور پر درج تھے۔
رپورٹ میں مالیاتی رپورٹس اور انٹرویوز کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا گیا کہ موریشس کے 2 آف شور فنڈز کی نگرانی دبئی کی ایک کمپنی کر رہی تھی جسے ونود اڈانی کا ایک ملازم چلا رہا تھا۔
رپورٹ کے مطابق اس انکشاف سے بھارتی وزیراعظم نریندرا مودی پر بھی اثرات مرتب ہوں گے جن کے گوتم اڈانی سے برسوں پرانے تعلقات ہیں۔
برطانوی اخبار نے بتایا کہ سکیورٹیز اینڈ ایکسچینج بورڈ آف انڈیا (ایس ای بی آئی) کو 2014 کے شروع میں اڈانی گروپ کی مشتبہ اسٹاک مارکیٹ سرگرمیوں کے شواہد حوالے کیے گئے تھے، مگر چند ماہ بعد نریندرا مودی وزیراعظم بن گئے تو حکومتی ریگولیٹرز کے اس معاملے میں دلچسپی نہیں دکھائی۔
دوسری جانب اڈانی گروپ نے اس رپورٹ میں عائد کیے گئے الزامات کی تردید کی ہے۔
اڈانی گروپ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ ہم ان نئے الزامات کی تردید کرتے ہیں، درحقیقت یہ ہندن برگ رپورٹ میں عائد کیے گئے بے بنیاد الزامات کا اعادہ ہے، ہم ان تمام الزامات کو مسترد کرتے ہیں۔