Daily Roshni News

ایماندار شہزادی۔۔۔تحریر۔۔۔ مختار احمد (اسلام آباد)

بچوں کے لیے ایک دلچسپ کہانی

ایماندار شہزادی

(قسط نمبر – 3)

مختار احمد (اسلام آباد)

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ ایماندار شہزادی۔۔۔تحریر۔۔۔ مختار احمد (اسلام آباد))ملکہ ثریا  دم بخود کھڑی تھی۔ وہ اس اسرار کو سمجھنے سے قاصر تھی۔ اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ یہ سب کیا ہو رہا ہے۔ وہ آنکھیں پھاڑے اس بن مانس کو دیکھ  رہی تھی جس نے  اس کے شوہر شاہ جمیل کا لباس زیب تن کیا ہوا تھا۔ اچانک بن مانس نے اپنی جگہ سے حرکت کی اور مسہری سے نیچے اتر آیا، تب ہی ملکہ ثریا  کو اس سے بے انتہا خوف محسوس ہوا۔ وہ گھومی اور چاہتی ہی تھی کہ وہاں سے بھاگ جائے مگر بن مانس کی آواز نے اس کے قدم روک لیے۔ ’’روحی کی امی۔ ہم سے مت ڈرو۔ ہم تمھارے شوہر شاہ جمیل ہیں۔‘‘

ملکہ ثریا  تیزی سے گھوم کر دوبارہ اس بن مانس کو دیکھنے لگی جو اب اپنے سر پر سے تاج اتار کر اپنی کھوپڑی کھجانے لگا تھا۔

’’یہ سب کیا ہے؟‘‘ ملکہ ثریا  نے روہانسی ہو کر پوچھا۔

’’یہ سب اس نامعقول چھینک کا کیا دھرا ہے جس نے اس کمرے کی تمام خوبصورتی کو خاک میں ملا کر اسے کھنڈرات کی شکل دے دی ہے۔ اور اسی چھینک نے ہمیں بادشاہ سے بن مانس بنا دیا ہے۔‘‘ شاہ جمیل نے بے بسی سے کہا۔

’’اب کیا ہوگا؟ یہ جادوئی چھینک تو ہمیں بڑی دشواریوں میں مبتلا کر گئی ہے۔‘‘ ملکہ ثریا  پریشانی سے بولی۔

اتنے میں شہزادی روحی بھی آنکھیں ملتے ہوئے وہاں پہنچ گئی۔ اس بھیانک چھینک کی وجہ سے اس کی آنکھ بھی کھل گئی تھی۔ اس نے جو اپنی ماں کو ایک خوفناک بن مانس سے باتیں کرتے ہوئے دیکھ تو وہ ہکّا بکّا رہ گئی اور ڈر کر کئی قدم پیچھے ہٹ گئی۔

شاہ جمیل نے بڑے دکھ بھرے لہجے میں کہا۔ ’’روحی بیٹی۔ ہم سے خوفزدہ مت ہو۔ ہم تمہارے بدنصیب باپ ہیں۔‘‘

پھر ملکہ ثریا  شہزادی روحی کو تمام قصّہ سنانے لگی۔

جب اس کی بات ختم ہوگئی تو شاہ جمیل بولا؛ ’’اب ہمارا زوال شروع ہوگیا ہے۔ لوگ کبھی یہ نہیں چاہئیں گے کہ ان پر ایک بن مانس حکومت کرے۔ ہمیں تخت سے اتار کر جنگل میں چھوڑ دیا جائے گا۔ ہم نے ساری زندگی شہر میں گزاری ہے، جنگل میں جائیں گے تو تمام جانور ہمارا ناطقہ بند کردیں گے۔ ہم لڑائی کے داؤ پیچوں سے بھی ناواقف ہیں۔ اور تو اور ہمیں تو یہ بھی نہیں معلوم کہ بن مانس کھاتا کیا ہے۔ یہ ہم کس مصیبت میں گرفتار ہوگئے ہیں۔ ہمیں اس سے کیسے چھٹکارہ ملے گا؟‘‘

اس کی درد بھری باتیں سن کر ملکہ ثریا  اور شہزادی روحی زارو قطار رونے لگیں۔

شاہ جمیل انھیں بےبسی سے دیکھنے لگا پھر بولا۔ ’’کل ہماری بیٹی شہزادی افشاں اپنے شوہر کے ساتھ آرہی ہے۔ تم دونوں اس کے ساتھ اس کے ملک چمن در چمن چلی جانا۔ ہمارے بعد جو بھی اس ملک کا بادشاہ بنے گا وہ تمارے ساتھ اچھا سلوک نہیں کرے گا۔ اب ہم تم دونوں کو خدا کے سپرد کرتے ہیں اور خود جنگل کی راہ لیتے ہیں۔ اس قسمت نے اس بڑھاپے میں کیا مٹی پلید کی ہے کہ زندگی کا بقیہ حصّہ جو یاد الہیٰ میں بسر ہونا تھا، اب درختوں پر چڑھتے اور اترتے گزرے گا۔‘‘

یہ کہہ کر شاہ جمیل کھڑکی کی طرف بڑھ گیا۔ وہ سب کی نظروں سے چھپ کر محل سے رخصت ہونا چاہتا تھا۔ اگر پہریدار ایک بن مانس کو محل سے نکلتا دیکھ لیتے تو اسے ضرور اپنے تیروں سے چھلنی کردیتے۔ اس لیے عافیت اسی میں تھی کہ چپ چاپ کھڑکی کے راستے باغ میں اترا جائے، اور حفاظتی دیوار کو عبور کرکے جنگل کی راہ لی جائے۔

ملکہ ثریا  اور شہزادی روحی پھٹی پھٹی آنکھوں سے شاہ جمیل کی طرف دیکھ رہی تھیں۔ شہزادی روحی کی آنکھوں میں

آنسو امڈ آئے۔ وہ دوڑ کر شاہ جمیل سے لپٹ گئی اور روتے ہوئے بولی؛ ’’ابّا حضور آپ نہ جائیں۔‘‘

’’تم غم نہ کرو بیٹی۔ اس میں بھی خدا کی کوئی مصلحت پوشیدہ ہوگی۔ جب ہم انسان تھے تو محل میں رہتے تھے۔ اب ایک جانور بن گئے ہیں تو جنگل میں جانے سے کیوں روکتی ہو۔ ویسے بھی ہمارا یہاں رہنا ٹھیک نہیں ہے۔ سب لوگ ہمیں ایک بن مانس سمجھ کر یا تو ختم کردیں گے یا پھر کسی بڑے سے پنجرے میں زندگی بھر کے لیے قید کردیں گے۔‘‘

’’مگر ابّا حضور آپ صبح تک انتظار تو کریں۔ آپ کو جو جادو کی چھینک آئی تھی ہوسکتا ہے صبح تک اس کا اثر زائل ہوجائے۔‘‘ شہزادی روحی نے کچھ سوچتے ہوئے کہا۔

اس کی بات سن کر شاہ جمیل کی آنکھیں چمکنے لگیں مگر اگلے ہی لمحے وہ اداس ہو کر بولا؛ ’’لیکن یہ بھی تو ہوسکتا ہے کہ ہماری حالت نہ بدلے اور ہم بن مانس کے بن مانس ہی رہیں۔ پھر تو ہمارے لیے بڑی دشواری ہوجائے گی۔ دوسروں کی نظروں سے خود کو پوشیدہ رکھنا ہمارے لیے ناممکن ہوجائے گا۔‘‘

’’ایسی صورت میں آپ تہہ خانے میں بھی پناہ لے سکتے ہیں۔‘‘ شہزادی روحی نے جھٹ کہا۔

’’روحی ٹھیک کہہ رہی ہے۔‘‘ ملکہ ثریا  نے پہلی دفعہ اس گفتگو میں دخل اندازی کرتے ہوئے کہا۔ ’’اس نامراد جادو کی چھینک کا ضرور کوئی توڑ ہوگا۔ اگر یہ فرض کرلیا جائے کہ آپ خود بخود اپنی اصلی حالت میں نہیں آئیں گے تو پھر اس سلسلے میں بھی کوئی کوشش کی جائے گی۔ میری ایک کنیز کا باپ جادو وغیرہ میں کافی شد بد رکھتا ہے۔ میں اس سے اس بارے میں مشوره لوں گی۔‘‘

شاہ جمیل کی سمجھ میں یہ بات آگئی تھی۔ وہ کھڑکی کے پاس سے ہٹ گیا اور ملکہ ثریا  سے بولا؛ ’’تم بھی ٹھیک کہتی ہو۔ اور سچ تو یہ ہے کہ خود ہمارا بھی اس وقت باہر جانے کو جی نہیں چاہ رہا ہے۔ آسمان کو بادلوں نے گھیر رکھا ہے، کوئی لمحہ ہی جاتا ہے کہ بارش شروع ہوجائے گی۔ بارش ہوتی ہے تو بجلی بھی چمکتی ہے۔ دادا حضور فرماتے تھے کہ کالی چیزوں پر بجلی گرتی ہے۔ اور یہ تو تم دیکھ ہی رہی ہو کہ ہمارے اس کالے اور بالوں سے بھرے جسم پر بجلی گرنے کے سو فیصد امکانات نظر آرہے ہیں۔‘‘

’’کوئی اچھی بات منہ سے نکالئے۔ خدا نہ کرے آپ پر بجلی گرے۔‘‘ ملکہ نے جلدی سے کہا۔

 شاہ جمیل ٹھنڈی سانس بھر کر بولا؛ ’’تقدیر کی بجلی تو ہم پر گر ہی پڑی ہے۔ ہم تہہ خانے میں قیام کرنے جا رہے ہیں۔ وہاں سے تمام آئینے ہٹا دینا۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم اپنی ہی شکل دیکھ کر ڈرجائیں۔ بڑھاپا بھی کیا چیز ہے انسان کا دل چڑیا کے دل کے برابر ہوجاتا ہے۔‘‘

’’آپ تو بے کار میں ایسی ویسی باتیں سوچ سوچ کر جی کو ہلکان کررہے ہیں۔ آپ یہیں ٹھہرئیے میں تہہ خانے کی چابی لے کر ابھی آتی ہوں۔‘‘

ملکہ ثریا  وہاں سے چلی گئی۔ شہزادی روحی بےبسی سے اپنے باپ کو دیکھ رہی تھی۔ جو کسی خوفناک بن مانس کی طرح منہ پھاڑے جمائی لے رہا تھا۔ اس نے شہزادی روحی کو اپنی طرف دیکھتا ہوا پایا تو رنجیدگی سے بولا؛ ’’بن مانس کے دانت بھی کتنے بڑے بڑے ہوتے ہیں۔‘‘

شہزادی روحی غور سے اس کے دانت دیکھنے لگی تھی۔

(جاری ہے)

Loading