Daily Roshni News

ایڈز۔۔۔تحریر۔۔۔حمیرا علیم

 ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل۔۔۔ایڈز۔۔۔تحریر۔۔۔حمیراعلیم)یکم دسمبر کو ایڈز سے بچاو کے دن کے طور پر منایا جاتا ہے۔ ڈبلیو ایچ او کے تخمینے کے مطابق  دنیا بھر میں 2023۔ 2022 کے آخر تک تقریباً 39.0 ملین [33.1-45.7 ملین] لوگ ایچ آئی وی کے ساتھ رہ رہے تھےدنیا بھر میں ہر نو ماہ کے بعد ایڈز کے مریضوں کی تعداد دو گنا ہو جاتی ہے۔ایچ آئی وی-1 انفیکشن کا سب سے پہلا  کیس 1959 میں کنشاسا میں سامنے آیا تھا۔انسانوں میں ایچ آئی وی انفیکشن وسطی افریقہ میں چمپینزی کی ایک قسم سے آیا۔  1800 کی دہائی کے آخر تک چمپینزی سے انسانوں میں یہ وائرس آیا جس کے  چمپینزی ورژن کو سمین امیونو ڈیفینسی وائرس کہا جاتا ہے۔

1981 میں انکشاف ہوا کہ یہ مرض ایک وائرس  کے ذریعے پھیلتا ہے جو انسانی مدافعتی نظام کو تباہ کر کے رکھ دیتا ہے۔ اس کے حملے کے بعد جو بھی بیماری انسانی جسم میں داخل ہوتی ہے نہایت سنگین اور مہلک صورت حال اختیار کر لیتی ہے۔ اس جراثیم کو ایچ آئی وی (HIV) کہتے ہیں۔ اس کو انسانی جسم کے مدافعتی نظام کو ناکارہ بنانے والا وائرس بھی کہتے ہیں۔ ایڈز کا یہ وائرس زیادہ تر خون اور جنسی رطوبتوں میں پایا جاتا ہے۔ لیکن اس کے علاوہ یہ جسم کی دوسری رطوبتوں یعنی تھوک، آنسو، پیشاب اور پسینہ میں بھی پایا جاسکتا ہے۔ مگر تھوک، آنسو، پیشاب اور پسینہ بیماری پھیلانے کا باعث نہیں بنتے بلکہ یہ بیماری صرف خون اور جنسی رطوبتوں کے ذریعے ہی پھیلتی ہے۔ستمبر 1982 میں، سی ڈی سی نے پہلی بار بیماری کی وضاحت کے لیے ایڈز کی اصطلاح استعمال کی۔ سال کے آخر تک کئی یورپی ممالک میں ایڈز کے کیسز بھی رپورٹ ہوئے۔

1981 میں، نیو یارک اور کیلیفورنیا میں ہم جنس پرست مردوں میں نایاب بیماریاں کاپوسی کا سارکوما (ایک نایاب کینسر) اور پھیپھڑوں کا انفیکشن جسے PCP کہا جاتا ہے پھیلنے لگیں ۔ سائنسدانوں کو شبہ ہونے لگا کہ کوئی نامعلوم متعدی ‘بیماری’ اس کی وجہ ہے۔ نوے

 کی دہائی میں ہالی وُڈ کے معروف اداکار، راک ہڈسن ایک عجیب و غریب مرض میں مبتلا ہوئے۔ پیرس کے ایک اسپتال میں ان کا علاج ہوا، مگر علاج کی تمام تر جدید سہولتیں میسّر ہونے کے باوجود 2اکتوبر 1985ء کو ان کا انتقال ہوگیا۔ بعد ازاں، پتا چلا کہ وہ ایڈزسے متاثرتھے۔ راک ہڈسن پہلے آدمی نہیں تھے، جو اس بیماری کا شکار ہوئے، مگر ان کی وجہ سے دُنیا بَھر میں اس مرض کا خُوب چرچا ہوا۔ راک ہڈسن نے تیس سال تک پردۂ سیمیں پر اپنے فن کا مظاہرہ کیا، ان کے بارے میں مشہور تھا کہ وہ جنسی بے راہ روی کا شکار تھے۔

     1982 کے وسط تک سائنس دانوں نے محسوس کیا کہ یہ وائرس ہیموفیلیاکس اور وہ لوگ جو منشیات کا انجیکشن لگاتے ہیں ان میں بھی پھیل رہا ہے۔ اسی سال ستمبر میں، انہوں نے اسے ایکوائرڈ امیون ڈیفیشینسی سنڈروم (ایڈز) کا نام دیا۔

 1983 میں، فرانس میں پاسچر انسٹی ٹیوٹ کے سائنسدانوں نے ایڈز سے منسلک وائرس کی نشاندہی کی جسے انہوں نے لیمفاڈینوپیتھی- ایسوسی ایٹڈ وائرس (LAV) کہا۔

   یہ وائرس کسی بھی متاثرہ شخص سے اس کے جنسی ساتھی میں داخل ہو سکتا ہے یعنی مرد سے عورت، عورت سے مرد، ہم جنس پرستوں میں ایک دوسرے سے اور متاثرہ ماں سے پیدا ہونے والے بچے میں جا سکتا ہے۔ جنسی تعلق ترقی یافتہ اور افریقی ممالک میں بیماری کے پھیلاؤ کا بڑا سبب ہے۔

 ایڈز کا پھیلاو درج ذیل صورتوں میں ہو سکتا ہے۔

خون کی منتقلی، متاثرہ مریض کی استعمال شدہ سرنج، شیونگ بلیڈ، ریزر یا سوئی کے استعمال سے،

وائرس سے متاثرہ اوزار  مثلا کان، ناک چھیدنے والے اوزار، دانتوں کے علاج میں استعمال ہونے والے آلات، حجام کے آلات اور جراحی کے دوران استعمال ہونے والے آلات، متاثرہ ماں سے حمل کے دوران بچے میں،  جنسی تعلق کے ذریعے۔

ہے۔1987 میں ایڈز کا پہلا مریض پاکستان کے شہر لاڑکانہ میں پایا گیا۔

ایشیا پیسیفک میں ایڈز کے پھیلاو کے لحاظ سے پاکستان دوسرا تیز ترین ملک ہے۔این اے سی پی نے سال 2023 میں63202 ایچ آئی وی کیسز رجسٹر کیے ہیں، اور ان میں سے 40،652 ستمبر 2023 تک 78 اے آر ٹی مراکز میں اے آر ٹی پر ہیں۔

پیسیفک ایچ آئی وی / ایڈز ڈیٹا ہب فار ایشیا 2021 کے مطابق

‏پاکستان میں تقریباً 210,000 افراد ‏HIV سے متاثر تھے۔ جن کی  عمر 15 سال سے زائد تھی۔ ان میں 41,000 خواتین اور 170,000 مرد تھے۔ جبکہ 15 سال سے کم عمر کے بچے 4600 تھے۔

صرف 2005ء میں دنیا بھر میں ایڈز سے 24 لاکھ سے 33 لاکھ افراد ہلاک ہوئے جن میں سے 5 لاکھ ستر ہزار بچے تھے ۔ ان میں سے ایک تہائی اموات صرف سہارا کے افریقی علاقہ میں ہو ئیں۔جب کہ 2023 میں 6لاکھ 30 ہزار اموات ہوئیں۔

پاکستان کے چاروں صوبوں میں ایڈز کے مریضوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے جس کی وجوہات میں

خواندگی کی ناقص شرح، وسیع پیمانےپر پھیلی ہوئی غربت، منشیات اور خون کی منتقلی، غیر ازدواجی تعلقات کی وجہ سے ہونے والے ایڈز کی وجہ سے سماجی شرمندگی اور کمیونٹی کے تعصب کا خوف جس کی وجہ سے ڈاکٹرز تک نہ پہنچنا،جسم فروشی،

شامل ہیں۔

    22 -2020 میں پاکستان کی ٹرانس جینڈر کمیونٹی میں مجموعی طور پر 5.5 فیصد ایچ آئی وی کے پھیلاؤ کا تخمینہ لگایا گیا تھا.

   لوگ ناخواندگی کی وجہ سے ایڈز کے بارے میں لاعلم ہوتے ہیں اور احتیاطی تدابیر بھی اختیار نہیں کرتے اور نہ ہی علامات ظاہر ہونے پر ڈاکٹرز سے رجوع کرتے ہیں۔یوں انجانے میں وہ دوسروں تک یہ بیماری پھیلانے کا سبب بن جاتے ہیں۔

ایچ آئی وی کا پتہ چلانے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ آپ خون کا ٹیسٹ کروائیں۔ اگر ٹیسٹ منفی ہے، تو آپ کو ایچ آئی وی نہیں ہے۔

 اگر ٹیسٹ مثبت  ہے، تو آپ کو ایچ آئی وی ہے۔

بہت سے لوگوں کو علم نہیں ہوتا کہ انہیں ایچ آئی وی ہے۔ لیکن جب پہلی بار ایچ آئی وی لاحق ہوتا ہے تو یہ مسائل پیش آ سکتے ہیں: سر میں درد،  بخار، سردی لگنا،بہت زیادہ ننید آنا، تھکاوٹ، نمونیا، سوجے ہوئے غدود، خراب گلا، آنکھوں میں دھندلاہٹ،سرخ دھبے،  پٹھوں اور جوڑوں کا درد،  منہ میں زخم،  جنسی اعضا پر زخم،  رات کو پسینہ چھوٹنا،  دست

لیکن یہ علامات نزلے، شدید زکام یا دیگر بیماری کی وجہ سے بھی ہو سکتی ہیں۔ عمومی طور پر ایڈز میں مبتلا مریض ابتدائی علامات کے ساتھ طویل عرصے تک بظاہر صحت مند نظر آتے ہیں، لیکن وقت گزرنے کے ساتھ یہ علامات شدّت اختیار کرتی چلی جاتی ہیں۔

 ایڈز کی حتمی تشخیص کے لیے صرف علامات کا ہونا ہی کافی نہیں بلکہ ٹیسٹ کروانا ضروری یے۔

یہ سچ ہے کہ ایڈز کاباقاعدہ طور پر علاج ممکن نہیں۔ لیکن ایسی کئی احتیاطی تدابیر ہیں جنہیں اختیار کر کے ایڈز سے محفوظ رہا جا سکتا ہے۔ مثلاً خون کا عطیہ لینے سے قبل ایچ آئی وی اسکریننگ کروائی جائے، ہمیشہ نئی سرنج کا استعمال ہو،سرجری یا دانتوں کے علاج کے آلات جراثیم سے مکمل طور پر پاک ہوں۔ بغیر ضرورت انجیکشن یا ڈرپ لگوانے سے گریز کریں۔

حجامت کے لیے ہمیشہ نیا بلیڈ استعمال کریں، بچّے کے ختنے سے قبل یہ تسلی کرلیں کہ آلات جراثیم سے پاک ہیں یا نہیں، کان یا ناک چھدوانے کے لیے بھی صاف سوئی استعمال کی جائے۔ اگر کسی گھر میں ایڈز کا مریض موجود ہو تو اس کے زیرِ استعمال نیل کٹر، ریزر الگ رکھیں، اگر کوئی حاملہ خاتون ایڈز کے مرض میں مبتلا ہو تو زچگی کے لیے دائی سے رجوع کرنے کی بجائے معیاری اسپتال کو ترجیح دی جائے اور پیدائش کے فوراً بعد نومولود کا ایڈز کا ٹیسٹ کروایا جائے۔ اگرٹیسٹ رپورٹ مثبت ہو، توبچّے کا علاج لازماً کروائیں اور نیگیٹو ہونے کی صُورت میں بھی چھے ہفتے پر مشتمل کورس کروائیں۔

ایڈز کی مریضہ ماں کو چاہیے کہ وہ نومولود کو اپنادودھ نہ پلائےجب کہ ایڈز میں مبتلا مریض جب بھی کسی مرض ،خصوصاًدانتوں کا علاج کروائے تو معالج کو اپنی بیماری سے ضرور آگاہ کرے تاکہ وہ ضروری احتیاطی تدابیر اختیار کرسکے۔ ڈاکٹرز کی بھی یہ ذمّے داری بنتی ہے کہ ایڈز سے متاثرہ مریض کا معائنہ انتہائی توجّہ سے کریں اوران سے حُسنِ سلوک سے پیش آئیں، جب کہ طے شدہ طریقۂ کار کے مطابق بیماری کا مکمل علاج کیا جائے۔

   پیما کے جنرل سیکرٹری اور رفاہ انٹرنیشنل ہاسپٹل  کے ماہر نفسیات  کا کہنا ہے:”بدقسمتی سے ایڈز کے مرض کا ایک پہلو تو اس کا مُہلک ہونا ہے لیکن ساتھ ہی مریض مستقل طور پر پریشانیوں اور ذہنی دباؤ ہی میں زندگی گزار رہا ہوتا ہے۔ ایڈز کے ساتھ وہ اُداسی، گھبراہٹ، خوف اور بے چینی کی کیفیت سے گزرتا ہے،لہٰذا ایڈز کے مریضوں کو یہ تربیت دینا بھی ناگزیر ہے کہ اس مرض کے ساتھ زندگی کیسے گزاری جاسکتی ہے۔ اُنہیں ہر مرحلے پر نفسیاتی مدد اور تربیت کی ضرورت ہوتی ہے، مگر بدقسمتی سے ہمارے یہاں اُن کے ساتھ بالکل اچھا برتاؤ نہیں کیا جاتا۔

 ایڈز لاحق ہونے کے بعد فوری طور پر تو معالج سے رجوع کیاجائے اور اس کی ہدایات پر سختی سے عمل بھی ہو۔ یاد رکھیے، ایڈز کے مریض برسوں زندہ رہ سکتے ہیں، لیکن یہ اس امرپر منحصر ہے کہ بیماری کی شدّت کتنی ہےمریض کو لاحق دیگر طبّی مسائل کا علاج ہو رہا ہے یا نہیں، نفسیاتی مدد فراہم کی جارہی ہے یا نہیں۔ نفسیاتی مدد یقینی بنانے کے لیے مُلک بَھرمیں کئی سینٹرز قائم ہیں، جہاں ایڈز کے مریضوں کو اجتماعی طور پر رکھا جاتا ہے اور انہیں نہ صرف ادویات مہیا کی جاتی ہیں بلکہ ان کی تربیت بھی کی جاتی ہے۔

ہمارے ہاں میں ایڈز میں مبتلا افراد کو غلط کردار کا حامل یا گناہ گار تصوّر کرکے ان سے بہت بُرا سلوک کیا جاتا ہے،جوانتہائی نامناسب روّیہ ہے کیونکہ ایڈز کا مرض ضروری نہیں کہ جنسی بے راہ روی یا کسی بُری عادت ہی کا نتیجہ ہو، یہ مرض انتہائی شریف اور مکمل طور پر صحت مند انسان کو بھی محض ایک غلط سرنج  یا کسی متاثرہ شخص کے خون کی منتقلی یا اس کے ریزر کے استعمال سے لاحق ہو سکتا ہے اور یہ ان بے بنیاد اورغلط تصوّرات ہی کا نتیجہ ہے جو ایڈز میں مبتلا افراد خود کو لوگوں کی نظروں سے بچاتے اور علاج معالجے سے دانستہ گریز کرتے ہیں۔”

ایڈز سے مکمل شفا نہیں ہوسکتی لیکن ادویات کے ذریعے اس کا علاج ممکن ہے۔

ادویات سے وائرس کی تعداد خون میں اس قدر کم ہو جاتی ہے کہ انہیں خوردبین کے ذریعے بھی نہیں دیکھا جا سکتا۔ اسے ہم  ‘ناقابل سراغ وائرل لوڈ’ کہتے ہیں اور اس کا مطلب یہ ہے کہ مریض ایچ آئی وی سے بیمار نہیں ہوں گے اور نارمل لمبی زندگی گزاریں گے۔ اگر مناسب طور پر ادویات لیتے رہیں تو اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ ان سے کسی اور کو  ایچ آئی وی نہیں لگےگا۔

1989ء میں سان فرانسسکو کے سائنس دانوں نے ایڈز کے خلاف ایک مدافعتی کیمیکل تیار کیا تھا۔ٹموتھی رے براؤن، H.I.V کا پہلا مریض تھا جو دوا کے ذریعے ایڈز سے نجات پانے میں کامیاب ہوا اور 54 سال کی عمر میں انتقال کر گیا۔

اسے “برلن مریض” کے نام سے جانا جاتا ہے ٹموتھی نے ایک تجرباتی اسٹیم سیل ٹرانسپلانٹ کروایا جس نے اس کے جسم کو وائرس سے نجات دلائی بعد ازاں وہ لیوکیمیا سے مر گیا۔

سورسز: ویکیپیڈیا،  ڈبلیو ایچ او۔ گوگل

Loading