ایک بوڑھا آدمی، پرانے اور بوسیدہ کپڑوں میں ملبوس ۔۔۔
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )ایک بوڑھا آدمی، پرانے اور بوسیدہ کپڑوں میں ملبوس، عدالت میں داخل ہوا اور خاموشی سے انتظار کرتا رہا جب تک کہ پہریدار نے اسے قاضی کے سامنے پیش ہونے کی اجازت نہیں دی۔
بوڑھے نے قاضی کو سلام کیا اور بولا: “اے معزز قاضی، میں ایک غریب آدمی ہوں، میرے سات بچے ہیں اور ان کی ماں جن کا میں واحد کفیل ہوں۔ میرے پاس دنیا میں صرف ایک اصیل گھوڑا ہے، جو میری کل دولت اور عزت ہے۔ اس کے علاوہ میرے پاس دو چھوٹی الماریاں اور روشنی کے لیے ایک چراغ ہے۔ میں ایک چھوٹے سے کھیت میں رہتا ہوں جس کے اردگرد سایہ دار درخت ہیں۔”
قاضی نے بوڑھے کی بات سن کر مختصر کرنے کے لیے کہا: “میں سمجھ گیا ہوں، اے محترم بزرگ، کہ تمہارے لیے تمہارا گھوڑا بہت قیمتی ہے اور تمہیں اس کے بغیر مشکلات کا سامنا ہو گا۔ مگر براہ کرم اپنی بات صاف کرو اور اصل معاملہ بتاؤ۔”
بوڑھے کی آنکھوں میں آنسو آ گئے، جسے دیکھ کر قاضی نے اسے بیٹھنے کو کہا اور بولا کہ اپنی بات جاری رکھو۔ بوڑھے نے کہنا شروع کیا: “تین دن پہلے، والی کے سپاہیوں نے میرے کھیت پر دھاوا بولا، مجھے اور میرے بچوں کو مارا پیٹا، اور جو کچھ بھی میرا تھا وہ لوٹ لیا، خاص طور پر جو ہلکی اور قیمتی چیزیں تھیں۔ اے قاضی، مجھے انصاف دلاؤ اور میرا مال واپس دلواؤ، ان چوروں کو قید میں ڈال کر سزا دو۔”
قاضی نے بوڑھے کی بات غور سے سنی اور سمجھا کہ وہ مشکل میں ہے۔ ایک طرف وہ جانتا تھا کہ والی کے سپاہیوں کے خلاف کوئی کارروائی کرنے کا اختیار اس کے پاس نہیں ہے اور اس کے خلاف قدم اٹھانا خود قاضی کو بھی مشکل میں ڈال سکتا ہے۔ دوسری طرف، وہ یہ بھی نہیں چاہتا تھا کہ بوڑھا آدمی جا کر لوگوں سے کہے کہ قاضی نے اس کے لیے کچھ نہیں کیا۔
کافی سوچ بچار کے بعد، قاضی نے اپنے ہاتھ اٹھائے اور دعا کی: “اے اللہ، اے رب کائنات، میں تجھ سے دعا کرتا ہوں کہ تو والی کے سپاہیوں کو سزا دے اور ان پر سخت مصیبت نازل کر۔”
پھر قاضی نے بوڑھے کو دیکھا جو ابھی بھی اس کی طرف امید بھری نظروں سے دیکھ رہا تھا۔ قاضی نے کہا: “یہ لوگ ظالم اور جاہل ہیں، جنہیں کبھی اخلاقی تربیت نہیں ملی۔ یہ لوگ دنیا کے بگاڑ میں سب سے آگے ہیں اور ان کے لیے حلال و حرام کی کوئی تمیز نہیں۔ ہم اللہ کا شکر کرتے ہیں کہ ان کی تعداد کم ہے، ورنہ ان کی مخالفت کرنا بے فائدہ ہے۔”
قاضی کی دعا اور باتوں کے دوران، بوڑھا آدمی چپ چاپ واپس پلٹنے لگا۔ قاضی نے حیران ہو کر کہا: “کہاں جا رہے ہو؟ بغیر سلام اور اجازت کے جانا مناسب نہیں۔”
بوڑھے نے مڑ کر قاضی کی طرف دیکھا اور کہا: “اگر تم جیسے قاضی صرف بد دعائیں اور گالیاں دے سکتے ہیں اور کوئی انصاف نہیں کر سکتے، تو میں اپنی پڑوسن بڑھیا کے پاس جاؤں گا جو دن رات گالیاں دیتی ہے۔ وہ تم سے بہتر ہے۔ یا تو انصاف کرو یا یہ کام چھوڑ دو، کیونکہ ظلم اور ناانصافی ایک لعنت ہے، اور اس سے بھی بڑی لعنت وہ ہے جو عقلمندوں کی خاموشی سے آتی ہے۔”