Daily Roshni News

ایک دکان پر لسی کا آرڈر دینے کے بعد ہم سب دوست آرام سے بیٹھے

ایک دکان پر لسی کا آرڈر دینے کے بعد ہم سب دوست آرام سے بیٹھے

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )ایک دکان پر لسی کا آرڈر دینے کے بعد ہم سب دوست آرام سے بیٹھے ایک دوسرے کو چھیڑ رہے تھے اور ہنسی مذاق کر رہے تھے کہ ہمارے سامنے ایک 70-75 سال کی بزرگ خاتون آ کھڑی ہوئی اور ہاتھ پھیلا کر بھیک مانگنے لگی ۔

🫧اس کی کمر جھکی ہوئی تھی،

بھوک چہرے کی جھریوں میں تیر رہی تھی

آنکھیں اندر ہی اندر دھنسی ہوئی تھیں لیکن جاندار تھیں۔

🫧اسے دیکھ کر پتہ نہیں میرے ذہن میں کیا آیا کہ میں نے جیب میں سکے نکالنے کے لیے جو ہاتھ ڈالا تھا اسے واپس کھینچتے ہوئے پوچھا: دادی آپ لسی پئیں گی؟

🫧 اس بات سے دادی تو کم حیران ہوئی لیکن میرے دوست زیادہ کیونکہ اگر میں انہیں پیسے دیتا تو میں صرف 5 یا 10 روپے دیتا لیکن لسی 120 روپے کی تھی۔

🫧 اس لیے میرے لسی پی کر غریب ہونے اور اس بوڑھی دادی کے دھوکے سے امیر ہونے کے امکانات بہت بڑھ گئے تھے۔

🫧دادی نے ہچکچاتے اور ڈرتے ہوئے ہاں میں گردن ہلا دی اور 6-7 روپے جو انہوں نے بھیک مانگ کر اپنی جھولی میں جمع کئے  تھے کانپتے ہاتھوں سے میری طرف بڑھائے۔

🫧مجھے کچھ سمجھ نہیں آیا تو میں نے ان سے پوچھا یہ کس لیے ہے؟

بیٹا………..، میری لسی کے دام میں یہ پیسے ملا کر چکا دینا ۔

🫧میں پہلے ہی انہیں دیکھ کر جذباتی ہو گیا تھا –

جو کچھ ادھورا رہ گیا،

اس کی کمی اس چیز نے مکمل کر دی۔

اس غریب خاتون کی خودداری دیکھ میری آنکھیں نم ہو گئیں میری آواز رندھ گئی بھرے گلے سے میں نے دکاندار کو لسی کا گلاس لانے کو کہا۔

🫧وہ اپنے پیسے دے کر  پاس ہی زمین پر بیٹھ گئی۔

 اب مجھے اپنی بے بسی کا احساس ہوا کیونکہ وہاں موجود دکاندار،

میرے دوست اور بہت سے دوسرے گاہکوں کی وجہ سے میں انھیں کرسی پر بیٹھنے کے لیے نہیں کہہ سکتا تھا۔

مجھے ڈر تھا کہ کہیں کوئی ٹوک نہ دے ۔

ایسا نہ ہو کہ کسی غریب بھکارن عورت کو اپنے پاس بٹھانے پر لوگوں کو یا دکاندار کو اعتراض ہو۔

لیکن جس کرسی پر میں بیٹھا تھا وہ مجھے کاٹ رہی تھی۔

🫧جیسے ہی کلڑوں میں بھری ہوئی لسی ہم سب دوستوں اور بوڑھی دادی کے ہاتھ میں آئی،

میں اپنی کرسی سے اٹھ نیچے اس بوڑھی دادی کے پاس زمین پر بیٹھ گیا اور یہ میرا اٹل فیصلہ تھا کیونکہ میں ایسا کرنے کیلئے آزاد تھا۔

اس پر کوئی اعتراض نہیں کر سکتا تھا۔

ہاں، آس پاس بیٹھے کچھ لوگ اور میرے دوست ایک لمحے کے لیے مجھے گھورتے رہے،

اور عجیب نظروں سے مجھے دیکھتے رہے

لیکن اس سے پہلے کہ وہ کچھ کہتے،

🫧دکان کے مالک نے آگے بڑھ کر دادی کو اٹھا کر کرسی پر بٹھایا اور ہاتھ جوڑ کر میری طرف مسکراتے ہوئے کہا:

بیٹھیں جناب……….! 

میری دکان پر بہت سے گاہک آتے ہیں،

لیکن انسان کبھی کبھار ہی آتے ہیں۔

🫧دکاندار کے کہنے پر میں اور بوڑھی دادی دونوں کرسی پر بیٹھ گئے،

اگرچہ دادی تھوڑی گھبرائی ہوئی تھیں

لیکن میرے ذہن میں بے پناہ اطمینان تھا…………………………………🍂

Loading