Daily Roshni News

ایک قبیلے کا سردار اپنے گھوڑے پر سوار تنہا صحرا میں سفر کر رہا تھا

ایک قبیلے کا سردار اپنے گھوڑے پر سوار تنہا صحرا میں سفر کر رہا تھا

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک قبیلے کا سردار اپنے گھوڑے پر سوار تنہا صحرا میں سفر کر رہا تھا۔ سفر کے دوران اس نے دیکھا کہ ایک شخص ریت میں دھنسا پڑا ہے۔ سردار نے گھوڑا روکا، نیچے اترا، اور اس شخص کے جسم پر جمی ریت ہٹائی۔ قریب سے دیکھا تو وہ نیم بے ہوش ہو چکا تھا۔

سردار نے اسے ہلایا جلایا تو وہ آہستہ سے آنکھیں کھولتے ہوئے پانی… پانی… کی کمزور آواز نکالنے لگا۔

وہ رندھی ہوئی آواز میں بولا،

“پیاس نے میرا حلق اور زبان سوکھے چمڑے کی طرح اکڑا دی ہے۔ اگر پانی نہ پیا تو مر جاؤں گا۔”

سردار نے سوچا کہ یہ شخص بالکل اجنبی ہے، اردگرد کے کسی بھی قبیلے سے تعلق نہیں رکھتا۔ نہ جانے کب سے یہاں بے یار و مددگار پڑا تھا۔

اس نے گھوڑے کی زین کے ساتھ بندھی چھاگل اتاری اور اجنبی کے ہونٹوں سے لگا کر اسے پانی پلایا۔ اجنبی نے جی بھر کر پانی پیا، پھر شکریہ ادا کرتے ہوئے بولا،

“اے رحم دل شخص، میرا گھوڑا شاید کہیں بھاگ گیا ہے۔ کیا تم مجھ پر ایک اور احسان کرو گے؟ مجھے اپنے ساتھ بٹھا کر کسی قریبی جگہ پہنچا دو، تاکہ میں کوئی سواری ڈھونڈ سکوں۔”

سردار نے خوش دلی سے کہا،

“ہاں، کیوں نہیں۔”

وہ گھوڑے پر بیٹھ کر بولا،

“آؤ، میرے پیچھے بیٹھ جاؤ۔”

اجنبی نے زمین سے اٹھنے کی کوشش کی، مگر نقاہت کے باعث دو تین بار گر پڑا۔ پھر ہانپتی آواز میں بولا،

“اس سنگ دل صحرا نے میرا سارا زور چھین لیا ہے۔ براہِ کرم، کیا آپ خود نیچے اتر کر مجھے گھوڑے پر سوار ہونے میں مدد دے سکتے ہیں؟”

سردار فوراً نیچے اترا اور اسے سہارا دے کر گھوڑے پر بٹھانے لگا۔

لیکن جیسے ہی اجنبی بیٹھا، اس نے اچانک سردار کے پیٹ میں ایک زور دار لات ماری اور گھوڑے کو ایڑ لگا کر تیزی سے بھگا لے گیا۔

سردار نے آوازیں دیں۔ اجنبی کچھ فاصلے پر رکا، مڑا اور طنزیہ لہجے میں بولا،

“شاید تم حیران اور شرمندہ ہو کہ ایک اجنبی نے تمہیں دھوکا کیسے دے دیا۔

سنو! میں ایک راہزن ہوں اور لٹیرے سے رحم کی امید رکھنا بے کار ہے۔ چیخنے چِلانے سے بھی کوئی فائدہ نہیں۔”

سردار نے بڑے وقار سے جواب دیا،

“میں ایک قبیلے کا سردار ہوں۔ نہ میں بھیک مانگتا ہوں نہ رحم کی درخواست کرتا ہوں۔

میں صرف اتنا کہنا چاہتا ہوں کہ بات میری شرمندگی کی نہیں، بلکہ تمہاری ذمہ داری کی ہے۔

جب تم اس نایاب نسل کے گھوڑے کو منڈی میں بیچنے جاؤ گے تو لوگ ضرور پوچھیں گے کہ یہ کہاں سے ملا۔

انہیں میرا نام بتانا… کہ فلاں قبیلے کے فلاں سردار نے مجھے تحفے میں دیا ہے۔

لیکن یہ قصہ ہرگز مت سنانا کہ تم نے صحرا میں بے یار و مددگار بن کر کسی بھلے انسان کو لوٹا ہے۔

ورنہ لوگ بے رحم صحراؤں میں مدد کے طلبگار اجنبیوں پر بھروسہ کرنا چھوڑ دیں گے۔”

(عربی حکایات قصص و عبر سے ماخوذ — عربی سے اردو ترجمہ)

Loading