Daily Roshni News

ایک نہیں ، لاکھوں المیے ہیں ،۔۔۔!تحریر۔۔۔محمد خورشید اختر

ایک نہیں ، لاکھوں المیے ہیں ،۔۔۔!

تحریر۔۔۔محمد خورشید اختر

ہالینڈ(ڈٰلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )سنئیر اداکارہ عائشہ خان 77 برس کی عمر میں انتقال کر گئیں ، یہ المیہ نہیں ہے لیکن جس تنہائی میں ان کا انتقال ہوا وہ انسانیت کے لیے المیہ ہے ، جس کو بلایا نہیں جا سکتا ، عائشہ خان ایک سنیر ادکارہ تھیں اور بالکل تنہا ایک فلیٹ میں رہتی تھیں ، خصوصاً شوبز سے جڑے لوگوں اور ادکاروں و فنکاروں کے ساتھ ایسا کیوں ہوتا ہے ؟ اس سوال پر خود اس کمیونٹی کو مل کر سوچنا چاہیے ، سنیر ادکار فردوس جمال ہوں ، یا ماضی میں اعجاز علی خان سمیت سینکڑوں واقعات ایسے ہیں ، آپ عامر لیاقت حسین کو لے لیں ، ان المیوں کو ایسی کمیونٹی کے لوگوں کو دیکھنا اور حل کرنا چاہیے ، آخر آنا ھے ، بغاوت ہے ، معاشی تنگی ھے یا کوئی بیماری؟ سب کا حل مل کر نکالا جا سکتا ہے ، معاشرہ نام ہی اسی کا ہے جہاں مختلف لوگ ایک دوسرے کا اس طرح خیال رکھتے ہیں کہ جیسے ایک کنبہ ہو ، اب عائشہ خان کی وفات اور ایک ھفتہ نعش کا پڑا رہنا اور کسی کو معلوم نہ ہونا اتنی بے حسی کیا ہے ؟کیا ایک دوسرے کا حال احوال معلوم نہ ہو تو جاکر پتہ نہیں کیا جا سکتا ، معاشرہ اتنا بانجھ کیوں ہوتا ہے ، ؟ بے حسی ، خود غرضی ، معاش کی دوڑ ، اور زندگی سے فرار کیا چیز ہے ؟ سوالات تو ہیں ، جواب کوئی نہیں بندا بندے سے بات نہیں کرے گا تو سب غاروں میں بند ہو جائیں گے بس تھوڑے جدید غار ہوں گے ، جہاں تنہائی ، غربت اور کسمپرسی بڑے بڑے بندے کھا جائے گی۔ دنیا گلوبل ولیج بن گئی یا جدید غاروں میں بند ہوگئی ، چلو موبائل ہیں پتہ تو کر لیں نہیں پتہ لگتا جا کر دیکھ لیں ، ویسے انسان بے بس ھے ، مجبور ہے ، سب باتیں حقیقت ہیں مگر زندوں کے لیے لمحہ فکریہ تو ہے ، میں محترمہ بینظیر بھٹو کی شہادت پر شدید ڈپرس ھو گیا تھا واقعہ اپنی نوعیت کا بڑا حادثہ تھا لیکن اتنا بڑا سانحہ یہ تھا کہ بی بی کو سینٹر ھوسپٹل پہنچانے کے لیے ٹیکسی گاڑی بھی میسر نہیں آرہی تھی ، افسوس اور دکھ بلکہ کرب محسوس ہو رہا تھا کہ ایسی صورت میں ائیر ایمبولینس تک ہونی چاہیے وہاں ٹیکسی تک نہیں ہے ، افسوس صد افسوس ، انسانیت کے لیے ھے ، ھم ابھی تک انسان کہلانے کے قابل نہیں ہوئے ، ھم تو نہایت عام سے لوگ ہیں نہ جانے کس گلی کوچے میں جان جائے گی مگر مشاہیر کے ساتھ ایسا ہونا معاشرے کا بھانج پن ہی نہیں مردہ ہونے کی دلیل ہے ،

عائشہ خان ستمبر 1948ء میں پیدا ہوئیں ، پی ٹی وی کے ڈرامے عروسہ ، فیملی ، مہندی وغیرہ سے شہرت پائی ، ایک ورسٹائل اداکارہ تھیں ، خالدہ ریاست ان کی بہن مشہور اداکارہ تھیں ، جو ان سے چھوٹی اور پہلے وفات پا چکی ہیں ، عائشہ خان کی وفات کی اطلاع 19 جون 2025ی کو اس وقت ملی جب نعش میں تعفن پیدا ہوا یہ کتنا بڑا معاشرتی المیہ ہے، کراچی گلشن اقبال کے ایک فلیٹ میں مردہ پائیں گئیں ، اللہ غریق رحمت فرمائے ، بلکہ مردہ معاشرے کی زندگی کی بھی دعا کریں ، یہ کب زندہ ھوگا ۔کچھ ذمہ داریاں حکومت کی بھی بنتی ہیں کہ ایسے لوگوں کے لیے ایک ادارہ ہونا چاہیے جو ایک دوسرے کو آپس میں جوڑے رکھے ، حال احوال کا پتا ہو ، یہی انسانیت ہے باقی تو جانور بھی کھا پی رہے ہیں ، زندہ ہیں ،

موت زندگی کی محافظ بھی ہے اور حقیقت بھی اسی طرح زندگی بھی حقیقت ہے ، کوئی کتنا اچھا یا برا ہے اسے زندہ رہنے کا حق خالق کائنات نے دیا ہے ، وہ جب روح واپس لے لیتا ہے یا آزمائش میں مبتلا کرتا ہے تو اس کے ذمے دار دوسرے ہیں ،ان کی اصل آزمائش ہے کہ وہ کس طرح خیال رکھتے ہیں، ادکار اور فن کار ہو اس کا ایک ایک جملہ ، ایک ایک عمل معاشرے کی پہچان بن جاتا ہے ، لکھنے والے کا حرف حرف اس کے لیے گواہی بن جاتا ہے ، کہاں اس نے رکنا ہے ، کیا کہنا ھے ، کیا کہنا چاہیے ؟، یہی تو اصل ہے. لوٹ جائیں اپنی اصل کی طرف تو زندگی ایک نمونہ بن جاتی ہے باقی” نمونیہ” نہ بنے تو بہتر ہے ، یہ عائشہ خان کا المیہ نہیں ہے یہ معاشرے کا اور اس کے قریبی دوست احباب کا المیہ ہے ، مرنے کے بعد اس کا اختیار ، علم و عمل ختم ، تو اب ذمہ داری کس کی ہے ؟ اسے سوچنا اور سمجھنا ہوگا ۔قدر دانی کریں گے تو قدر ہوگی اور اقدار مضبوط ہوں گی ، اے تیز رفتار وقت ذرا رک جا اور ٹھہر کے دیکھ کتنی عظمت کے مینار تمھاری تیز رفتاری سے منہدم ہو رہے ہیں ، یہ فسانہ نہیں ، یہ مرثیہ اور نوحہ بھی نہیں ہے یہ معاشرے کا بڑا المیہ ہے جو سوچنے کا متقاضی ہے۔

ایک نظر انسانیت پر دوڑائیں ، ھم کہاں کھڑے ہیں ، ؟ کیا کسی مذھب نے ، کسی کتاب نے ، کسی صاحب فکر و عمل نے یہ سبق دیا ہے کہ انسان بے توقیر ہو ، وہ پامال ہو ، اس کی خوداری چھینی جائے ، نہیں ہر گز نہیں ، یہ انسان کی خود غرضی ، معاشرے کی بے حسی اور ذمہ داروں کا غرور و گھمنڈ ہے ، جس کو دوام نہیں ، کمال نہیں ھمیشہ زوال ہے ، بس انسانیت کو زوال سے بچا لیں

Loading