ایک ویران حویلی کا لعنت زدہ راز
شہر کی ہنگامہ خیز زندگی میں، ایک امیر خاندان رہتا تھا – باپ احمد، ایک کامیاب تاجر جو دن بھر کام میں مصروف رہتا، لیکن راتوں کو اسے اپنے خاندان کی خوشی سے زیادہ کچھ نہیں چاہیے تھا؛ ماں فرزانہ، جو گھر کو جنت کی طرح سجاتی، ہر ایک کی دیکھ بھال کرتی، لیکن اب اس کی آنکھوں میں ایک مستقل خوف بیٹھ گیا تھا؛ بڑا بیٹا علی، خاندان کا سہارا اور محافظ، جو ہمیشہ مضبوط رہتا لیکن اندر سے ٹوٹ رہا تھا؛ چھوٹا بیٹا عمر، شرارتی لیکن دل کا صاف، جو اب راتوں کو چیخ کر جاگتا اور اپنی بہن کو دیکھ کر رونے لگتا؛ اور سب سے چھوٹی بیٹی سارہ، 18 سال کی خوبصورت لڑکی جو آرٹ کی طالبہ تھی اور پرانی نوادرات جمع کرنے کی شوقین، لیکن اب اس کا شوق اسے موت کی طرف کھینچ رہا تھا۔ وہ ایک پرتعیش بنگلے میں رہتے تھے، جہاں دیواروں پر مہنگی پینٹنگز لگی تھیں، فرش ماربل کا تھا، اور روشنیاں ہمیشہ جگمگاتیں، لیکن ایک دن سارہ نے شہر کی ایک قدیم اینٹیک شاپ سے ایک سونے کا لاکٹ خرید لیا۔ اس پر ایک عجیب، پراسرار نقش بنا ہوا تھا، جو دیکھنے میں خوبصورت لگ رہا تھا، لیکن اس نقش میں ایک خفیہ لعنت چھپی تھی۔ دکاندار نے ہلکی سی تنبیہ کی، “بیٹی، یہ پرانی چیز ہے، احتیاط سے رکھنا،” لیکن سارہ نے بغیر پروا کیے گلے میں ڈال لیا۔ وہ نہیں جانتی تھی کہ یہ لاکٹ ایک صدی پرانی جادوگرنی زرینہ کا تھا، جو 100 سال پہلے اسی علاقے کی ایک ویران حویلی میں رہتی تھی۔ زرینہ ایک ظالم عورت تھی، جو کالے جادو سے لوگوں کو تباہ کرتی، ان کی روحیں چوس لیتی، اور مرنے کے بعد بھی اس کی روح چین نہیں پا سکی۔ اسے سارہ کے خاندان کے آباؤ اجداد نے اس کی شیطانی حرکتوں کی سزا میں زندہ جلا دیا تھا اور اس کی راکھ کو حویلی کے تہہ خانے میں دفن کر کے لاکٹ سے لعنت کو بند کر دیا تھا۔ اب لاکٹ کھلنے سے روح آزاد ہو گئی، اور زرینہ کا بدلہ آہستہ آہستہ شروع ہوا، جیسے ایک سست زہر جو پہلے ہلکا لگے، جسم کو سن کر دے، اور پھر ایک ایک کر کے اعضا کو گلائے۔ یہ بدلہ صرف موت نہیں تھا، بلکہ درد، خوف، اور تباہی کا ایک لامتناہی سلسلہ تھا جو خاندان کو پاگل کر دے گا۔
شروع میں، سب کچھ ہلکا اور معمولی سا لگا، جیسے ایک چھوٹی سی بادل کی آمد جو طوفان کا پیش خیمہ ہو۔ پہلے دنوں میں سارہ کو بس ایک عجیب سی تھکاوٹ محسوس ہوئی، جیسے کوئی اس کی توانائی چوس رہا ہو، اس کی روح کو آہستہ آہستہ کھرچ رہا ہو۔ رات کو سوتے وقت لاکٹ ہلکا سا گرم ہوتا، گردن پر ایک ہلکی سی جلن پیدا کرتا جو صبح تک غائب ہو جاتی، لیکن اس کی جلد پر ایک پیلا نشان چھوڑ جاتا۔ کمرے میں کبھی کبھار ایک ٹھنڈی ہوا کا جھونکا آتا، حالانکہ کھڑکیاں بند ہوتیں، اور یہ ہوا ایک بوڑھی عورت کی سانس کی طرح لگتی، جو کانوں میں سرگوشی کرتی، “میرے پاس آ…” لیکن آواز اتنی دھیمی ہوتی کہ سارہ سوچتی یہ وہم ہے۔ ایک رات، الماری سے ہلکی سی آواز آئی، “کریچ… کریچ…” جیسے کوئی اندر سے دروازہ کھولنے کی کوشش کر رہا ہو، ناخنوں سے لکڑی کو کھرچ رہا ہو۔ سارہ اٹھی، لائٹ جلائی، دروازہ کھولا تو اندر کچھ نہیں تھا، صرف اس کے کپڑے الٹے پلٹے پڑے تھے، جیسے کسی نے ڈھونڈا ہو۔ خاندان کو اس نے بتایا تو فرزانہ نے ہنس کر کہا، “بیٹی، تھک گئی ہو گی، آرام کرو۔” احمد نے بھی پروا نہیں کی، اور عمر نے مذاق اڑایا، “بہن، شاید چوہے ہیں!” لیکن سارہ کے دل میں ایک ہلکی سی بے چینی بیٹھ گئی، جیسے کوئی نامعلوم خطرہ آس پاس منڈلا رہا ہو۔
آہستہ آہستہ، چیزیں شدت پکڑنے لگیں، جیسے زہر جسم میں پھیل رہا ہو، پہلے انگلیوں کو سن کر دے، پھر بازوؤں کو بے حس کر دے۔ اب راتوں کو کمرے میں ایک ہلکی بو پھیلنے لگی، جیسے پرانی، سڑی ہوئی لاش کی، جو ناک کو چھیدتی اور جی متلانے لگتی۔ دیواروں پر سایے تھوڑے سے حرکت کرتے نظر آتے، لمبی انگلیوں کی طرح جو سارہ کی طرف بڑھ رہی تھیں، جیسے کوئی اندھیرے میں چھپا اسے چھونے کی کوشش کر رہا ہو۔ ایک رات سارہ جاگی تو لاکٹ کی زنجیر خود بخود کھلنے کی کوشش کر رہی تھی، جیسے زندہ ہو کر اس کی گردن کو کس رہی ہو، اور اس کی جلد پر ناخنوں جیسے نشان ابھر آئے۔ اس نے خاندان کو بتایا، علی نے چیک کیا تو کہا، “شاید خراب ہے، اتار دو۔” لیکن لاکٹ نہیں اترا، جیسے جلد سے چپک گیا ہو، اور جب زور لگایا تو خون بہنے لگا۔ اب خاندان کو بھی شک ہونے لگا، عمر نے کہا، “بہن، یہ کوئی عجیب چیز ہے، شاید لعنتی ہے۔” لیکن ابھی بھی سب نے وہم سمجھا۔ پھر ایک رات روشنیاں جھپکنے لگیں، جیسے بجلی کا کرنٹ کم ہو رہا ہو، اور ایک دھیمی آواز آئی، “سارہ… میرے پاس آؤ…” جیسے کوئی بوڑھی عورت دور سے پکار رہی ہو، اس کی آواز میں درد اور غصہ ملا ہوا۔ سارہ کی چیخ سن کر سب آئے، فرزانہ نے دیکھا تو اس کی آنکھوں میں خوف آیا، “بیٹا، کیا ہو رہا ہے؟ یہ آواز کہاں سے آئی؟” احمد نے مولوی کو فون کیا، لیکن ابھی کچھ یقین نہیں تھا، سوچا شاید نفسیاتی مسئلہ ہے۔ لیکن رات بھر کمرے میں ٹھنڈک چھا گئی، جیسے قبرستان کی ہوا اندر آ گئی ہو، اور دیواروں پر نمی کی بوندیں گرنے لگیں، جو خون کی طرح سرخ نظر آتیں۔
اب واقعات مزید خوفناک ہونے لگے، جیسے طوفان کی آمد سے پہلے آسمان کالا ہو جائے، ہوائیں چیخیں مارنے لگیں، اور ہر چیز لرزنے لگے۔ کمرے میں خون کی ہلکی بوندیں ٹپکنے لگیں، چھت سے جیسے کوئی زخمی جسم سے بہہ رہا ہو، دیواروں پر دھبے بنتے جو غائب ہو جاتے لیکن بو چھوڑ جاتے۔ بستر کے نیچے سے کراہٹیں آنے لگیں، جیسے کوئی بوڑھا شخص درد میں تڑپ رہا ہو، “آہ… بدلہ…!” اور جب سارہ نے نیچے جھانکا تو فرش پر ایک سایہ دیکھا، جیسے ایک پھٹی ہوئی لاش کا۔ سارہ کی ٹانگ پر ناخنوں کے نشان ابھر آئے، لمبے، تیز ناخن جو جلد کو چیرتے، خون بہنے لگا جیسے کوئی غیر مرئی ہاتھ نے پکڑا ہو۔ خاندان اب سمجھ گیا کہ یہ کوئی عام بات نہیں، کوئی آسائبی طاقت یا بدروح ہے جو گھر میں گھس آئی ہے، جو سارہ کو نشانہ بنا رہی ہے اور خاندان کو تباہ کرنا چاہتی ہے۔ عمر رو پڑا، “بابا، یہ جن ہے یا بھوت! ہمیں کچھ کرنا ہوگا!” فرزانہ کو دورے پڑنے لگے، اس کی آنکھیں الٹ جاتیں، منہ سے جھاگ نکلتا، جیسے کوئی اندر سے اسے کھا رہا ہو۔ احمد کا دل دھڑکنے لگا، ایک رات اسے دل کا دورہ پڑنے سے بچایا گیا، لیکن ڈاکٹر نے کہا، “یہ تناؤ کی وجہ سے ہے۔” علی نے تحقیق شروع کی، پرانی کتابیں کھنگالیں، اور پتہ چلا کہ یہ زرینہ کی روح ہے، جو بدلہ لینے آئی ہے۔ لیکن راتیں اب جہنم بن گئیں – ہوا میں چیخیں گونجتیں، جیسے کئی روحیں ایک ساتھ رو رہی ہوں، سامان اڑنے لگتا، الماریاں خود کھل جاتیں اور اندر سے کالے ہاتھ نکلتے، لاکٹ سے دھواں نکلتا جیسے آگ کی لپٹیں اسے گھیر رہی ہوں۔ خاندان نے تسلیم کر لیا کہ بدروح سارہ پر قابض ہو رہی ہے، جو بدلہ لینا چاہتی ہے، اور اگر نہ روکا تو سب کو مار ڈالے گی۔ مولوی آئے، تعویذ دیے، لیکن زرینہ کی ہنسی گونجی، “یہ کچھ نہیں کر سکتے… میں ابدی ہوں!” اور مولوی کا تعویذ جل کر راکھ ہو گیا۔
بالآخر، ایک رات سارہ کا کمرہ چیخوں سے گونج اٹھا، جیسے قیامت کا آغاز ہو۔ خاندان دوڑا آیا تو سارہ بستر پر تڑپ رہی تھی، خوف سے چیخ رہی تھی، “مدد کرو… یہ مجھے کھا رہی ہے! یہ اندر ہے، میری روح کو چیر رہی ہے!” اس کی آنکھیں خوفزدہ تھیں، جسم کانپ رہا تھا، ناخن اپنی جلد میں گھونپ رہی تھی، خون کے دھارے بہہ رہے تھے۔ لیکن جیسے ہی خاندان اندر داخل ہوا، دروازہ پیچھے سے خود بند ہو گیا، ایک زور کی آواز سے، جیسے قفل لگ گیا ہو۔ سارہ کا رویہ ایک دم بدل گیا۔ وہ اچانک خاموش ہو گئی، اٹھی اور کھڑی ہو گئی، اس کا جسم سیدھا اور طاقتور لگ رہا تھا، جیسے کوئی بادشاہ تخت پر بیٹھا ہو۔ اس کی مسکراہٹ شیطانی ہو گئی، دانت چمکتے ہوئے، جیسے کوئی اور اس کے جسم میں گھس آیا ہو، اس کی روح کو کچل کر اپنی جگہ لے لی ہو۔ آنکھیں ایک دم کالی ہو گئیں، جیسے گہرے، بے انتہا گڑھے جو روح چوس لیتے ہوں، جن میں دیکھنے والا خود کو کھو دے، اور ان آنکھوں سے ایک سرخ چمک نکل رہی تھی، جیسے آگ کی لپٹیں۔ “تم سب آ گئے ہو… اب مزہ آئے گا! دیکھو، میں کتنی طاقتور ہوں!” ایک بوڑھی، گھنگھوری آواز میں زرینہ بولی، جو سارہ کے منہ سے نکل رہی تھی، کانوں کو چھیدنے والی اور خوفناک، جیسے قبر سے آ رہی ہو۔ خاندان جم گیا، احمد پیچھے ہٹا، اس کے ہاتھ کانپ رہے تھے، “سارہ… یہ تم نہیں ہو، چھوڑ دو اسے!” فرزانہ چیخی، “بیٹی، لڑو اس سے!” لیکن سارہ نے ہاتھ اٹھایا، اور بستر خود بخود اٹھ کر دیوار سے ٹکرا گیا، لکڑی کے ٹکڑے اڑے جو ہوا میں لٹک گئے، جیسے غیر مرئی طاقت نے روک لیا ہو۔ ٹکڑے خاندان پر حملہ کرنے لگے، علی کے سر پر لگا، خون بہنے لگا، عمر کی ٹانگ پر گرا، وہ گر پڑا چیخ کر۔ “تمہارے دادا نے مجھے جلایا تھا… زندہ جلایا، میری چیخیں سن کر ہنسے تھے! اب تم سب جلاؤ گے، آہستہ آہستہ، درد سے تڑپ تڑپ کر، تمہاری چیخیں میری روح کو سکون دیں گی!” زرینہ ہنسی، اس کی ہنسی کمرے میں گونجی، دیواروں سے لہو بہنے لگا، جیسے دیواریں زندہ ہو کر رو رہی ہوں، روشنیاں پھٹ گئیں، شیشے کے ٹکڑے ہوا میں اڑنے لگے، اور ہوا میں سڑی لاشوں کی بو پھیل گئی، جو سانس لینا مشکل کر دے۔ عمر گر پڑا، اس کی آنکھیں الٹ گئیں، جیسے کوئی اندر سے اسے کھینچ رہا ہو، فرزانہ کو ایک غیر مرئی ہاتھ نے گلا گھونٹا، وہ دم گھٹنے لگی، اس کی آنکھیں باہر نکل آئیں، “احمد… مدد…” وہ بولی، لیکن آواز دب گئی۔ “یہ لڑکی میری ہے… میں اسے حویلی لے جاؤں گی، جہاں روحیں چیختی ہیں، لاشیں زندہ ہوتی ہیں، اور موت بھی مر جاتی ہے! وہاں تمہارے آباؤ اجداد کی ہڈیاں سڑ رہی ہیں، اور اب تم سب وہاں آؤ گے، ابدی اذیت کے لیے!” سارہ کا جسم اب طاقتور تھا، وہ ہوا میں اٹھ گئی، بال لہرانے لگے جیسے سانپ، ناخن لمبے ہو گئے، تیز اور کالا، اور خاندان پر سایہ ڈال دیا، جیسے موت کا فرشتہ آ گیا ہو۔ احمد چیخا، “چھوڑ دو اسے، تم کون ہو؟” زرینہ بولی، “میں زرینہ ہوں، تمہاری تباہی! دیکھو، اب شروعات ہے…” اور کمرہ لرزنے لگا، زمین پھٹنے لگی، جیسے قبر کھل رہی ہو، اور اندھیرے سے مزید ہاتھ نکلے، کالے، پھٹے ہوئے، ہڈیاں نظر آتیں، جو خاندان کو کھینچنے لگے، ان کی جلد کو چیرنے لگے۔ علی نے سارہ کو پکڑنے کی کوشش کی، “بہن، لڑو!” لیکن زرینہ نے اسے ایک نظر سے دیوار سے ٹکرا دیا، اس کی ہڈیاں چٹخنے کی آواز آئی۔ لعنت اب کھل کر سامنے تھی، اور بدروح کا قبضہ مکمل ہونے والا تھا، لیکن علی نے سوچا کہ ابھی امید ہے – حویلی جا کر زرینہ کی باقیات کو جلا کر یہ ختم کیا جا سکتا ہے۔ لیکن راستہ موت سے بھی بدتر تھا، جنگل میں بھوتوں کی فوج، زہریلے جانور، اور اندھیرے جو روح کو نگل لیتے۔ کیا علی بچ پائے گا، یا خاندان کی چیخیں ابدی ہو جائیں گی؟
#urdustorytime
#horrorstoryinhindi
#horror
#scary .
![]()

