ایک ہنستا مسکراتا فن پارہ
گاؤں کا چوہدری، میراثی کو دوسرے گاؤں کی نیاز پر ساتھ لے گیا۔
ساتھ کے گاؤں پہنچ کر، انہوں نے چوہدری صاحب کو ورتاوے (دیگ بانٹنے) پر لگا دیا۔
میراثی چوہدری کے ساتھ بیٹھا تھا۔ جیسے ہی چوہدری نے دیگ کھولی، میراثی کو چھوٹے گوشت اور دیسی گھی کی بھینی بھینی خوشبو پہنچی تو میراثی غیر ارادی طور پر کھانا لینے لائن میں لگ گیا۔
میراثی کو لائن میں لگا دیکھ کر چوہدری بولا:
“گامیا… توں ایدھر آ جا، توں ہیگا ایں میرے ذہن وچ۔ ٹینشن نہ لے!”
(تم ادھر آ جاؤ، تم ہو میرے ذہن میں۔ ٹینشن مت لو۔)
پہلی دیگ ختم ہو گئی۔ میراثی کا منہ لٹک سا گیا۔
دوسری دیگ کھلی۔
میراثی خوشبو اور بھوک کے مارے، پھر غیر ارادی طور پر، عادت سے مجبور ہو کر لائن میں لگ گیا۔
چوہدری پھر بولا:
“گامیا… توں ایدھر آ جا، توں ہیگا ایں میرے ذہن وچ!”
(تم ادھر آ جاؤ، تم ہو میرے ذہن میں!)
میراثی سر جھکائے، پھر واپس آ گیا۔
دوسری دیگ بھی ختم ہو گئی۔
میراثی انتہائی مایوس، مزید مرنے والا ہو گیا۔
تیسری اور آخری دیگ کھلی۔
میراثی، جس کی حالت مارے بھوک کے غیر ہو رہی تھی، اٹھا اور پھر لائن میں لگ گیا۔
چوہدری پھر بولا:
“گامیا… ایدھر آ جا، توں ہیگا ایں میرے ذہن وچ!”
میراثی، جو کہ اب بالکل تنگ آ چکا تھا، ہاتھ جوڑ کر بولا:
“خیر ہووے چوہدری صاب… تُسی دو منٹ واسطے مینوں اپنے ذہن چوں کڈ نئیں سکدے؟؟”
(خیر ہو چوہدری صاحب! کیا آپ دو منٹ کے لیے مجھے اپنے ذہن سے نکال نہیں سکتے؟)