Daily Roshni News

اے روح قائد ہم واقعی تم سے شرمندہ ہیں۔۔۔ تحریر ۔۔۔سیدہ فرحت رضوی

بانی ِپاکستان قائداعظم

اے روح قائد ہم واقعی تم سے شرمندہ ہیں۔

تحریر ۔۔۔سیدہ فرحت رضوی

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔۔ اے روح قائد ہم واقعی تم سے شرمندہ ہیں۔۔۔ تحریر ۔۔۔سیدہ فرحت رضوی)

*یوں دی ہمیں آزادی کہ دنیا ہوئی حیران

 اے قائد اعظم تیرااحسان ہے تیرا  احسان

 25 دسمبر کو پوری مسیحی برادری کرسمس مناتی ہے تو دوسری طرف 25 دسمبر

بانی پاکستان اور پہلے گورنر  جنرل پاکستان قائد اعظم محمد  علی جناح کی پیدائش کا دن ہے قائد اعظم محمد علی جناح  25 دسمبر 1876 کو کراچی میں پیدا ہوئے اور 11 ستمبر 1948 کو 72 سال کی عمر میں کراچی میں وفات پائی

قائد اعظم محمد علی جناح  1913 سے لے کر پاکستان کی  ازادی 14 اگست 1947 تک آل انڈیا مسلم لیگ کے سربراہ رہے

پھر قیام پاکستان کے بعد اپنی وفات تک وہ ملک کے پہلے گورنر جنرل رہے پاکستان کے پہلے گورنر جنرل کے طور پر جناح نے اپنی حکومتی پالیسیوں کے قیام کے لیے کام کیا نیز انہوں نے ان لاکھوں لوگوں کے بہبود اور آباد کے لیے بھی کام کیا جو تقسیم ہند کے بعد پاکستان کی جانب ہجرت کر چلے تھے  برطانوی وزیر اعظم نوائل چیمبر لین نے تین ستمبر 1939 کو نازی جرمنی کے خلاف جنگ کا اعلان کر دیا اور اس کے ساتھ ہی وائسرائے ہند وکٹر ہوپ نے ہندوستانی سیاست دانوں کو کسی خاطر میں لائے بغیر جنگ میں برطانیہ کا بھرپور ساتھ دینے کا فیصلہ کیا اس عمل پر برصغیر میں بڑے مظاہرے ہوئے جناح سے ملاقات کے بعد وائسرائے نے یہ موقف اپنایا کہ جنگ کی وجہ سے خود مختار حکومت کا معاملہ معطل کیا گیا ہے کانگریس نے ایک قانونی اسمبلی سے قانون کو بنانے اور ازادی کا مطالبہ کیا جب اس مطالبے کو مسترد کیا گیا تو کانگریس 10 نومبر کو اپنے 8 صوبائی  حکومتوں سے مستعفی ہو گئی ان صوبوں میں جنگ کے دوران معاملات کو گورنر چلاتے رہے اس دوران میں جناح  دوسری طرف انگریزوں کی حمایت کرنے لگے جس کے سبب انگریز انہیں مسلم ابادی کا نمائندہ سمجھنے لگے  جناح  بعد میں کہتے کہ جنگ کے شروع ہونے کے بعد انگریزی انہیں گاندھی کے برابر اہمیت دینے لگے میں حیران تھا کہ مجھے گاندھی کے ساتھ والی نشست پر بٹھایا جاتا اگرچہ مسلم لیگ نے جنگ میں برطانیہ کے متحرکہ طور پر حمایت نہ کی اور نہ ہی انہوں نے اس میں رکاوٹ ڈالی

قائدا اعظم کی قابلیت زہانت محنت ایمانداری اور اصول  پسندی کے صرف مسلمان ہی قائل نہیں تھے بلکہ ہندو اور انگریز بھی ان کے غیر معمولی صلاحتیوں کے متعرف تھے 

یہی وجہ ہے کہ انگریز اب تک اس بات کا رونا  روتے ہیں کہ انہیں اگر قائد اعظم محمد علی جناح کی بیماری کا علم پہلے ہو جاتا تو وہ کبھی بھی پاکستان بننے نہ دیتے قائد اعظم اپنی بیماری سے متعلق بہت پہلے سے اگاہ تھے اور ان کی دور اندیشی تھی کہ انہوں نے کبھی اپنی بیماری کو ہندو انگریزوں پر ظاہر نہ ہونے دیا کیونکہ وہ ہو بھی جانتے تھے کہ اگر ہندو انگریزوں کو ان کی بیماری کا علم ہو گیا تو پھر انگریز ہندوستان کی تقسیم کو موخر کر دیں گے اپ کی مسلمانوں کے لیے اور  وطن کے قیام کے لیے جدوجہد نبی کریم حضرت محمد مصطفی صلی علی علیہ والہ وسلم سے عقیدت کا اندازہ ان تاریخی جملوں سے لگایا جا سکتا جب وفات سے قبل قائد نے اپنے ڈاکٹر سے کہا کہ پاکستان ہرگز وجود میں نہ اتا اگر اس میں فیضان نبوی شامل نہ ہوتا

اپ 16 سال کی عمر میں وکالت کی تعلیم کے حصول کے لیے جب لندن گئے تو وہاں تعلیمی درسگاہ لنکنزان  میں داخلہ کو اس لیے ترجیح دی کہ اس کے صدر  دروازے کے اوپر دنیا کے عظیم ترین رہنماؤں کے نام درج تھے

جنہوں نے دنیا کو قوانین سے متاثر کیا ان میں سر فہرست حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا نام مبارک لکھا تھا اج اسی تاریخی درسگاہ لنکنزان کی لائبریری میں قائد اعظم محمد علی جناح کا مجسمہ نصب ہے جسے برطانوی مجسمہ ساز فلپ جیکسن نے تیار کیا تھا قائد کا مجسمہ دنیا بھر سے وكالت کی تعلیم کے لیے

وہاں انے والے طلبہ کو یہ پیغام دیتا ہے کہ کس طرح قائد اعظم نے دنیا کو اپنی قوم یاب اور مضبوط دلائل سے قائل کر کے مسلمانوں کے لیے ایک الگ وطن پاکستان کی بنیاد رکھی

 

پیر سید جماعت علی شاہ اس دور کے ولی کامل تھے انہوں نے ایک مرتبہ فرمایا کہ محمد علی جناح  اللہ کا ولی ہے اس پر کچھ لوگوں نے کہا اپ اس شخص کو اللہ کا ولی کہہ رہے ہیں جو دیکھنے میں انگریز لگتا ہے اس کی داڑھی بھی نہیں ہے اس پر حضرت جماعت علی شاہ نے فرمایا کہ تم اس کو نہیں جانتے وہ ہمارا کام کر رہا ہے اپ نے قائد اعظم محمد علی جناح کو قران پاک جائے نماز اور تسبیح کا تحفہ بھی دیا تھا جس طرح اج کے دور میں اسلام دشمن عناصر مسلمانوں کو لڑانے کے لیے شیعہ سنی کے نام پر فساد پیدا کرنے کے لیے اوچھے ہتھکنڈے استعمال کرتے ہیں اسی طرح قائد اعظم کے دور میں بھی مسلمانوں کے درمیان پھوٹ ڈلوانے کے لیے ایسی گھٹیا حرکتیں کی جاتی تھی

چنانچہ اسی طرح ایک کانفرنس میں کسی صحافی نے جب قائد اعظم سے سوال پوچھا کہ اپ شیعہ ہیں یا سنی یہ سوال ایسا تھا جس کے جواب میں شیعہ سنی کے درمیان فساد برپا ہونے اور مسلمانوں کا اپس میں تقسیم ہو جانے کا خطرہ تھا قائد اعظم نے اپنی ذہانت سے برجستہ صحافی سے سوال پوچھا حضور اکرم محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کیا تھے اگر وہ شیعہ تھے تو میں شیعہ ہوں اگر وہ سنی تھے تو میں سنی ہوں اگر وہ صرف مسلمان تھے تو میں بھی صرف مسلمان ہوں ایک مرتبہ سن 1941 میں قائد اعظم مدارس میں مسلم لیگ کا جلسہ کر کے واپس جا رہے تھے کہ راستے میں قصبہ سے گزر ہوا جہاں مسلمانوں نے ان کا پرجوش استقبال کیا سب پاکستان زندہ باد کے نعرے لگا رہے تھے اسی ہجوم میں پھٹی پرانی نیکر پہنے ایک اٹھ سال کا بچہ بھی پاکستان زندہ باد کے نعرے لگا رہا تھا اسے دیکھ کر قائد نے اپنی گاڑی روکنے کو کہا اور لڑکے کو پاس بلا کر پوچھا تم پاکستان کا مطلب سمجھتے ہو لڑکا گھبرا گیا قائد نے اس کا حوصلہ بڑھاتے ہوئے پیار سے پھر وہی سوال پوچھا لڑکا بولا پاکستان کا بہتر مطلب اپ جانتے ہیں ہم تو بس اتنا جانتے ہیں جہاں مسلمانوں کی حکومت وہ پاکستان اور جہاں ہندوؤں کی حکومت وہ ہندوستان کائد اعظم نے اپنے ساتھ ائے صحافی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا مدارس کا چھوٹا سا لڑکا پاکستان کا مطلب سمجھتا ہے لیکن گاندھی جی نہیں سمجھ سکتے یہ بات صحافی نے نوٹ کر لی اور اگلے روز تمام اخبارات میں یہ خبر شائع ہو گئی مسلمانوں کے لیے الگ وطن کے قیام کی ضرورت اور اہمیت اج دنیا کو اچھی طرح معلوم ہو چکی ہے خصوصا انڈیا میں رہنے والے مسلمان جو ماضی میں ہندوستان کے تقسیم سے نالاں  نظر اتے تھے اج قائد اعظم محمد علی جناح کے دو قومی نظریہ کو درست تسلیم کرتے ہوئے اس بات پر پچھتاتے ہیں کہ ان کے اباؤ اجداد نے انڈیا میں رہنا قبول کیوں کیا علامہ اقبال بھی قائد اعظم کی قابلیت ذہانت اور ایمانداری کو مانتے تھے سن 1936 کے اخری دنوں میں ایک روز جب قائد اعظم کی امانت دیانت اور قابلیت کا ذکر ہو رہا تھا اس پر علامہ اقبال نے کہا مسٹر جناح اس وقت تک ان کے لیے قائدا اعظم کا لقب رائج نہیں ہوا تھا کو اللہ تعالی نے ایک ایسی خوبی عطا کی ہے جو اج تک ہندوستان کی کسی مسلمان میں مجھے نظر نہیں ائی حاضرین میں سے کسی نے پوچھا ہے وہ کیا ہوئی تھی تو علامہ اقبال نے انگریزی میں 

This is incorruptible unpurchaseable

قائد اعظم کی زندگی کا کوئی بھی واقعہ پڑھ لیں ہر ایک میں محنت امانت سچائی دیانت  داری ذہانت اصول دین اسلام اور نبی کریم سے محبت کا درس ملے گا ہمیں ازادی کی قدر کرتے ہوئے ملک میں ترقی خوشحالی امن بھائی چارے اور محبت کو فروغ دینا ہوگا قائد اعظم کی انتھک محنت کے بعد پاکستان وجود میں ایا قائد اعظم محمد علی جناح کی محنت کے صلے میں اج ہم ایک آزاد ملک میں سانس لے رہے ہیں

مگر یہ کیا کہ ہم قائد کے  پاکستان کو کتنی بے رحمی سے برباد کر رہے ہیں پاکستان بنانے کا یہ مقصد نہیں تھا کہ ہمارے  ذہن ہمیشہ کے لیے غلام ہو جائیں

اگر ہمارے قائد ہمیں ایک آزاد ملک میں آزادانہ زندگی گزارنے کی ہمت اور جرات دے کے گئے ہیں تو کیا ہم اس ازادی کو ہمیشہ کے لیے ذہنی غلام بن کے تو ختم کر دیں گے  کیوں نہیں اج ہمارے ذہن ہمارے قائد سے ملتے کیوں ہم اپنے پوروں کی محنت کو کس طرح اجاڑ رہے ہیں کیا ہی اچھا ہوتا کہ اگر ہم 1947 کے واقعات اپنے ذہن میں رکھیں کہ کس طرح کتنی مشکلات سے کتنی قربانیوں کے بعد کتنے خون کے دریا بہائے گئے ہمیں آزادی دلانے کے لیے تو کبھی بھی ہم اپنے ملک کے ساتھ غداری کرنے کا نہ سوچیں کبھی بھی ہم اپنی زندگی کو غلام نہ بنائیں نہ ہی ہم ذہنی غلام بنيں  اور اپنے ملک پاکستان کی حفاظت کریں جس کے لیے ہمارے بڑوں نے پورکھوں  نے قربانیاں دی  اور کتنی جدوجہد کے بعد ہمیں ملک پاکستان حاصل ہوا اور ہم آزادی کی زندگی جینے لگے مگر ہم اپنے ذہنوں کو اج بھی آزاد نہیں کر پائے غلامی سے اج بھی ہم ذہنی غلام بنے ہوئے ہیں اور دوسرے ملک ہمارے پاکستان ملک کا مذاق اڑاتے ہیں کیونکہ اج ہمیں بس پیسہ چاہیے ہماری نظر میں صرف پیسے کی اوقات ہے پیسے کے لیے ہمارا ملک داؤ پہ لگتا ہے تو لگ جائے ہمارا ملک برباد ہوتا ہے تو ہو جائے پاکستان حاصل کرنے کا مقصد صرف پیسہ نہیں تھا اس میں اپنائیت پیار محبت خلوص سب کچھ شامل تھا مگر آنے والی نئی نسلوں نے قائد اعظم محمد علی جناح کو کیا دیا کہ اپنے ہی ملک پاکستان کو آزاد ملک پاکستان کو تماشہ بنا دیا دوسرے ملکوں کی نظروں میں مقروض کر دیا ملک کو صرف اپنے مفادات کی خاطر

 تو کیا یہ پیسہ ہمارے ساتھ قبروں میں بھی جائے گا کبھی نہیں سوچا کہ اگر پیسے کی بجائے ہم اپنے اعمال پہ نظر رکھیں اپنے عمل بہتر کریں تو اللہ تعالی ہمیں ہر کام میں کامیاب کرے  مگر نہیں اج انسان کی سوچ بس پیسے پہ جا کے ختم ہوتی ہے ابھی بھی ایک نئے عزم کے ساتھ اگر ہم اپنے ملک کی خوشحالی کے لیے ایک ساتھ ہو کے اپنے ملک کی بہتری سلامتی کے لیے متحد ہو جائیں تو ہم دوسرے ملکوں کو بہت پیچھے چھوڑ جاتے ہیں مگر ہم نے قائد کے پاکستان کو کیا دیا ہم نے قائد کے سپنوں کو توڑ دیا ہم نے اپنے پاکستان کے وجود کو توڑنا شروع کیا جو دن بدن ہمارا ملک مقروض ہوتا گیا اور ہم اپنی انکھوں سے اپنے وطن کو اپنے ملک پاکستان کو برباد ہوتا دیکھتے ہیں مگر ہم کر کچھ نہیں سکتے کیونکہ ہمارے  پاکستان کے قومی خزانے پہ کالی بھیڑیں منہ کھولے بیٹھی  ہوئی ہیں جو کہ ہمارے ملک کو آہستہ آہستہ ڈیفالٹ کی طرف لے کے جا رہی  ہیں کیونکہ ہمیں تو ترقی کی طرف جانا ہی نہیں ہے ہمیں تو بس آپسی اختلافات رنجشیں بغاوت اور حسد کی اگ ہی کچھ کرنے نہیں دے رہی

تو ہم نے کیا ترقی کرنی ہے

کیونکہ ہم میں ہمت ہی نہیں ہے کہ ہم غلط کو غلط کہہ سکیں صحیح کو صحیح کہہ سکیں

تو پھر ہم کیسے آزاد ملک کا تصور کر سکتے ہیں  جب ہم اپنے حق کے لیے کسی کے حق کے لیے بھی اواز نہیں اٹھا سکتے اپنے ملک پاکستان کے لیے نہیں بول سکتے تو ہمیں  آزاد ملک میں رہنے کا حق ہی نہیں ہے کیونکہ ہم تو غلام ہیں ہمارے ذہن غلام ہیں

اور ہم نے یہ غلامی خود اپنے لیے خریدی ہے کیونکہ ہمیں خود پہ اعتماد نہیں ہے اور جب ہمیں خود پہ اعتماد نہ ہوگا تو ہم کیسے آزاد ملک میں رہ سکیں گے

ہم نے اپنے قائد کے سپنوں کو چکنا چور کیا ہم نے اپنے قائد کے پاکستان کو اپنی انکھوں سے برباد ہوتے دیکھا قائد اعظم محمد علی جناح نے ایک بہت اچھا خواب دیکھا تھا پاکستان کے لیے کہ پاکستان ملک اسلامی ملک ہے بہت ترقی کرے گا مگر ہمارے قائد کو یہ علم نہیں تھا کہ ایک وقت ائے گا جب نفسا نفسی ہوگی جب پیسے کی اوقات انسان سے زیادہ ہوگی انسان کی قیمتی جان سے زیادہ اہم پیسہ ہوگا کاش کہ ہمیں ہمارے رہنما ہمارے قائد جیسے ملتے تو اج پاکستان دنیا کے نمبر ون ملکوں میں ہوتا اج پاکستان دوسرے ملکوں کو قرضہ دے رہا ہوتا قرضہ مانگ نہیں رہا ہوتا مگر افسوس کی اچھے رہنما قائد کے ساتھ ہی ختم ہو گئے تھے

قائدا اعظم نے کیا خوب کہا تھا کہ میں اپنا کام پورا کر چکا ہوں قوم کو جس چیز کی ضرورت تھی وہ اسے مل گئی اب یہ قوم کا کام ہے کہ اسے تعیمر کرے

 مگر قائد اعظم محمد علی جناح  کو کیا پتہ تھا کہ

 بے اثر ہو گئے سب حرف نوا تیرے بعد

 کیا کہیں دل کا جو احوال ہوا تیرے بعد

 تو بھی دیکھے تو ذرا دیر کو پہچان نہ پائے

 ایسی بدلی کوچے کی فضا تیرے بعد

 یہ تو کیا کسی پیماں کی حفاظت ہوتی

 ہم سے ایک خواب سنبھالا نہ گیا تیرے بعد

Loading