باباۓ اردو مولوی عبدالحق
August 16, 1961
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )مولوی صاحب اردو کے صفِ اول کے ادیب،نقاد،ماہر دکنیات،محقق،لغت نویس،مترجم۔ماہر صرف ونحو۔تبصرہ نگار۔خاکہ نگار اور ادبی صحافی کے ساتھ ساتھ اردو تحریک کے زبردست علم بردار تھے۔ان کی ساری زندگی اردو اور انجمن ترقی اردو کی خدمت میں گزری۔
انجمن ترقی اردو محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس کے ادبی شعبے کی حیثیت سے قائم ہوئی تھی۔اس کے پہلے صدر ٹامس آرنلڈ اور سیکرٹری علامہ شبلی نعمانی منتخب ہوۓ اور نائد صدور کے عہدوں کے لیے منشی ذکاءاللہ،ڈپٹی نذیر احمد اور مولانا الطاف حسین حالی کو منتخب کیا گیا۔1905ء میں مصروفیات کی وجہ سے علامہ شبلی نعمانی مستعفی ہو گۓ اور اس عہدے کے لیے حبیب الرحمٰن شیروانی منتخب ہوۓ۔1910ء میں شیروانی صاحب نے بھی استفٰی دے دیا اور عزیز مرزا صاحب کو یہ ذمہ داری سونپ دی گئی۔بدقسمتی سے دو سال بعد ہی عزیز صاحب کا انتقال ہوگیا اور اس بار قرعہ فال مولوی عبدالحق کے نام پڑا۔مولوی عبدالحق صاحب نے لکھا ہے کہ جب انھوں نے انجم کا چارج لیا تو انھیں ایک ٹین کا ٹوٹا ہوا صندوق ملا تھا جسے رسی سے باندھ رکھا تھا صندوق کے اندر دو ایک رجسٹر چند پرانے بغیر مرتب کیے مسوادات،ایک قلم اور باق بس اللہ کا نام تھا۔یہ تھی کل کائنات جو انجن کے نۓ سیکرٹری یعنی مولوی صاحب کو ملی تھی۔مولوی صاحب انجمن کو اپنے ساتھ اورنگ آباد لے گۓ۔انھوں نے چند روز میں انجمن کو ایک فعال اور سر گرم ادارہ بنا دیا۔وہ انجمن جس کی کل کائنات ایک ٹوٹا ہوا صندوق تھا۔باقاعدہ ایک جدید انداز کے دفتر میں بدل گیا گیا۔مولوی صاحب نے عزیزوں،دوستوں اور صاحب اقتدار لوگوں سے چندہ جمع کرنا شروع کیا۔حیدرآباد ریاست سے درخواست کی اور تین ہزار روپے سالانہ کی امداد انجمن کو ملنی شروع ہو گئی۔مولوی صاحب کی سب سے بڑی تمنا اور کوشش یہ تھی کہ اردو ایک جدید علمی زباں بن جاۓ۔وہ چاہتے تھے کہ انجمن سے ایسی کتابیں شائع ہوں جس کا معیار یورپ کی اعلٰی مطبوعات کی سطح پر ہو۔اس لیے انجمن کا چارج لیتے ہی مولوی صاحب نے پہلا کام یہ کیا کہ انگریزی کی اہم کتابوں کا اردو ترجمہ کرنے کا پروگرام بنایا۔اس راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ اردو میں اصطلاحات کی کمی تھی۔اگرچہ یہ مشکل اس سے پہلے دہلی کالج کی درنا کیولر ٹراسلیشن سوسائٹی اور سر سید کی سائنٹفک سوسائٹی اور بعض دوسرے اداروں کو درپیش آئی تھی۔لیکن کسی نے اصطلاحات سازی کا کام نظم طور پر نہیں کیا تھا۔مولوی صاحب نے اصطلاحات علیہ کی ایک لغت مرتب کرنے کا بیڑہ اٹھایا اور اس سلسلے میں خاصا کام ہوا۔مختلف علوم پر کئی چھوٹی چھوٹی کتابیں شائع ہوئیں۔مولوی صاحب نے اصطلاحات سازی کے فن پر مولانا وحید الدین سلیم سے ایک کتاب لکھوا کر شائع کی۔اپنی نوعیت کا اردو میں یہ پہلیا اور آخری کام ہے۔اصطلاحات علیہ کی لغت تیار کرنے کا خیال اردو میں پہلی بار مولوی صاحب کو آیا تھا۔مولوی صاحب نے خود بھی اردو زبان میں علمی اصطلاحات کا مسئلہ کے عنوان سے ایک کتاب لکھی جو 1949ء میں شائع ہوئی پہلی بار 1914ء میں مولوی صاحب کو خیال آیا کہ انجمن کا صرف ایک دفتر ہی کافی نہیں ہے۔مختلف شہروں میں اس کی شاخیں بھی قائم کی جانی چاہیں۔ضلع پربھتی مہارشٹرا میں 1914ء میں انجمن کی پہلی برانچ قائم کی گئی۔پھر بھوپال،کانپور،جالندھر اور لکھنو میں شاخیں قائم ہوئیں۔1920ء میں ان شاخوں کی تعداد چالیس کے قریب پہنچ گئی خدا کا شکر ہے کہ مولوی صاحب کا لگایا ہوا یہ پودا اب تناور درخت اختیار کر چکا تھا۔اس وقت ہندوستان،پاکستان۔بنگلہ دیچ،انگلینڈ اور کینیڈا میں انجمن کی شاخیں قائم ہیں۔صرف ہندوستان میں ہی ہر صوبے اور تقریباۤ ہر شہر میں انجمن کی شاخیں موجود ہیں اور ان شاخوں کی تعداد چھ سو بیس ہے۔مولوی صاحب نے انجمن میں اردو ادب کی ترقی کے لیے کام شروع کیا تھا لیکن بہت جلد انھیں اردو زبان کے لیے بھی کام کرنا پڑا۔کیونکہ ہندوستان کے بعض حلقوں سے اردو کی مخالفت زور پکڑ رہی تھی۔مولوی صاحب اردو کے پہلے شخص ہیں جنھوں نے منظم طور پر اردو تحریک کا آغاز کر کے باقاعدگی کے ساتھ اردو مخالف طاقتوں کا مقابلہ کیا۔مولوی صاحب کو اس سلسلے میں اولیت حاصل ہے کہ انھوں نے اردو زبان کی ترقی اور فروغ کے لیے ہندوستان کے شہر شہر اور قصبے قصبے کا دورہ کیا۔
بابائے اردو مولوی عبدالحق کے انتقال16اگست 1961 پر اخبارات میں ان کی عمر کے سلسلے میں کافی تضاد تھا اس ضمن میں افضل صدیقی صاحب نے اپنے مضمون ’’بزم سر سید کی آخری شمع‘‘ میں تحریر کیا: ’’مولوی صاحب کی عمر گذشتہ کئی دنوں سے 93یا94سال لکھی جا رہی ہے۔اصل میں بابائے اردو 20اپریل 1870ء کو پیدا ہوئے اس حساب سے ان کی عمر91برس اور4مہینے ہوتی ہے یہ بھی غلط ہے کہ وہ ہاپوڑ میں پیدا ہوئے ہاپوڑ کے قریب ایک مقام ہے ’’سسراواں‘‘ مولوی عبدالحق صاحب اس قصبے میں پیدا ہوئے۔‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹر ممتاز حسن صاحب نے بھی مشفق خواجہ صاحب کے نوٹس کے حوالے سے جو انہوں نے مولوی عبدالحق صاحب کی زندگی میں لئے تھے اور اس پر ان کی زندگی میں منظوری بھی لے لی تھی، مولوی عبدالحق صاحب کی پیدائش20اپریل 1870ء اور جائے ولادت ’’سسراواں‘‘ نامی گاؤں بتایا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹر سید معین الرحمن صاحب 14نے بابائے اردو مولوی عبدالحق صاحب کا سنہ ولادت اور زندگی کے ابتدائی حالات کے ضمن میں سب سے معتبر شہادت ان کے برادر خورد شیخ احمد حسن کی ’’معلومات آفریں تحریر‘‘ 15کو قرار دیا ہے جس میں وہ (شیخ احمد حسن) تحریر کرتے ہیں: ’’میرے دونوں بھائیوں کی پیدائش ہاپوڑ کی ہے اور جیسا اکثر لکھا گیا ہے کہ بھائی عبدالحق مرحوم سرواہ جو ہاپوڑ سے ملحق واقع ہے میں پیدا ہوئے، صحیح نہیں یہ بات ہمارے خاندانی رسم و رواج کے خلاف تھی کہ زچگی کا انتظام میکے میں ہو اس غلط فہمی کی وجہ شاید یہ ہو کہ والدہ مرحومہ اپنے ماں باپ کی واحد لڑکی اور اپنے بھائیوں کی ایک ہی بہن تھیں ہمارے نانا اور ماموں ان کو بہت عزیز رکھتے تھے اور ان کا قیام سراوہ میں رہتا تھا لیکن جہاں تک بھائی صاحب کی پیدائش کا تعلق ہے ان کا مولد ہاپوڑ ہی ہے۔‘‘ ڈاکٹر سید معین الرحمن نے اس دلیل کا مزید ثبوت بابائے اردو مولوی عبدالحق کے 6مئی 1947ء کے اس اسلحہ کے فارم کی خانہ پری سے بھی دیا جس میں مولوی عبدالحق صاحب نے اپنے قلم سے اپنی تاریخ ولادت اور وطن (ھوم ایڈریس) کی صراحت کی ہے جس کے مطابق مولوی عبدالحق صاحب کی تاریخ پیدائش20اگست 1870ء ہے اور مولد ھاپوڑ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بابائے اردو مولوی عبدالحق صاحب کے بھائی احمد حسن نے اپنے مضمون ’’ابدی بھائی‘‘ میں تحریر کیا کہ ان کی میٹرک تک تعلیم پنجاب میں ہوئی۔ مولوی عبدالحق صاحب کی ابتدائی تعلیم کے ضمن میں مختلف محققین بھی اس بات پر تو متفق ہیں کہ ان کی کم از کم مڈل تک تعلیم پنجاب میں ہوئی لیکن یہ بات حتی طور پر نہیں کہہ سکے کہ پنجاب کی وہ کون سی بستی اور درسگاہ تھی جس سے بابائے اردو مولوی عبدالحق صاحب نے علم کا فیض حاصل کیا یا ان کے وہ کون سے ابتدائی معلمین تھے جن سے ان کے نیاز مندانہ مراسم تھے لیکن گوجرانوالہ کے ایک قانون گو شیخ خاندان کے چشم و چراغ خالد محمود ربانی مرحوم (صحافی) کی جستجو سے اس راز سے پردہ اٹھ گیا ہے اور یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچ گئی ہے کہ بابائے اردو مولوی عبدالحق کی مڈل تک تعلیم گوجرانوالہ مشن ہائی سکول میں ہوئی جہاں خالد محمود ربانی مرحوم کے دادا ان کے معلم تھے اور مولوی عبدالحق صاحب کے ان سے نیاز مندانہ مراسم تھے اس سلسلے میں خالد محمود ربانی صاحب کے پاس مولوی عبدالحق صاحب کی وہ نایاب تحریر ہے جو انہوں نے خالد محمود ربانی صاحب کے والد محترم شیخ اکرم ربانی صاحب سپرنٹنڈنٹ اسلامیہ کالج گوجرانوالہ کو ان کے اس خط کے جواب میں تحریر کی تھی جو انہوں نے مولوی صاحب کو گوجرانوالہ آنے کی دعوت کے لئے لکھا تھا۔ بابائے اردو مولوی عبدالحق صاحب کے مرقومہ 17فروری 1953ء کے مکتوب سے ان کی ابتدائی تعلیم سے پردے اٹھ جاتے ہیں اور یہ بحث ختم ہو جاتی ہے کہ مڈل تک انہوں نے پنجاب میں کس جگہ تعلیم حاصل کی تھی مولوی عبدالحق صاحب تحریر کرتے ہیں: ’’آپ کے والد شیخ کرم داد صاحب گوجرانوالہ کے مشن ہائی سکول میں معلم تھے اور میں طالب علم تھا وہ میرے حال پر بڑے مہربان تھے اور بہت شفقت فرماتے تھے کچھ دنوں بعد میں علی گڑھ چلا آیا اور ایم اے او کالج میں داخل ہو گیا اس کے چند سال بعد جب علی گڑھ کالج میں مسلم ایجوکیشن کانفرنس کا اجلاس ہوا تو آپ کے والد بھی اس میں شرکت کے لئے تشریف لائے تھے اس موقع پر ان سے ملاقات ہوئی وہ مجھ سے مل کر بہت خوش ہوئے تعلیم سے فراغت کے بعد میں حیدر آباد دکن چلا گیا۔ بہت عرصے کے بعد جب میں صوبہ اورنگ آباد کا صدر مہتمم تعلیمات تھا آپ کے والد کا خط آیا(انہوں نے شاید اخباروں میں نام پڑھا تھا) اور مجھ سے دریافت کیا کہ تم وہی عبدالحق ہو جو کچھ دن گوجرانوالہ میں تھا جب انہیں معلوم ہوا کہ میں وہی ہوں تو بہت خوش ہوئے ۔۔۔۔۔ معلوم نہیں ہے وہ مشن ہائی سکول اب ہے یا نہیں اس وقت گوجرانوالہ کوئی بڑا شہر نہیں تھا اب سنا ہے کہ بہت بڑا ہو گیا ہے، اور تجارت و صنعت کا مرکز ہے اس زمانے میں منشی محبوب عالم گوجرانوالہ ہی میں تھے اور انہوں نے اپنا ہفت روزہ ’’پیسہ اخبار‘‘ وہیں سے نکالا تھا۔‘‘ اس وقت مشن ہائی سکول کے کھنڈرات کے سوا اس کے کچھ آثار نہیں ہیں خالد محمود ربانی صاحب نے بابائے اردو مولوی عبدالحق صاحب کے گوجرانوالہ مشن ہائی سکول میں داخل اور خارج ہونے کے ضمن میں مزید شہادتوں کے لئے گوجرانوالہ میونسپلٹی (جس کیزیر انتظام یہ ہائی سکول تھا) کا ریکارڈ نکالنے کی کوشش کی لیکن ریکارڈ کرم خوردہ اور ضائع ہو جانے کی وجہ سے ان کی کوشش بر آور نہ ہو سکی۔ بابائے اردو مولوی عبدالحق صاحب کے اس مکتوب سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ وہ مشن ہائی سکول گوجرانوالہ سے ہی علی گڑھ گئے لیکن انہوں نے میٹرک تک تعلیم یہاں حاصل نہیں کی کیوں کہ بابائے اردو مولوی عبدالحق صاحب تحریر کرتے ہیں: ’’تہذیب الاخلاق کا مطالعہ مجھے کھینچ کر علی گڑھ لے گیا اور میں کالج کے سکول میں داخل ہو گیا پہلے کانوں پر تکیہ تھا اب آنکھوں نے جلوہ دکھایا۔‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
15اگست 1961ء کو ان کی طبیعت ا چانک بگڑ گئی اور16اگست 1961ء کو صبح آٹھ بج کر پینتالیس منٹ پر وہ اپنے مالک حقیقی سے جا ملے۔ انا للہ وانا علیہ راجعون
کمشنر کراچی جے اے مدنی خود ہسپتال گئے تدفین کا انتظام کیا گیا ان کے خدمت گار اعظم سواتی نے غسل دیا۔ میونسپل کارپوریشن گراؤنڈ میں مولانا احتشام الحق تھانوی نے نما جنازہ پڑھائی اور14ربیع الاول 1338ء بمطابق16اگست 1961ء چھ بجے شام ان کی خواہش کے مطابق انجمن ترقی اردو کے صحن اور اس عمارت کے عقب میں سپرد خاک کر دیا گیا۔