Daily Roshni News

بابا تاج الدین اولیا ءؒ۔۔۔قسط نمبر(2)

بابا تاج الدین اولیا ءؒ

قسط نمبر(2)

بشکریہ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ اگست 2019

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل۔۔۔ بابا تاج الدین اولیا ءؒ)گواہی دی۔ تاج الدین سے پوچھا گیا کہ تم ڈیوٹی چھوڑ کر عبادت کر رہے تھے یا بیک وقت ڈیوٹی بھی ادا کر رہے تھے اور عبادت بھی۔ اگر آخری بات سچ ہے تو صاف صاف بتاؤ تم ایک وقت میں دو کام کس طرح انجام دیتے ہو ؟

 یہ سننا تھا کہ تاج الدین کو جلال آگیا۔ انہوں نے پیٹی بندوق، وردی سمیت تمام سرکاری سامان لا کر افسر کی میز پر رکھ دیا اور فرمایا:

 لوجی حضت! اب ہم دو دو نوکریاں نہیں کرتے جی حضت ” یہ کہہ کر تاج الدین فورا کمرے سے نکل گئے۔ ناگ پور اور جبل پور شہروں کو ملانے والی شاہراہ کامٹی اور رام ٹیک سے ہو کر گزرتی ہے۔ یہاں سے بہت بڑا پہاڑی سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ اس کے گھنے جنگلوں میں قدم قدم پر شیر، خوں خوار کئی درندے گھومتے ہیں۔ دنیا کے زہر یلے ترین سانپ بھی یہاں پائے جاتے ہیں۔

 ملازمت سے سبکدوشی کے بعد بابا تاج الدین نے زیادہ تر وقت ناگپور سے متصل واکی کے گھنے جنگلوں میں گزارا، وہاں تاج الدین بابا نے کئی برس تک بلا خوف و خطر ریاضت کی۔ کبھی کبھار ریاضت کے بعد آپ ستپڑا پہاڑ کی بلندیوں اور گھنے جنگلوں سے اتر کر بستیوں میں آجاتے۔ جذب و کیف کا یہ عالم تھا کہ انہیں کھانے پینے اور پہننے اوڑھنے کا احساس بھی نہ رہتا۔

ادھر تاج الدین کے استعفیٰ کی خبر ان کے گھر پہنچی تو نانی نے پھر ایک مرتبہ ساگر آکر دیکھا تو تاج الدین گلی کوچوں کی خاک چھانتے نظر آئے۔نانی کو لگا کہ وہ پاگل ہو گئے ہیں۔ وہ انہیں اپنے ساتھ کامٹی لے آئیں۔ کامٹی میں ڈاکٹروں، حکیموں کو دکھایا گیا لیکن کوئی بھی آپ کی حالت سمجھ نہ سکا۔ جب بستی میں آپ کا دل نہیں لگتا تو جب بھی موقع ملتا تو آپ جنگلات میں نکل جاتے اور پھر کبھی کبھی واپس کا مٹی پہنچ جاتے۔

 چار سال شدید جذب و استغراق کی کیفیت میں رہے، عام لوگوں نے انہیں پاگل سمجھ لیا، بستی کے آوارہ لڑکے انہیں چھیڑتے اور تنگ کرتے کوئی آوازیں کستا تو کوئی پتھر مارتا۔

کامٹی میں آپ سے کئی کرامات بھی رونما ہوئیں، کچھ عرصے میں آپ کی کرامات کا چہ چاہو اتو لوگ دور دور سے آپ کے پاس اپنا درد لے کر آنے لگے۔ بابا تاج الدین کی دعاؤں سے لوگوں کے کام ہونے لگے تو سائلین اور عقیدت مندوں کا ہجوم رہنے لگا۔ ایسے میں کچھ لوگوں نے ناجائز فائدہ اُٹھانے کی سوچی تو بابا صاحب نے اعلان کر دیا کہ ” اب ہم پاگل جھونپڑی جائیں “۔ حالات کچھ ایسے بنے کہ 26 اگست، 1892 کو کا مٹھی کے کینٹونمنٹ اور ضلع مجسٹریٹ نے انہیں پاگل خانے بھیج دیا۔

 پاگل خانہ کا سپر نٹنڈنٹ ڈاکٹر ماروتی راؤ تھا۔ اس کی پانچ لڑکیاں تھیں، لڑکا کوئی نہیں تھا، اولاد نرینہ کی اسے بہت تمنا تھی۔ ڈاکٹر کی بیوی نے ایک دن اپنے خاوند سے کہا کہ مجھے بابا صاحب کے پاس لے چلو۔ اس کا خاوند چونکہ مذہبا مرہٹہ برہمن تھا، اس لیے پہلے تو کچھ ہچکچایا مگر ایک دن اُس کی بیوی اپنی پانچوں لڑکیوں کے ساتھ بابا صاحب کی خدمت میں پہنچ گئی اور عرض کیا کہ:

بابا صاحب “میرے کوئی لڑکا نہیں ہے ۔ میرے لیے دعا کریں۔ بابا صاحب نے اس کی طرف دیکھا اور فرمایا کہ ڈاکٹروں کی دوائیاں تو بہت کھاتے جی ، پن لڑکا نہیں ہو تا۔ “

یہ سُن کر وہ بیچاری رونے لگی اور پھر عرض کیا کہ بابا صاحب ….! لوگوں کی مرادیں پوری ہو رہی ہیں، میرے لیے بھی مہربانی فرمائی جائے۔ آپ نے یہ سُن کر پوچھا: لڑکیاں کتنی جی…؟”

کےتو اس نے جواب دیا کہ لڑکیاں تو پانچ ہیں …. بابا صاحب نے فرمایا۔ ” اگر لڑکیاں پانچ ہیں تو لڑ کے بھی پانچ ہو جاتے جی … ! ، یہ خوشخبری سن کر ڈاکٹر کی بیوی واپس گھر آگئی۔ خدا کی شان کہ ایک سال بعد اس کے ہاں لڑکا پیدا ہوا۔

 ڈاکٹر ماروتی راؤ کی بیوی نے لڑکے کو حضور بابا صاحب کے قدموں میں رکھ دیا۔ بابا صاحب نے ایک نظر دیکھا اور تبسم کے ساتھ فرمایا کہ “ابھی تو آئے اور وہاں ان سے کئی کرامات کا ظہور ہوا۔ اسی دوران ناگپور کے مرہٹہ راجہ مہاراجہ گھوراؤ جی بھونسلے پٹیل کے بیٹے و نائیک راؤ کی بیوی زچگی کے مرحلے میں نازک صورتحال سے دوچار تھیں ۔ بڑے بڑے ڈاکٹر ، وید، حکیم موجود تھے۔ مگر کسی قسم کا کوئی افاقہ نہیں ہو رہا تھا۔ ڈاکٹروں کا خیال تھا کہ حاملہ کے رحم میں بچہ مر چکا تھا۔ اب زچہ کی جان بچانے چار اور آتے جی! لے جانا، یہ خوش رہے گا۔“ پاگل خانے میں بند ہونے کے بعد بھی اکثر بابا تاج الدین شہر کی سڑکوں اور گلیوں میں گھومتے نظرلیے آپریشن کی ضرورت ہو گی۔ جسم میں زہر پھیل گیا تو پھر اس کے زندہ رہنے کی کوئی امید نہیں۔ مہاراجہ ڈاکٹروں کو آپریشن کی اجازت نہیں دے رہا تھا ، ادھر بہو کی طبیعت بگڑتی جارہی تھی۔ اسی دوران مہاراجہ کے ایک ڈرائیور نے جو بابا صاحب کا بے حد معتقد تھا۔ مہاراجہ سے کہا کہ : میں ایک مسلمان ولی کو جانتا ہوں۔ آپ ان کے پاس چلیے اور دعا کی درخواست کیجئے ۔ شاید کوئی سبب بن جائے۔“ مہاراجہ نے ڈرائیور کی بات سنتے ہی کہا کہ : ہاں چلو جلد سے جلد ہمیں ان کے پاس لے چلو“۔ اور اسی طرح ننگے پیر گاڑی میں بیٹھ گیا، راجہ صاحب کی موٹر پاگل خانے کے صدر دروازے پر جا کر ز کی تو لوگ راجا صاحب کے استقبال کو دوڑے لیکن وہ سب کو نظر انداز کرتے ہوئے تیزی سے اندر داخل ہو گئے۔ اندر پہنچتے ہی انہوں نے بابا صاحب کے قدموں میں خود کو گرا لیا۔ ان کا چہرہ آنسوؤں سے بھیگا ہوا تھا اور صدمے کی وجہ سے ان کی زبان گنگ تھی۔

 بابا نے سر اُٹھا کر انہیں دیکھا اور بولے: ادھر کیا کرتے جی حضنت ! ادھر جانا، لڑکا پیدا ہوا ہے تو خوشیاں منانا ….!” ڈرائیور نے یہ سنتے ہی کہا کہ مہاراجہ جلد واپس چلیے۔ کام ہو گیا ہے۔ مہاراجہ جب محل میں پہنچا تو خادموں نے دروازے پر ہی مہاراجہ کو مبارک باد دی اور خوشخبری سنائی کہ آپ کی بہو کو بیٹا ہوا ہے اورزچہ و بچہ دونوں خیریت سے ہیں۔ اس واقعے کے بعد مہاراجہ کا اعتقاد بابا صاحب پر۔۔۔جاری ہے۔

بشکریہ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ اگست 2019

Loading