بارش اور آنسو
فارسی کہانی ، باران و اشک کا ترجمہ
تحریر۔۔۔ب۔ مقدم
ترجمہ ۔۔۔نیر مسعود
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔۔ بارش اور آنسو فارسی کہانی ، باران و اشک کا ترجمہ ۔۔۔تحریر ۔۔۔ ب ۔ مقدم۔۔۔ ترجمہ ۔۔۔نیر مسعود)سرما کی شام تھی۔بندرگاہ پہلوی کے کہر آلود اور اداس ساحل پر میں اور محمود چہل قدمی کر رہے تھے۔ موجوں کا شور اور پرندوں کی آواز میں چاروں طرف گونج رہی تھیں۔ وہ دور سمندر کی سطح سے ملے فضا میں پر مارتے چلے جاتے تھے۔ مزید آگے بڑھے، تو سمندر تاریک ہو گیا۔ کالے بادل اس پر یوں جھک آئے کہ خیال ہو تا وہاں آسمان اور سمندر مل کر ایک ہو گئے ہیں۔ ایک بہت بڑی موج سفید چادر کے مانند ہمارے پیروں کے آگے بچھ گئی۔ کچھ دیر زمین پر کریں تحریر : ب سفید سفید جھاگ نکا رہا، پھر وہیں جذب ہو گیا۔ ہمارے پیروں تلے ریت دب کر سخت ہو گئی اور اس میں سمندر کا پانی اکٹھا ہونے لگا۔ ہمارے پیر ریت میں دھنسا کر اس میں سے تھوڑا تھوڑا پانی کھینچ لیتے۔ ہم پلٹے، مڑ کر دیکھا، تو موجوں نے ہمارے قدموں سے پڑنے والے نشانوں کو بھر دیا تھا۔ گویا ہم وہاں تھے ہی نہیں، کبھی کسی نے وہاں قدم ہی نہیں رکھا تھا۔ اسی دم محمود اپنی داستان سنانے لگا: عجیب دنیا ہے۔ چند سال پہلے تک میں اس شہر میں توپ خانے کا افسر تھا۔ جنگ چھڑی، تو سب کچھ الٹ پلٹ ہوا۔ میں روسی فوج کے ہاتھوں گرفتار ہو کر اسی شہر میں سلاخوں کے پیچھے پہنچ گیا۔ روسیوں نے تو پوں پر قبضہ کیا اور افسروں کو جیل میں ڈال دیا۔ سپاہی بھی ادھر ادھر ہوئے، بس گھوڑے باقی رہ گئے۔ میرا گھوڑا ابلق (وہ گھوڑا جس کی جلد پر بڑے
سیاه و سفید یا سرخ و سفید دھبےہوں، چتلا یا چتکبرا گھوڑا) تھا، بڑا خوش رنگ، جوان اورچلبلا، خوب گردن اکڑا کر چلتا۔ اس کی آنکھوں کی رنگت بھی انوکھی تھی، نیلی نیلی سی معلوم ہوتی۔ فوجی بیرکوں میں اس کا نام کاسی“ پڑ گیا تھا۔
یہ قصہ سناتے ہوئے محمود نے مزید بتایا “کاسی میری سواری کا گھوڑا تھا۔ جوانی کے دن تھے۔ اس پر سوار ہو تا تو مزہ آجاتا۔ افسر کا گھوڑا تھا، اسی لیے اس کی خیال داری بھی دوسرے گھوڑوں سے زیادہ ہوتی اور وہ ہمیشہ چاق چوبند رہتا۔ میں جیسے ہی
اس پر سوار ہوتا، وہ گردن اکڑا کر اگلی ٹاپوں پر ڈ کی چلنے لگتا۔ راستے کی پتھریلی
زمین پر اس کے نعل پڑنے کی آواز سے فضا گونجنے لگتی۔ لوگ کاسی کی مستانہ چال دیکھنے چلتے چلتے رک جاتے۔ میں اس پر سینہ تانے بیٹا گردن بھی اکٹر الیتا اور ترنگ میں آکر جھومنے لگتا۔ میں اور کاشی شہر
بھر میں مشہور تھے۔ کاسی مجھ سے اتنا مانوس تھا کہ اگر میں دور سے اُسے پکارتا، تو وہ فوراً گردن گھماتا اور جواب میں ہنہنا کر مجھے دیکھنے لگتا۔ جب میں جیل میں قید ہوا، تو سب سے زیادہ فکر مجھے کاسی ہی کی تھی کہ معلوم نہیں اس کے دانے پانی اور گھاس کی خبر گیری ہو رہی ہے یا نہیں۔
اور بھی ہزاروں فکریں تھیں۔ مثلاً یہ کہ خود میرا کیا بنے گا؟ ہمیں یہیں قید رکھا جائے گا یا سائبیریا یا کسی اور علاقے میں بھجوانا ہے؟ جنگی قیدیوں کے بارے میں طرح طرح کی افواہیں سننے میں آرہی تھیں، مختصر یہ کہ جتنے منہ اتنی باتیں ۔ مجھے کہا گیا کہ
میں نے تو لڑائی میں تو ہیں استعمال کی تھیں اور اپنا سارا گولا بارود دشمنوں پر جھونک دیا، اس لیے میرا انجام بہت برا ہونا ہے۔ لیکن کسی کو ٹھیک ٹھیک کچھ نہیں پتا تھا۔ کوئی نہیں جانتا تھا کہ ہمارا معاملہ کس کروٹ بیٹھے گا۔ جیل میں ہمارے پاس کرنے کو کچھ نہ تھا۔ میں ایک کونے میں جا بیٹھتا اور سوچتا رہتا۔ دل چاہتا تھا آزاد ہو جاؤں اور جا کر کاسی کو دیکھوں، اس کی گردن تھپتھپاؤں، اس کی تھوتھنی پر ہتھیلی رکھ کر سانس کی گرمی محسوس کروں ۔ یہ سارے مخیالات دن ہی دن میں رہتے ، مگر راتیں!
راتیں وحشت ناک ہو تیں ۔ قیدیوں کے سونے کی اپنی ادائیں تھیں ۔ کچھ زور زور سے خراٹے لیتے۔ بعض پوری آواز سے بولے جاتے، حکم دیتے اور کبھی رونا شروع کر دیتے۔ ان کی فریادیں اور بولیاں سن کر طبیعت میں عجیب مایوسی اور افسردگی پیدا ہو جاتی۔ وہاں قیدی کیا کیا ارمان لے کر سونے لیٹتے اور خوابوں کی دنیا میں پہنچ کر کابوسوں
سے دو چار ہو جاتے۔ چلاتے، گالیاں بکتے اور کھاگیاتے۔ کبھی کسی بات کا اعتراف کرتے، کبھی کسی تمنا کا اظہار اور بھی بہکنے لگتے۔
میرے خوابوں کی دنیا کے زیادہ حصے پر کاسی کا عمل تھا۔ مجھے اس کی نیلگوں آنکھیں نظر آتیں کہ اندھیرے میں چہکتی ہوئی میری طرف ٹکٹکی باندھے ہیں۔ ان نگاہوں میں التجا ہوتی اور ملامت بھی۔ ایک دن جیل میں خبر پھیل گئی کہ کل تو ہیں اور گھوڑے روسی جہازوں میں لے جارہے ہیں۔ میرا دل ڈوبنے لگا۔ کاسی کا کیا ہوا؟ اسے بھی لیے جارہے ہیں ؟ اگر یہی ہوا، تو میں اکیلا رہ جاؤں گا۔ یہ اس بھی ٹوٹ جائے گی کہ کاسی کو پھر دیکھ سکوں گا۔ وہ میرا دوست تھا۔ ہم دونوں ہی جنگ کی لپیٹ میں آئے تھے۔ اب وہ اسے لیے جارہے تھے۔ اگر یہ خبر صحیح ہے، تو کاش میں بھی اس کے ساتھ چلا جاتا۔ میں نے ساتھی قیدیوں کے سامنے تو پوں اور گھوڑوں کا ذکر چھیڑا اور کاسی کے بارے میں ان کا خیال دریافت کیا۔ سب قیاس آرائیاں کرنے لگے۔ آخر ایک قیدی نے کہا کہ کاسی سواری کا گھوڑا ہے ، توپ گاڑی کھینچنے کے کام کا نہیں۔ پھر لڑائی کا زمانہ ہے، رسد کی یوں بھی کمی ہے۔اس لیے یقینی ہے کہ کاسی کو کھالیا جائے گا۔ گویا کاسی کو ذیج کر اس کا گوشت فوجیوں کو کھلا دیا جائے گا۔۔ پھر وہ فوجی بھی محاذوں پر مارے جائیں گے ، بے چارے!
“اسیر ہونا اور جیل میں پڑنا بری چیز ہے۔ قید میں آدمی کا مزاج عجیب سا ہو جاتا ہے۔ خود پر اس کا بس نہیں ہو تا اور وہ فاضل شے بن کر رہ جاتا ہے۔ ہر دن، ہر ساعت اس کے دماغ میں ہزار ہا خیالوں۔۔۔جاری ہے۔
بشکریہ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ جولائی 2015