#علامہ_اقبال
بالِ جبریل سے انتخاب
غزلیات حصہ اول
پندرہویں غزل
اک دانشِ نُورانی، اک دانشِ بُرہانی
ہے دانشِ بُرہانی، حیرت کی فراوانی
اس پیکرِ خاکی میں اک شے ہے، سو وہ تیری
میرے لیے مشکل ہے اُس شے کی نگہبانی
اب کیا جو فغاں میری پہنچی ہے ستاروں تک
تُو نے ہی سِکھائی تھی مجھ کو یہ غزل خوانی
ہو نقش اگر باطل، تکرار سے کیا حاصل
کیا تجھ کو خوش آتی ہے آدم کی یہ ارزانی؟
مجھ کو تو سِکھا دی ہے افرنگ نے زِندیقی
اس دَور کے مُلّا ہیں کیوں ننگِ مسلمانی
تقدیر شکن قُوّت باقی ہے ابھی اس میں
ناداں جسے کہتے ہیں تقدیر کا زِندانی
تیرے بھی صنم خانے، میرے بھی صنم خانے
دونوں کے صنم خاکی، دونوں کے صنم فانی
———-
یہی آدم ہے سُلطاں بحر و بَر کا
کہوں کیا ماجرا اس بے بصر کا
نہ خود بیں، نَے خدا بیں نے جہاں بیں
یہی شہکار ہے تیرے ہُنر کا
چھٹا شعر : جو لوگ اسلامی تعلیمات کی روح سے آگاہ نہیں ہیں وہ یہ سمجھتے ہیں کہ انسان میں اپنی تقدیر بدلنے کی طاقت نہیں ہے حالانکہ اگر کوئی شخص اسلامی تعلیمات پر عمل کرے تو اس کے اندر یہ طاقت پیدا ہو سکتی ہے کہ وہ اپنی تقدیر کو بدل سکتا ہے.
اقبال نے اپنی تصانیف میں تقدیر (جبر و اختیار) کے مسئلہ پر مختلف پہلوؤں سے بحث کی ہے اور بڑے عجیب نکات پیدا کیے ہیں (خصوصاً جاوید نامہ تو اس قسم کے مباحث سے بھرا پڑا ہے) لیکن بخوف طوالت میں ان تمام مباحث کو اس جگہ بیان نہیں کر سکتا صرف ایک بات لکھنے پر اکتفا کروں گا.
ہر شخص جو اس کو پڑھے گا اس کے دل میں یہ سوال قدرتی طور پر پیدا ہو گا (اور وہ سوال نہایت معقول ہے) کہ آخر انسان اپنی تقدیر کو کیسے بدل سکتا ہے؟ اقبال نے اسرارِ خودی میں اس سوال کا جواب دیا ہے.
در اطاعت کوش اے غفلت شعار
می شود از جبر پیدا اختیار
یعنی اے غافل مسلمان! اللہ کے احکام کی نہایت تندہی کے ساتھ اطاعت کر. اس کامل اطاعت کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ اگرچہ تو بلحاظ اصل خویش مجبور ہے لیکن تیرے اندر اختیار کا رنگ پیدا ہو جائے گا. یہاں اطاعت سے مراد اقبال کی مراد ایسی اطاعت ہے کہ مسلمان مجسمِ تسلیم و رضا بن جائے یعنی اپنی مرضی کو اللہ کی مرضی میں فنا کر دے.
چوں فنا اندر رضائے حق شود
بندہِ مومن قضائے حق شود
یعنی جب عاشق (انسان مومن نہیں ہو سکتا جب تک پہلے عاشق نہ ہو) اپنی مرضی کو یعنی اپنے آپ کو رضائے حق میں فنا کر دیتا ہے تو اللہ (معشوقِ حقیقی) اُس کی اطاعت سے اس درجہ خوش ہوتا ہے کہ اُسے اپنے مقربینِ بارگاہ میں داخل کر لیتا ہے اسی “قُربِ سلطانی” کو اقبال نے “قضائے حق” سے تعبیر کیا ہے یعنی بندہِ مومن خود “ارادہ الٰہی” بن جاتا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ مومن جو زبان سے کہہ دیتا ہے وہی ہو جاتا ہے.
اس کی مثالیں تو بہت ہیں. تاریخِ فرشتہ سے صرف ایک مثال اس جگہ درج کیے دیتا ہوں.
سلطان فیروز بہمنی ایک روز سلطان دکن حضرت بندہ نواز سید محمد گیسو دراز کی خدمت میں حاضر ہوا (جن کو سلطان دہلی شیخ نصیرالدین چراغ دہلوی نے اپنا نائب السطنت بنا کر گلبرگہ بھیجا تھا) اور عرض کی دعا فرمائیے کہ میرے بعد میرا بیٹا تخت نشین ہو. حضرت نے فرمایا کہ میں تیری درخواست قبول نہیں کر سکتا کیوں کہ فیصلہ تو یہ ہو چکا ہے کہ تیرے بعد تیرا چھوٹا بھائی احمد خان تخت نشین ہو گا. سلطان فیروز چونکہ بہت صاحبِ سطوت و شوکت تھا اس لیے عالمِ نخوت میں اُس کی زبان سے یہ فقرہ سر زد ہوا کہ “اگر میں ابھی جا کر احمد کو قتل کر دوں تو؟”
حضرت نے ارشاد فرمایا “تو ایسا ہرگز نہیں کر سکتا. نہ مانے تو کوشش کر کے دیکھ لے” چنانچہ سلطان فیروز اپنے ارادہ کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے حضرت کی خدمت سے اٹھ کر سیدھا محل پہنچا لیکن اس کا بھائی اُس کے پہنچنے سے پہلے ہی خانقاہ عالیہ کی طرف روانہ ہو چکا تھا. اِدھر سلطان فیروز محل پہنچا تو اُدھر اُس کا بھائی حضرت کی خدمت میں حاضر ہوا. حضرت نے اپنا عمامہ مبارک اپنے ہاتھ سے اس کے سر پر باندھا اور بادشاہی کی بشارت دی چنانچہ بحکمِ خدا ایسا ہی ظہور میں آیا کہ سلطان فیروز کی وفات کے بعد اُس کا بھائی احمد خان 1422ء میں سلطان احمد شاہ کے لقب سے تخت نشین ہوا.
ساتواں شعر : اس شعر میں علامہ اقبال نے اس حقیقت کو واضح کیا ہے کہ عام مسلمانوں کی طرح ان کے مذہبی رہنما بھی زن، زر اور زمین کی محبت میں گرفتار ہیں. حالانکہ عوام اور خواص دونوں کو اچھی طرح معلوم ہے کہ دنیا اور اس کی دل فریبیاں سب فانی ہیں.
لفظ “تیرے” سے واعظین اور “میرے” سے عوام مراد ہیں.
شرح : پروفیسر یوسف سلیم چشتی مرحوم
پیشکش : قیصر ندیم