علامہ اقبال
بالِ جبریل سے انتخاب
غزلیات حصہ اول
اپنی جولاںگاہ زیرِ آسماں سمجھا تھا میں
آب و گِل کے کھیل کو اپنا جہاں سمجھا تھا میں
بے حجابی سے تری ٹُوٹا نگاہوں کا طلسم
اک رِدائے نیلگوں کو آسماں سمجھا تھا میں
کارواں تھک کر فضا کے پیچ و خم میں رہ گیا
مہر و ماہ و مشتری کو ہم عناں سمجھا تھا میں
عشق کی اِک جَست نے طے کر دیا قصّہ تمام
اس زمین و آسماں کو بےکراں سمجھا تھا میں
کہہ گئیں رازِ محبّت پردہ دارِیہاے شوق
تھی فغاں وہ بھی جسے ضبطِ فغاں سمجھا تھا میں
تھی کسی درماندہ رہرو کی صداے دردناک
جس کو آوازِ رحیلِ کارواں سمجھا تھا میں
——–
خدائی اہتمامِ خشک و تر ہے
خداوندا! خدائی دردِ سر ہے
و لیکن بندگی، استغفراللہ!
یہ دردِ سر نہیں، دردِ جگر ہے
اس غزل میں بنیادی تصور یہ ہے کہ عشق انسان کو زمان و مکان کی قیود و حدود سے آزاد کر دیتا ہے اور یہ وہ نکتہ ہے جو اقبال کے نظامِ فکر میں اساسی حیثیت رکھتا ہے. یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اس کو اپنی تصانیف میں اور علی الخصوص فارسی تصانیف میں بار بار پیش کیا ہے. مثلاً مسافر میں لکھتے ہیں :
ہستی او بے جہات اندر جہات
او حریم و در طوافش کائنات
یعنی مومن (اقبال کی رائے میں مومن اور عاشق مترادف ہیں) اگرچہ بظاہر جہات ہی میں رہتا ہے لیکن درحقیقت اس کی ہستی بے جہات یعنی مکان کی قید سے بالاتر ہے اور اس کی ذات اس قدر مہتمم بالشان ہوتی ہے کہ ساری کائنات اس کا طواف کرتی ہے.
اس نکتہ کو سمجھنے میں ہم لوگوں کو جو دشواری لاحق ہوتی ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ تصوف ریاضی یا منطق نہیں ہے بلکہ سراسر عمل ہے اور یہاں “علم بعد از عمل می آید” والا معاملہ ہوتا ہے یعنی اگر کوئی یہ سوال کرے کہ عشق انسان کو زمان و مکان کی قید سے کیونکر آزاد کر دیتا ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ عشق اختیار کر کے یا عاشق بن کر دیکھ لو. یہ سمجھنے کی چیز نہیں بلکہ دیکھنے کی چیز ہے.
چنانچہ اقبال نے اس نکتہ کو مسافر میں بڑی وضاحت کے ساتھ بیان کیا ہے صرف ایک شعر لکھتا ہوں :
چیست دین؟ دریافتن اسرارِ خویش
زندگی مرگ است بے دیدارِ خویش
یعنی دین اسلام کی حقیقت یہ ہے کہ انسان اپنی اصلیت سے آگاہ ہو جائے. جس نے اپنے آپ کو نہیں دیکھا وہ زندہ نہیں بلکہ مردہ ہے.
الغرض تصوف شنید پر نہیں بلکہ دید پر موقوف ہے اس کی مثال ایسی ہے کہ کوئی شخص آپ سے یہ پوچھے کہ “ثمر بہشت” کی لذت کیسی ہے ؟ تو نہ آپ زبان سے اس آم کی لذت کا بیان کر سکتے ہیں اور نہ سائل آپ کے بیان سے اس کی لذت کا تصور کر سکتا ہے. بس اس کی ایک ہی صورت ہے کہ وہ خود اس آم کو کھائے پھر اسے کسی سے دریافت کرنے کی ضرورت نہیں رہے گی کہ “ثمر بہشت” کیسا ہوتا ہے.
شرح : پروفیسر یوسف سلیم چشتی مرحوم
پیشکش : قیصر ندیم