Daily Roshni News

بانگ درا حصہ اول۔۔۔ شمع

بانگ درا حصہ اول

                   شمع

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )بزمِ جہاں میں مَیں بھی ہُوں اے شمع! دردمند

فریاد در گرہ صفَتِ دانۂ سپند

دی عشق نے حرارتِ سوزِ درُوں تجھے

اور گُل فروشِ اشکِ شفَق گوں کِیا مجھے

ہو شمعِ بزمِ عیش کہ شمع مزار تُو

ہر حال اشکِ غم سے رہی ہمکنار تُو

یک بِیں تری نظر صفتِ عاشقانِ راز

میری نگاہ مایۂ آشوبِ امتیاز

کعبے میں، بُت کدے میں ہے یکساں تری ضیا

مَیں امتیازِ دیر و حرم میں پھنسا ہُوا

ہے شان آہ کی ترے دُودِ سیاہ میں

پوشیدہ کوئی دل ہے تری جلوہ گاہ میں؟

جلتی ہے تُو کہ برقِ تجلّی سے دُور ہے

بے درد تیرے سوز کو سمجھے کہ نُور ہے

تُو جل رہی ہے اور تجھے کچھ خبر نہیں

بِینا ہے اور سوز درُوں پر نظر نہیں

مَیں جوشِ اضطراب سے سیماب وار بھی

آگاہِ اضطرابِ دلِ بے قرار بھی

تھا یہ بھی کوئی ناز کسی بے نیاز کا

احساس دے دیا مجھے اپنے گداز کا

یہ آگہی مری مجھے رکھتی ہے بے قرار

خوابیدہ اس شرر میں ہیں آتش کدے ہزار

یہ امتیازِ رفعت و پستی اسی سے ہے

گُل میں مہک، شراب میں مستی اسی سے ہے

بُستان و بُلبل و گُل و بُو ہے یہ آگہی

اصلِ کشاکشِ من و تُو ہے یہ آگہی

صبحِ ازل جو حُسن ہُوا دِلستانِ عشق

آوازِ ’کُن‘ ہوئی تپش آموزِ جانِ عشق

یہ حکم تھا کہ گُلشنِ ’کُن‘ کی بہار دیکھ

ایک آنکھ لے کے خوابِ پریشاں ہزار دیکھ

مجھ سے خبر نہ پوچھ حجابِ وجود کی

شامِ فراق صبح تھی میری نمود کی

وہ دن گئے کہ قید سے مَیں آشنا نہ تھا

زیبِ درختِ طُور مرا آشیانہ تھا

قیدی ہوں اور قفَس کو چمن جانتا ہوں میں

غربت کے غم کدے کو وطن جانتا ہوں میں

یادِ وطن فسُردگیِ بے سبب بنی

شوقِ نظر کبھی، کبھی ذوقِ طلب بنی

اے شمع! انتہائے فریبِ خیال دیکھ

مسجودِ ساکنانِ فلک کا مآل دیکھ

مضموں فراق کا ہوں، ثریّا نشاں ہوں میں

آہنگِ طبعِ ناظمِ کون و مکاں ہوں میں

باندھا مجھے جو اُس نے تو چاہی مری نمود

تحریر کر دیا سرِ دیوانِ ہست و بود

گوہر کو مشتِ خاک میں رہنا پسند ہے

بندش اگرچہ سُست ہے، مضموں بلند ہے

چشمِ غلَط نِگر کا یہ سارا قصور ہے

عالم ظہورِ جلوۂ ذوقِ شعور ہے

یہ سلسلہ زمان و مکاں کا، کمند ہے

طوقِ گلُوئے حُسنِ تماشا پسند ہے

منزل کا اشتیاق ہے، گم کردہ راہ ہوں

اے شمع! مَیں اسیرِ فریبِ نگاہ ہوں

صیّاد آپ، حلقۂ دامِ ستم بھی آپ

بامِ حرم بھی، طائرِ بامِ حرم بھی آپ!

مَیں حُسن ہوں کہ عشقِ سراپا گداز ہوں

کھُلتا نہیں کہ ناز ہوں میں یا نیاز ہوں

ہاں، آشنائے لب ہو نہ رازِ کُہن کہیں

پھر چھِڑ نہ جائے قصّۂ دار و رَسن کہیں

بسم اللہ الرحمن الرحیم

تفہیم و تشریح

بند اول

بزمِ جہاں میں مَیں بھی ہُوں اے شمع! دردمند

فریاد در گرہ صفَتِ دانۂ سپند

دی عشق نے حرارتِ سوزِ درُوں تجھے

اور گُل فروشِ اشکِ شفَق گوں کِیا مجھے

ہو شمعِ بزمِ عیش کہ شمع مزار تُو

ہر حال اشکِ غم سے رہی ہمکنار تُو

فریاد درگرہ : ہر وقت فریاد کرنے پر آمادہ   : صفت دانہء اسیند ہرمل  کے دانے کی طرح گل فروش : پھول بیچنے والا ، اشک شفق گوں : شفق جیسے انسویعنی خون کے آنسو ، ہم کنار : ہم آغوش ، قریب

| علامہ اقبال شمع سے مخاطب ہو کر کہتے ہیں کہ اے شمع میں بھی تیری طرح در مند اور دکھیا ہوں اور ہر مل کے دانے کی طرح ہمہ وقت نالہ و فریاد اور آہ وزاری پر آمادہ رہتا ہوں ۔ ہر مل کے دانے کو اگ میں ڈالا جائے تو اُس سے چٹخنے کی آواز آتی ہے جسے شاعر نے ہر مل کی فریاد سے تعبیر کیا ہے ۔ گو یا شاعر کہتا ہے کہ جس طرح ہر مل آگ میں گرتے ہی آواز پیدا کرتا ہے اسی طرح میں بھی ہر وقت نالہ و فریاد پر آمادہ رہتا ہوں ۔ شاعر کے نزدیک اس کی وجہ یہ ہے کہ جس طرح عشق نے شمع کو باطنی جلن اور گرمی عطا کی ہے کسی طرح عشق نے شاعر کو بھی خون کے آنسو رونے پر مجبور کر دیا ہے ۔

اقبال خطاب جاری رکھتے ہوئے کہتے ہیں کہ اے شمع تو کسی عشرت کدے میں جلے یا کسی مزار پر روشنی کر رہی ہو یعنی خواہ تو مسرت و شادمانی کے جذبے سے سرشار ہو خواہ مبتلائے الم ہو، مجھے ہرحال میں آنسو بہانے پر مجبور ہونا پڑتا ہے ۔ شمع کے جلنے پر پگھلے ہوئے موم کے جو قطرے گرتے ہیں ، شاعر نے انہیں شمع کے آنسو قرار دیا ہے ۔

      بند دوم

یک بِیں تری نظر صفتِ عاشقانِ راز

میری نگاہ مایۂ آشوبِ امتیاز

کعبے میں، بُت کدے میں ہے یکساں تری ضیا

مَیں امتیازِ دیر و حرم میں پھنسا ہُوا

ہے شان آہ کی ترے دُودِ سیاہ میں

پوشیدہ کوئی دل ہے تری جلوہ گاہ میں؟

یک بیں  سب کو برابر دیکھنے والی – عاشقان راز : قدرت کے بھیدوں عاشق

 مایہ آشوب امتیاز : تفریق اور اختلاف کا فتنہ پیدا کرنے والی ، دود سیاه کالا دھواں

اے شمع تو قدرت کے رازوں کے شیدائیوں کی طرح ایک بیں  ہے یعنی جس طرح یہ لوگ  اچھے برے اور کھوٹے کھرے میں تمیز کئے بغیر سب کو مساوی درجہ دیتے ہیں اسی طرح تو بھی سب کے ساتھ برابری اور مساوات کا سلوک کرتی ہے ۔ جبکہ میری نگاہ اُس دولت سے مالا مال ہے جوامتیازات اور تفریق و تفرقہ پیدا کرنے کا سبب بن جائے ۔ یعنی میں حقائق جہات کا مشاہدہ غیر جانبدار ہو کہ نہیں بلکہ مختلف تعصبات کے حوالے سے کرنے کا عادی ہوں ۔

اس شعر میں لطف یہ ہے کہ شمع کا صرف ایک ہی شعلہ ہوتا ہے اور اگر اے شمع کی آنکھ فرض کر لیا جائے تو وہ واقعی یک بیں قرار پائے گی ۔ بہر حال علامہ اقبال کہتے ہیں کہ اے شمع تو امتیازات سے دامن بچائے ہوئے ہے جبکہ میری نظر اختلاف و افتراق کے ہنگاموں میں الجھی ہوئی ہے۔ تری روشنی کعبے اور بت خانے دونوں کو برابر منور کئے ہوئے ہے جبکہ میں کعبے اور بت خانے میں فرق روا رکھتا ہوں ۔

اے شمع تیرے جلنے کے باعث جو دھواں نکلتا ہے وہ آہ کی مانند ہے ۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ تیرے بظاہر بے جان جسم میں کوئی دل چھپا ہوا ہے۔

بسم اللہ الرحمن الرحیم

تفہیم و تشریح

              بند سوم

جلتی ہے تُو کہ برقِ تجلّی سے دُور ہے

بے درد تیرے سوز کو سمجھے کہ نُور ہے

تُو جل رہی ہے اور تجھے کچھ خبر نہیں

بِینا ہے اور سوز درُوں پر نظر نہیں

مَیں جوشِ اضطراب سے سیماب وار بھی

آگاہِ اضطرابِ دلِ بے قرار بھی

تھا یہ بھی کوئی ناز کسی بے نیاز کا

احساس دے دیا مجھے اپنے گداز کا

جلتی ہے : کڑھتی ہے، غمزدہ ہوتی ہے ، سوز دروں اندرونی یا باطنی جلن ، سیماب وار : پارے کی طرح ؛ ناز : چونچلا ، غمزہ ، ادا، جان کر کوئی ایسا عمل کرنا جس سے عاشق کا دل تڑپ جائے ۔ بے نیاز : بے پروا محبوب حقیقی

اے شمع تو تو اس بات پر کڑھ رہی ہے کہ تو روشنی کے اصل منبع سے دور ہے جبکہ تجھے دیکھنے والے تیری اس جلن کو روشنی خیال کرتے ہیں۔ اس شعر میں کمال یہ ہے کہ شمع کے لیے لفظ ” جلتی ہے “ استعمال ہوا ہے جو اپنے حقیقی اور مجازی دونوں معنوں میں پورا اترتا ہے اقبال کہتے ہیں کہ اسے شمع تو جلتی ہے لیکن تیری بد قسمتی یہ ہے کہ تجھے اپنے جلنے کا پتا نہیں ہے ۔ اگر چہ تو آنکھ رکھتی ہے لیکن اپنی باطنی جلن کو نہیں دیکھ سکتی ۔ جبکہ میری کیفیت یہ ہے کہ میں بے چینی اور بیتابی کے باعث  پارے کی طرح تڑپ رہا ہوں اور اپنی اس اضطراری کیفیت کا سبب بھی جانتا ہوں ۔ یہ میرے محبوب حقیقی کا ایک خاص اندازہ تھا کہ اُس نے مجھے میرے جلنے اور پگھلنے کا احساس عطا کر دیا ۔

              بند چہارم

یہ آگہی مری مجھے رکھتی ہے بے قرار

خوابیدہ اس شرر میں ہیں آتش کدے ہزار

یہ امتیازِ رفعت و پستی اسی سے ہے

گُل میں مہک، شراب میں مستی اسی سے ہے

بُستان و بُلبل و گُل و بُو ہے یہ آگہی

اصلِ کشاکشِ من و تُو ہے یہ آگہی

آگہی : سمجھ ، شعور ، خوابیدہ : سوئے ہوئے ، امتیاز رفعت و پستی : اعلیٰ و ادنی کا فرق ، بستان*باغ   *اصل : جڑ ، بنیاد ، کشاکش : کھینچ تان

علامہ اقبال کہتے ہیں کہ مجھے آگہی اور ذات کا جو شعور دیا گیا ہے یہ اگر چہ بظاہر ایک  معمولی سی چنگاری نظر آتا ہے لیکن اس میں ہزاروں آتشکدے سے موجود ہیں یعنی بہت زیادہ حرارت و گرمی پوشیدہ ہے ۔ یہی آگہی ہے جس کے باعث اعلیٰ وادنٰی کا فرق قائم ہے ۔ یہی آگہی ہے جو پھول کی خوشبو اور شراب کی مستی میں الگ الگ شناخت اور پہچان قائم کرتی ہے ۔ اسی آگہی کی بدولت باغ بلبل ، پھول اور خوشبو کا فرق قائم ہے اور مختلف مظاہر قدرت کا الگ الگ تشخص موجود ہے ۔ یہ آگہی ہی مختلف افراد کے درمیان اختلافات کا باعث بن جاتی ہے ۔

بسم اللہ الرحمن الرحیم

تفہیم و تشریح

نظم شمع

بند پنجم

صبحِ ازل جو حُسن ہُوا دِلستانِ عشق

آوازِ ’کُن‘ ہوئی تپش آموزِ جانِ عشق

یہ حکم تھا کہ گُلشنِ ’کُن‘ کی بہار دیکھ

ایک آنکھ لے کے خوابِ پریشاں ہزار دیکھ

مجھ سے خبر نہ پوچھ حجابِ وجود کی

شامِ فراق صبح تھی میری نمود کی

وہ دن گئے کہ قید سے مَیں آشنا نہ تھا

زیبِ درختِ طُور مرا آشیانہ تھا

قیدی ہوں اور قفَس کو چمن جانتا ہوں میں

غربت کے غم کدے کو وطن جانتا ہوں میں

یادِ وطن فسُردگیِ بے سبب بنی

شوقِ نظر کبھی، کبھی ذوقِ طلب بنی

صبح ازل کائنات کی تخلیق کا لمحہ : دل ستان : دل چھیننے والا  آواز کن کہا  جاتا ہے کہ اللہ تعالی نے ایک لفظ  کن یعنی  ہوجا کے تحت ساری کائنات کو پیدا کیا۔  تپش آموز: تڑپ سکھانے والا ، خواب پریشاں : بکھرا ہوا خواب :حجاب وجود جسم کا پرده  زیب درخت طور کوہ طور کے درخت لائق   غربتکدہ مراد دنیا –

جب کائنات تخلیق ہوئی اور حسن نے عشق کو اپنا گرویدہ بنانا چاہا تو کن کی آواز نے عاشق  کی روح میں ایک تڑپ پیدا کر دی ۔ اس روز عاشق یعنی انسان کو یہ حکم دیا گیا کہ اب خدا کے حکم یعنی کن کے نتیجے میں پیدا ہونے والی رونق دیکھ اور اپنی بصیرت و بصارت سے سینکڑوں ایسے خواب دیکھ جو بکھرے ہوئے ہیں اور جن کی کوئی حقیقت نہیں ہے ۔ واضح رہے کہ صوفیا ۔ اس دنیا کو ہمیشہ سے ایک خواب ہی قرار دیتے ہیں ۔ مثلاً خواجہ میر درد کہتے ہیں ۔

وائے نادانی کہ وقت مرگ یہ ثابت ہوا

خواب تھا جو کچھ کر دیکھا جو سنا افسانہ تھا

اقبال کہتے ہیں کہ مجھے پیدا کر کے میرے وجود اور جسم کو ایک پردہ بنا دیا گیا ہے۔ یعنی میرے وجود ہی نے مجھے اپنی حقیقت سے بے خبر اور غافل کر دیا ۔ یوں گویا میری تخلیق اور ظہور کے باعث حقیقت ازل سے میرے بحر کا آغاز ہو گیا۔ پہلے ہمیں ہر طرح کی قید سے آزاد تھا لیکن اب مجھے قید کر دیا گیا ہے۔ وہ دور گزر گیا جب میرا گھر یا مقام کوہ طور کے درخت پر تھایعنی جب میں کسی حجاب اور پردے کے بغیر اللہ تعالیٰ کی تجلی دیکھا کرتا تھا۔ دراصل یہ شعر وحدت الوجود کے اس اہم اور بنیادی نظریے کی طرف اشارہ کرتا ہے جس کی رو سے انسان سمیت ہر شے خدا کی ذات کا حصہ تھی ۔ جیسا کہ غالب بھی کہتا ہے ۔

نہ تھا کچھ تو خدا تھا ، کچھ نہ ہوتا تو خدا ہوتا

ڈبویا مجھ کو ہونے نے ، نہ ہوتا میں تو کیا ہوتا

اقبال کہتے ہیں کہ اس دنیا کی تخلیق کے ساتھ ہی وہ دور ختم ہو گیا اور اب تو صورت یہ ہے کہ میں قید میں ہوں اور بد قسمتی سے اپنے قفس ہی کو چین تصور کر رہا ہوں۔ البتہ اپنے وطن کی یاد کبھی کبھی مجھے غمگین کر دیتی ہے اور یہ یاد کبھی فکر و نظر کے شوق کی صورت میں ظاہر ہوتی ہے اور کبھی کچھ پانے کی خواہش کی صورت میں نمایاں ہوتی ہے۔ یعنی کبھی تو میں محبوب حقیقی کے بارے میں غور و فکر کرتا اور سوچتا ہوں اور کبھی اُسے پانا چاہتا ہوں ۔

بسم اللہ الرحمن الرحیم

تفہیم و تشریح

شمع بند ششم

اے شمع! انتہائے فریبِ خیال دیکھ

مسجودِ ساکنانِ فلک کا مآل دیکھ

مضموں فراق کا ہوں، ثریّا نشاں ہوں میں

آہنگِ طبعِ ناظمِ کون و مکاں ہوں میں

باندھا مجھے جو اُس نے تو چاہی مری نمود

تحریر کر دیا سرِ دیوانِ ہست و بود

گوہر کو مشتِ خاک میں رہنا پسند ہے

بندش اگرچہ سُست ہے، مضموں بلند ہے

چشمِ غلَط نِگر کا یہ سارا قصور ہے

عالم ظہورِ جلوۂ ذوقِ شعور ہے

یہ سلسلہ زمان و مکاں کا، کمند ہے

طوقِ گلُوئے حُسنِ تماشا پسند ہے

منزل کا اشتیاق ہے، گم کردہ راہ ہوں

اے شمع! مَیں اسیرِ فریبِ نگاہ ہوں

صیّاد آپ، حلقۂ دامِ ستم بھی آپ

بامِ حرم بھی، طائرِ بامِ حرم بھی آپ!

مَیں حُسن ہوں کہ عشقِ سراپا گداز ہوں

کھُلتا نہیں کہ ناز ہوں میں یا نیاز ہوں

ہاں، آشنائے لب ہو نہ رازِ کُہن کہیں

پھر چھِڑ نہ جائے قصّۂ دار و رَسن کہیں

انتہائے قریب خیال : تصور گمان کی سخت غلطی مسجود ساکنان فلک جس کو فرشتوں نے سجدہ کیا یعنی انسان ثریا نشاں : بہت بلند ، آهنگ طبع ناظم کون و مکان  کائنات کا انتظام کرنے والی ہستی کی طبیعت سے مناسبت رکھنے والا ۔

مآل انجام نتیجه چشم غلط نگہ : غلط دیکھنے والی آنکھ ، طوق گلو : گلے کی زنجیر ، اسیر فریب نگاہ : نظر کے دھو کے کا قیدی ، ناز : ادا یہاں مراد محبوب ، نیاز : یہاں مراد عاشق

اقبال کہتے ہیں کہ اسے شمع تو ہمارے تصور اور خیال کی غلطی کا اندازہ کر کہ ہم فانی انسان خود ہے جسے فرشتوں نے سجدہ کیا تھا ۔ اگر چہ میں اب اپنی حقیقت یعنی خدا سے بہت دور ہوں اس کے باوجود میں بہت بلند ہوں اور اللہ تعالیٰ کی طبیعت سے مکمل طور پر مناسبت رکھتا ہوں ۔ یہی وجہ ہے کہ جب خدا نے مجھے پیدا کیا تو اس نے مجھے کائنات کے تمام مظاہر پر فوقیت دی ۔ گو میری پاک اور منزہ روح کو مٹی کے جسم میں قید کر دیا گیا ہے اور میرا ظاہری وجود بہت ارزاں اور کم قیمت ہے لیکن اس میں مقید روح بہت قیمتی ہے ۔ اقبال نے ان تین شعروں میں رعایت لفظی کا کمال دکھا دیا ہے۔ مضمون کی رعایت سے ناظم ، باندھنا، تحریر ، دیوان اور ہندیش وغیرہ کتنے ہی لفظ آگئے ہیں۔ اس پر مستزاد بندش کا سست ہونا اور مضمون کی بلندی ہے ۔

اقبال کہتے ہیں کہ انسان کی اس بلندی کے باوجود اس کی غلط ہیں نگاہ نے اُسے غلط فہمی میں مبتلا ” کر رکھا ہے۔ یہاں پر جتنے لوگ ہیں وہ سب کے سب اپنی حقیقت کو فراموش کر کے ذاتی شعور کا اظہار چاہتے ہیں اور یوں دنیا میں امتیاز و افتراق کی خلیج وسیع ہوتی جاتی ہے ۔

وقت کی گذران کا ایک سلسلہ ایک بڑی رسی کی مانند ہے جسے اللہ تعالیٰ نے انسانوں کی گردن کے لیے بنایا ہے یعنی انسان وقت کا اسیر ہے ۔ اگر چہ مجھے بحثیت انسان اپنی منزل تک پہنچنے کا شوق ہے لیکن میں اپنے راستے سے بھٹک چکا ہوں اور میں اپنی نگاہوں کے دھوکے میں آگیا ہوں جنھوں نے حقیقت کو میری نگاہوں سے اوجھل کر رکھا ہے ۔ حالانکہ اس کائنات میں شکاری کی حیثیت بھی میری ہی ہے اور جال کا وہ دائرہ بھی میں خود ہی ہوں جو ستم ڈھانے کے لیے بچھایا گیا ہے ۔ حرم کی چھت بھی میں خود ہوں اور اس چھت پر بیٹھے ہوئے پرندے کی حیثیت بھی میری ہی ہے۔ بہت کچھ غور و فکر کرنے کے با وجود بھی یہ بات سمجھ میں نہ آسکی کہ اس دنیا میں میری حقیقت کیا ہے ؟ میں حسن ہوں یا جسم و جان کو پگھلا دینے والا عشق ۔ میں محبوب ہوتی یا میری حیثیت ایک عاشق کی ہے ۔

اسی بنیاد  پر مجھے اس امر کا اندیشہ ہے کہ میرے ہونٹ اور زبان کہیں پھر وہی پرانا راز نہ کہہ دیں جس کے بعد پھانسی اور موت کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے ۔ یہ اشارہ حسین بن منصور حلاج کی طرف ہے جس نے وحدت الوجودی نظریات کے باعث ” انا الحق ، یعنی میں خدا ہوں“ کا نعرہ لگایا اور اسےسولی پر لٹکا دیا گیا۔ مطلب یہ ہے کہ اگر میں نے ازل کے رازوں سے پردہ اٹھا دیا تو میرا انجام بھی رہی ہو گا جو منصور بن حلاج کا ” انا الحق کہنے پر ہوا تھا ۔(ختم شد)

شارح پروفیسر ڈاکٹر شفیق احمد

Loading