بانگ درا حصہ سوم
نظم گورستانِ شاہی
بند 10تا 12
ہے ہزاروں قافلوں سے آشنا یہ رہ گزر
چشمِ کوہِ نُور نے دیکھے ہیں کتنے تاجور
مصر و بابِل مٹ گئے، باقی نشاں تک بھی نہیں
دفترِ ہستی میں ان کی داستاں تک بھی نہیں
آ دبایا مہرِ ایراں کو اجل کی شام نے
عظمتِ یُونان و روما لُوٹ لی ایّام نے
آہ! مسلم بھی زمانے سے یونہی رخصت ہوا
آسماں سے ابرِ آذاری اُٹھا، برسا، گیا
ہے رگِ گُل صبح کے اشکوں سے موتی کی لڑی
کوئی سُورج کی کرن شبنم میں ہے اُلجھی ہوئی
سینۂ دریا شُعاعوں کے لیے گہوارہ ہے
کس قدر پیارا لبِ جُو مہر کا نظّارہ ہے
محوِ زینت ہے صنوبر، جوئبار آئینہ ہے
غنچۂ گُل کے لیے بادِ بہار آئینہ ہے
نعرہ زن رہتی ہے کوئل باغ کے کاشانے میں
چشمِ انساں سے نہاں، پتّوں کے عُزلت خانے میں
اور بُلبل، مطربِ رنگیں نوائے گُلِستاں
جس کے دم سے زندہ ہے گویا ہوائے گُلِستاں
عشق کے ہنگاموں کی اُڑتی ہوئی تصویر ہے
خامۂ قُدرت کی کیسی شوخ یہ تحریر ہے
باغ میں خاموش جلسے گُلِستاں زادوں کے ہیں
وادیِ کُہسار میں نعرے شباں زادوں کے ہیں
زندگی سے یہ پُرانا خاکداں معمور ہے
موت میں بھی زندگانی کی تڑپ مستور ہے
پتّیاں پھولوں کی گرتی ہیں خزاں میں اس طرح
دستِ طفلِ خُفتہ سے رنگیں کھلونے جس طرح
اس نشاط آباد میں گو عیش بے اندازہ ہے
ایک غم، یعنی غمِ ملّت ہمیشہ تازہ ہے
دل ہمارے یادِ عہدِ رفتہ سے خالی نہیں
اپنے شاہوں کو یہ اُمّت بھولنے والی نہیں
اشک باری کے بہانے ہیں یہ اُجڑے بام و در
گریۂ پیہم سے بینا ہے ہماری چشمِ تر
دہر کو دیتے ہیں موتی دیدۂ گریاں کے ہم
آخری بادل ہیں اک گزرے ہوئے طوفاں کے ہم
ہیں ابھی صدہا گُہر اس ابر کی آغوش میں
برق ابھی باقی ہے اس کے سینۂ خاموش میں
وادیِ گُل، خاکِ صحرا کو بنا سکتا ہے یہ
خواب سے اُمّیدِ دہقاں کو جگا سکتا ہے یہ
ہو چُکا گو قوم کی شانِ جلالی کا ظہور
ہے مگر باقی ابھی شانِ جمالی کا ظہور
بسم اللہ الرحمن الرحیم
تفہیم و تشریح
بند 11
*ہے رگ گل صبح کے اشکوں سے موتی کی لڑی ے ہے۔*
پھول کی شاخ صبح کے آنسووں یعنی شبنم کے قطروں کے باعث موتیوں کی لڑی معلوم ہوتی ہے اور شبنم کے کسی قطرے میں سورج کی شعاع الجھ گئی ہے ۔ دریا کا سینہ سورج کی شعاعوں کے لئے پالنے کا کام دیتا ہے ۔ ندی کے کنارے سورج کا منظر کس قدر خوبصورت معلوم ہوتا ہے۔ یوں لگتا ہے۔ جیسے صنوبر کا درخت اپنی آرائش میں مصروف ہے اور بہتی ہوئی ندی اس کے لیے آئینے کا کام دے رہی ہے ۔ جبکہ بہار کی زندگی بخش ہوا پھولوں اور غنچوں کے لئے آئینے کا کام کرتی ہے۔ باغ ۔ میں بلبل انسان کی آنکھوں سے چھپ کر اور پتوں میں بیٹھ کر گانا گانے میں مصروف رہتی ہے۔ سے گلستان میں رنگین نتے کھانے والی اس بلبل کی وجہ سے گلستان کی فضامیں زندگی کے آثار نظر آتے ہیں ۔ یہ بلبل عشق کی اڑتی ہوئی تصویر ہے اور قدرت کے قلم نے یہ کتنی شوخ عبارت لکھی ہے ۔ باغ میں درخت بالکل چپ چاپ کھڑے ہیں اور پہاڑ کی داری میں گڈریوں کے بچے کھیل کود میں مصروف ہیں اور نعرے لگا رہے ہیں ۔ یہ پرانا خاکداں یعنی قلعہ زندگی سے بھر پور ہے اور گو اس قلعے کے رہنے والے موت کا شکار ہو چکے ہیں لیکن یہاں پر موت کے پردے میں زندگی کا اضطراب چھپا ہوا ہے ۔ قلعے میں آگے ہوئے پودوں کی شاخوں سے موسم خزاں کے باعث پھولوں کی پتیاں اس طرح جھڑ رہی ہیں جیسے سوئے ہوئے بچے کے ہاتھ سے رنگین کھلونے کرتے ہیں ۔
خوشی و مسرت کی اس دنیا میں اگر چہ انسان کیلئے عیش و عشرت کے بہت سے سامان ہیں لیکن قوم و ملت کا تنزل اور بربادی کا غم ہمارے دلوں میں ہمیشہ زندہ رہنے والا غم ہے ۔
بند 12
*دل ہمارے یاد عہد رفتہ سے خالی نہیں ۔*
ہمارے دل گزرے ہوئے زمانے کی یاد سے خالی نہیں ہیں اور مسلمان قوم نے اپنے گزرے عظمتوں کے لٹ جانے پر رونے کے بہانے ہیں ۔ ہماری آنسووں سے بھیگی ہوئی آنکھ صرف مسلسل رونے کی وجہ سے دیکھنے کے قابل ہے ۔ ہم مسلمان اپنی رونے والی آنکھ سے زمانے کو موتی عطا کرتے ہیں۔ موجودہ زمانے کے مسلمان گرتے ہوئے تند و تیز طوفان کے آخری بادل کی حیثیت رکھتے ہیں ۔ لیکن اس آخری بادل کے دامن میں بھی بے شمار موتی ہیں ۔ اس کے خاموش سینے میں ابھی بجلیاں باقی ہیں۔ یہ بادل اب بھی صحراؤں کی مٹی کو گلستانوں میں بدل سکتا ہے اور کسانوں کی امید جو مایوس ہو کر سو چکی ہے، اسے خواب سے بیدار کر سکتا ہے ۔
گر چہ قوم کی جلالی شان کا اظہار ہو چکاہے لیکن ابھی قوم کی جمالی شان کا ظہور باقی ہے۔ شان جلالی سے مراد رعب و دبدبہ شان و شوکت اور حکمرانی و فتوحات ہیں جبکہ شان جمالی کا منشا حسن اخلاق اور ادب و فنون میں کامیابی ہے ۔
(شارح پروفیسر ڈاکٹر شفیق احمد)
![]()

