Daily Roshni News

با ادب با نصیب۔۔۔ بے ادب بد نصیب

با ادب با نصیب۔۔۔ بے ادب بد نصیب

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )میری ساس نے مجھ سے پہلا جھگڑا کھیر کی رسم کے بعد شادی کے کچھ مہینوں کے اندر ہی کیا تھا جب میں نے ایک دن اُن کی غیر موجودگی میں اُن کے سارے کپڑے خود مشین لگا کر دھو کر سُکھا کر طے کرکے اُن کے بیڈ پر رکھ دیے تھے۔ وہ اس بات پر چلائی تھیں کہ میں نے اُن کی اجازت کے بغیر اُن کے کپڑوں کو ہاتھ کیوں لگایا۔

دن کے ٹھیک بارہ بجے توے سے اُتری روٹی کے ساتھ ٹرے میں گرم گرم تازہ پکا ہوا کھانا نکال کر ساس کے کمرے میں رکھ کر آتی تھی کہ ساس کو ہمارے ساتھ کھانا پسند نہیں تھا۔ ٹھیک ایک بجے کھانا کھا کر تین بجے تک باورچی خانہ صاف کرکے نہا دھو کر نماز پڑھ کر میں اپنے بیڈ پر آرام کر رہی ہوتی تھی لیکن اس کے باوجود ایک دن ایسا نہیں گزرا جب مجھے میرے والدین یاد نہ کرائے گئے ہوں کہ اُنہوں نے مجھ جیسی بیٹی اُن کے سر ڈال دی۔ اللّٰہ کا شکر ہے احسان ہے کہ اُس نے مجھے اپنے نفس پر اتنا قابو دیا کہ میں نے کبھی اپنی ساس کو پلٹ کر جواب نہیں دیا۔

شادی کے ٹھیک  سوا سال کے بعد جب  بیٹی پیدا ہوئی اور میں سوا مہینہ نہاکر اپنے والدین سے ملنے گئی تو تیسرے دن مجھے واپس بلا لیا گیا کہ ساس کا ایکسیڈنٹ ہوگیا۔ ٹانگ کی سرجری کے بعد وہ خود بستر سے جالگیں اور خود پانی پینے سے بھی قاصر تھیں۔ میں خود روزانہ ہر ایک آدھ گھنٹے کے بعد اُن کی گردن اُٹھا کر انہیں پانی پلاتی تھی۔ الحمدللّٰہ اپنی بیٹی کے ساتھ ساس کی اتنی خدمت کی کہ وہ اپنے بیٹے کے بجائے مجھے بلاتی تھیں خود کو اٹھوانے کے کیے کہ اُن کو میرے علاوہ کسی پر بھروسہ نہیں تھا۔ وہ کہتی تھیں کِہ میں اُن کو اتنی مضبوطی سے پکڑ کر اٹھاتی ہوں کہ وہ گریں گی نہیں کیونکہ وہ خود نہیں اُٹھ سکتی تھیں۔ بستر سے فزیو کی ایکسرسائز کرنے تک کا سفر میں نے اُن کے ساتھ طے کیا۔ ان کی کمر میں ہاتھ ڈال کر اپنے برابر پکڑ کر اُن کو چلواتی تھی کہ وہ دن آیا کہ وہ وہیل چیئر پھر واکر پھر چھڑی اور پھر چھڑی کے بغیر چلنے کے قابل ہوگئیں لیکن اُن کی زبان کی تیزی اور نفرت میں کوئی فرق نہ آیا۔ اکلوتی نند کی موجودگی میں بھی میں نے اپنی ساس کی الٹیاں اپنے جسم پر لی ہیں اور اُن کی گندگیاں اپنے ہاتھوں سے صاف کی ہیں لیکن اُن کی بد زبانی اور بد اخلاقی کے جواب میں اپنے اعمال اور اخلاق برباد نہیں کیے۔

میں یہ سب کُھلے عام اس لیے لکھ رہی ہوں کہ ہوسکتا ہے مجھے جاننے والا کوئی یہ پڑھے تو وہ بھی گواہی دے سکتا ہے کِہ میں نے یہ سب سچ لکھا ہے کیونکہ میری ساس اور نند کے علاوہ اس دنیا کے ہر شخص نے مجھے سیدھا  جنت میں جانے کی بشارتیں دی ہیں جو الحمدللّٰہ اسی دنیا میں مجھے مل گئی ہے۔ میری چچی ساس، خالہ ساس، ممانی ساس یہاں تک کہ نند کے سسرال والے بھی آج تک مجھے پسند کرتے ہیں۔

الحمدللّٰہ میں اپنی بیٹی کے ساتھ آسٹریلیا میں بہت سُکھ، سکون، عزت اور خوشیوں سے بھرپور ایک کامیاب زندگی گزار رہی ہوں۔ الحمدللہ پچھلے سات سالوں سے آسٹریلیا کے سب سے بڑے بینک میں ملازمت کرتی ہوں اور اپنی بیٹی کے ساتھ ایک اور لڑکی کو بھی پال رہی ہوں۔ مجھے میری خدمت اور خاموشی کا میری اوقات سے زیادہ پھل ملا ہے اور الحمدللّٰہ ہر آنے والے دن ملتا ہے۔ جس نے جو کیا جیسا کیا وہ اُس کے مطابق خود بھگت کے اس دنیا سے جاتا ہے۔ ہمیشہ یاد رکھیں اگر سامنے والا اللّٰہ سے نہیں ڈرتا تو نہ ڈرے لیکن اُس کی وجہ سے آپ اللّٰہ سے ڈرنا  نہ چھوڑیں اور اپنے اعمال برباد نہ کریں۔ یہ دنیا مکافاتِ عمل ہے۔

با ادب با نصیب۔۔۔ بے ادب بد نصیب 💐💐💐

Please follow me on Facebook Asif Line’s

Loading