برکت کا تعویز
(رزق کا خفیہ راز)
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )ایک عورت، وقت کے بوجھ تلے دبی ہوئی، ایک دن ایک درویش عالم کے در پر پہنچی۔
آنکھوں میں تھکن تھی، دل میں فقر کی دھول، اور ہونٹوں پر ایک التجا:
مولوی صاحب، کوئی ایسا تعویذ دے دیجیے کہ میرے بچے بھوک سے راتوں کو نہ رویا کریں۔”
عالم نے نگاہِ خاموشی سے عورت کو دیکھا۔
اس خاموشی میں دعا بھی تھی اور راز بھی۔
انہوں نے قلم اٹھایا، چند لفظ لکھے، کاغذ تہہ کیا، اور مسکرا کر کہا:
“اسے صندوق میں رکھ دو۔ باقی کا کام مالکِ رزق جانے۔”
وقت گزرا۔ قسمت نے پلٹا کھایا۔
ایک دن صحن میں ایک تھیلا گرا ہوا ملا پیسوں سے بھرا ہوا
۔ان پیسوں سے اس عورت کے
شوہر نے دکان کھولی، دکان سے کاروبار بڑھا، رزق کی راہیں کھلتی گئیں،
اور ان کے گھر میں شکر کے چراغ جلنے لگے۔
فقر کی جگہ فراوانی نے لے لی۔
وہی راتیں جو آہوں سے بھری تھیں، اب بچوں کی ہنسی سے جگمگانے لگیں۔
کئی سال بعد، ایک سہ پہر، عورت نے وہی صندوق کھولا۔
دل میں تجسس جاگا: “آخر اس تعویذ میں کیا لکھا تھا؟”
کاغذ کھولا تو تحریر نے جیسے پورا جہان بدل دیا —
> “جب پیسہ زیادہ ہو جائے،
تو اسے تجوری میں قید نہ کرنا،
بلکہ ان گھروں میں بہا دینا،
جہاں راتوں کو اب بھی بچوں کے رونے کی آواز آتی ہے۔”
وہ دیر تک کاغذ کو تکتے رہی —
آنسو گالوں سے بہہ رہے تھے، مگر دل پر عجب سکون اتر آیا تھا
۔
اب اسے سمجھ آیا کہ برکت کا تعویذ کاغذ پر نہیں، کردار پر لکھا جاتا ہے۔
رزق دراصل بہنے کا نام ہے، رُک جانے کا نہیں۔
جب انسان اپنے رزق کو دوسروں کے کام میں لگا دیتا ہے،
تو وہ رزق، رحمت بن جاتا ہے۔
اور رحمت کا قانون یہ ہے
کہ جو بانٹے، اسکا رزق بڑھتا ہے۔
یہی تو اصل برکت کا تعویز ہے:
کہ خدا اُس کے ہاتھ میں دولت نہیں دیتا جو صرف اپنے لیے چاہے،
بلکہ اُس کے ہاتھ میں دیتا ہے جو خدا کے بندوں کے لیے مانگے۔
راز کی بات
بانٹے والا دراصل حاصل کرنےوالا ہوتا ہے۔
کیونکہ جب تم کسی کی بھوک مٹا دیتے ہو،
تو تمہارا دل مطمئن ہو جاتا ہے — اور دل کا اطمینان ہی اصل رزق ہے۔
خدا کا وعدہ ہے:
> “تم خرچ کرو، میں بڑھا دوں گا۔”
یہ وعدہ الفاظ نہیں، نظامِ کائنات کا قانون ہے۔
رزق…
یہ صرف روٹی، کپڑا یا سونا چاندی نہیں
یہ اللہ کی رحمت کا وہ بہاؤ ہے جو بندوں کے دلوں سے جڑ کر ان کی نیتوں اور اعمال میں ڈھلتا ہے۔
قرآنِ کریم رزق کو محض کمائی نہیں بلکہ الٰہی ترتیب اور روحانی آزمائش کے طور پر بیان کرتا ہے۔
کبھی رزق نعمت بنتا ہے، کبھی امتحان —
اور اصل راز اس بات میں ہے کہ انسان اسے کس نیت سے حاصل اور کس دل سے بانٹتا ہے۔
اللہ ہی اصل رازق ہے
> اِنَّ اللّٰهَ هُوَ الرَّزَّاقُ ذُو الْقُوَّةِ الْمَتِينُ
بے شک اللہ ہی بڑا رزق دینے والا، طاقت والا، مضبوط ہے۔
(الذّاریات: 58)
چڑیا صبح خالی پیٹ اڑتی ہے اور شام کو پیٹ بھر کر لوٹتی ہے،
یہی تو توحیدِ رزق کا سبق ہے۔
انسان جب فکرِ فردا سے آزاد ہو کر یقین میں جیتا ہے،
تو اللہ اس کے لیے ایسے دروازے کھول دیتا ہے جو وہ سوچ بھی نہیں سکتا۔
مخلوق کا رزق اللہ کے ذمے ہے
> وَمَا مِنْ دَابَّةٍ فِي الْأَرْضِ إِلَّا عَلَى اللّٰهِ رِزْقُهَا
زمین پر کوئی جاندار ایسا نہیں جس کا رزق اللہ کے ذمے نہ ہو۔
(ہود: 6)
شکر سے رزق بڑھتا ہے
> لَئِن شَكَرْتُمْ لَأَزِيدَنَّكُمْ
اگر تم شکر کرو گے تو میں تمہیں اور زیادہ دوں گا۔
(سورہ ابراہیم: 7)
شکر زبان سے نہیں، تقسیم سے ظاہر ہوتا ہے۔
جو اپنے رزق میں دوسروں کو شامل کرتا ہے،
وہ دراصل شکر ادا کرتا ہے —
اور شکر، برکت کو بڑھاتا ہے۔
> مولانا رومیؒ فرماتے ہیں:
“شکر وہ چراغ ہے جو تنگی کے اندھیرے میں بھی راستہ دکھاتا ہے۔”
تقویٰ رزق کی کنجی ہے
> وَمَن يَتَّقِ اللَّهَ يَجْعَل لَّهُ مَخْرَجًاۙ وَيَرْزُقْهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ
جو اللہ سے ڈرتا ہے، اللہ اس کے لیے راستہ بنا دیتا ہے اور اسے وہاں سے رزق دیتا ہے جہاں سے گمان بھی نہیں ہوتا۔
(الطلاق: 2–3)
رزق کا دروازہ اکثر تقوی کی چابی سے کھلتا ہے
۔
جب دل حرص، حسد اور شک سے پاک ہو جاتا ہے،
تو اللہ غیب کے خزانے اس کے قدموں میں ڈال دیتا ہے۔
> حضرت جنید بغدادیؒ فرماتے ہیں:
“رزق کے پیچھے مت بھاگو، رزق دینے والے کے قریب ہو جاؤ۔”
خرچ کرنے سے رزق بڑھتا ہے
> وَمَا أَنفَقْتُم مِّن شَيْءٍ فَهُوَ يُخْلِفُهُ
تم جو بھی چیز اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہو، وہ اس کی جگہ اور دے دیتا ہے۔
(سبأ: 39)
رزق سمندر کی مانند ہے —
جب بہتا ہے تو صاف اور بڑھتا رہتا ہے،
اور جب روک لیا جائے تو سڑ جاتا ہے۔
یہ
اللہ کا قانون ہے:
> “جو بانٹے، اسکا رزق بڑھتا ہے۔”
رزق کی تقسیم، اللہ کی مرضی کے مطابق ھوتی ہے
> اللّٰهُ يَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَن يَشَاءُ وَيَقْدِرُ
اللہ جس کے لیے چاہتا ہے رزق کشادہ کر دیتا ہے اور جس کے لیے چاہتا ہے تنگ کر دیتا ہے
(الرعد: 26)
رزق کی زیادتی یا کمی، نیکی یا گناھوں کی سزا نہیں ھوتی
بلکہ ایک حکمت ہے۔
کسی کو دے کر شکر کا امتحان لیا جاتا ہے،
کسی کو روک کر صبر کا۔
> صوفیا اکرام فرماتے ہیں:
“جسے کم دیا گیا، اسے انتظار کا رزق ملا —
اور انتظار، ایمان کا سب سے اونچا درجہ ہے۔”
دعا سے رزق کے دروازے کھلتے ہیں
> رَبِّ إِنِّي لِمَا أَنزَلْتَ إِلَيَّ مِنْ خَيْرٍ فَقِيرٌ
اے میرے رب! جو بھی خیر تو مجھ پر نازل کرے، میں اس کا محتاج ہوں۔
(القصص: 24)
یہ حضرت موسیٰؑ کی دعا ہے —
جب وہ بے گھر، بے آسرا اور بھوکے تھے۔
اسی دعا کے بعد اللہ نے ان کے لیے
رزق، رہائش، اور نبوت کے دروازے کھول دیے۔
یہی راز ہے کہ فقر، فیض کی کنجی ہے۔
رزق بہنے کا نام ہے
رزق، برکت، اور رحمت —
یہ تینوں ایک ہی ندی کے تین بہاؤ ہیں۔
جب رزق دوسروں تک پہنچتا ہے،
تو وہ خیر بن جاتا ہے؛
اور جب قید کیا جاتا ہے،
تو شر۔
اللہ پاک ھم سب کو رزق حلال عطا فرماۓ
اور دوسروں کا درد بانٹے والا بناۓ
تحریر وترتیب
محمد انعام الحق رازدان