Daily Roshni News

بغداد کا چور ․․․ بعد کا درویش

پیارے بچو!بہت پرانے وقتوں کی بات ہے۔ابنِ ساباط بغداد کا نامی گرامی چور تھا۔وہ چوری اور ڈکیتی میں ایسا ماہر تھا کہ ہزاروں چوریاں کرنے کے باوجود قانون کی گرفت میں نہیں آتا تھا۔آخر کب تک بچتا ایک دن اسے گرفتار کر ہی لیا گیا اور قانون وقت کے مطابق اس کا ایک ہاتھ کاٹ دیا گیا۔بعد ازاں اسے جیل بھیج دیا گیا۔

بغداد کے لوگ اس کا ذکر ہاتھ کٹا شیطان کے نام سے کرتے تھے۔وہ قید بامشقت کاٹ رہا تھا۔دس سال قید کاٹنے کے بعد ایک دن وہ جیل سے فرار ہو گیا۔
جیل سے باہر آتے ہی اپنے پیشے یعنی چوری کو ازسرِ نو شروع کرنے کا ارادہ کیا۔ایک ہاتھ کٹ جانے اور قید و بند کی صعوبتیں اُٹھانے کے باوجود اس کے مزاج پر ذرہ برابر اثر نہیں ہوا تھا۔

ایک رات وہ اپنی مہم پر نکلا۔

پھرتے پھراتے ایک بڑے سے گھر میں داخل ہوا۔گھر کے احاطہ کے چاروں طرف کمرے تھے وہ ایک بڑے کمرے میں گیا،جہاں کھجور کے پتوں کی چٹائی بچھی ہوئی تھی،جائے نماز ایک تکیہ اور چند ٹوپیاں رکھی ہوئی تھیں اور دوسری طرف پشمینہ کے چند تھان،شالیں اور کپڑوں کے تھان لاوارثی کی حالت میں پڑے تھے۔
بغداد کے چور نے چادر بچھا کر اس کے اوپر تھان رکھے اور ایک گٹھڑی بنائی اور اس کو باندھنے کی کوشش کرنے لگا لیکن ایک ہاتھ نہ ہونے کی وجہ سے اس سے گرہ نہیں لگ رہی تھی وہ ہانپتا ہوا بیٹھ گیا عین اسی وقت ایک ضعیف شخص کمرے میں داخل ہوا۔

ساباط کو گٹھڑی بناتا دیکھ کر کہا،”بھائی یہ کام تم کسی کی مدد کے بغیر نہیں کر سکتے۔میں تمہاری مدد کرتا ہوں ساباط نے اسے اپنے ساتھ ملا کر کپڑوں کی دو گٹھڑیاں بنائیں۔بڑی گٹھڑی ضعیف شخص نے اپنے سر پر رکھ لی اور چھوٹی اور کم وزن گٹھڑی ساباط کو دے کر کہا کہ”تمہارا ہاتھ نہیں ہے اس لئے تم کم وزن اُٹھاؤ اور جہاں کہو گے میں اسے پہنچا دوں گا۔ساباط اپنے ٹھکانے کی طرف چل پڑا۔راستے میں ایک جگہ چڑھائی کی وجہ سے ضعیف شخص کو بڑی دقت پیش آئی،ٹھوکر لگی اور گٹھڑی سمیت نیچے گر گیا۔ساباط نے غصے میں گالیاں بکیں اور اس کی کمر پر ایک زور دار لات رسید کی،ضعیف شخص جوں توں کھڑا ہوا اور کمزوری کی وجہ سے گرنے کی معافی مانگنے لگا۔
ابن ساباط نے طاقت کے زعم میں دوبارہ بڑی گٹھڑی عمر رسیدہ شخص کے سر پر رکھ کر سفر شروع کیا،چلتے چلتے وہ ایک کھنڈر میں جا پہنچے جو بغداد کے چور کی پناہ گاہ تھی،پھر ابن ساباط نے بزرگ سے کہا کہ دیکھو پہلے چوری کرنے میں پہنچا تھا اور تم بعد میں آئے تھے لہٰذا یہ تمام چوری کا مال میرا ہوا اور تمہیں مجھ جیسا سردار پورے بغداد میں نہیں مل سکتا لہٰذا آج سے تم میرے شاگرد ہو۔

بزرگ شخص نے ادب و احترام سے عرض کیا،”بھائی یہ تمام مال تمہیں مبارک ہو۔افسوس میں تمہاری کوئی خدمت نہیں کر سکا بلکہ اپنی کمزوری کی وجہ سے تمہارے لئے پریشانی کا باعث بنا،جس کے لئے معافی مانگتا ہوں اور رخصتی کی اجازت چاہتا ہوں۔خدا حافظ کہہ کر وہ شہر کی جانب چل پڑا۔
دوسری طرف ابن ساباط کے دل و دماغ اور ضمیر کو اپنے ساتھی کے حسن سلوک نے جھنجھوڑ کر رکھ دیا تھا اور ضمیر کی خلش نے اسے بے چین کر دیا تھا۔

صبح ہوتے ہی بغداد کا چور اس رات کے ساتھی اجنبی چور کی تلاش میں نکلا،تاکہ اپنے گزشتہ رات کے سلوک کی معافی مانگ سکے یہی سوچتا ہوا وہ رات والی عمارت کے باہر جا پہنچا۔
جہاں رات کو اس نے چوری کی تھی،مگر وہاں چوری کے بعد کوئی افراتفری نظر نہ آئی۔بلکہ لوگ جوق در جوق اس گھر میں احترام سے جاتے نظر آئے۔بغداد کے چور نے ایک شخص سے پوچھا کہ،”یہ کس کا مکان ہے۔

“اس نے کہا کہ،”لگتا ہے تم بغداد میں نئے ہو۔یہ بابرکت مکان ہمارے شیخ حضرت جنید بغدادی کا آستانہ علم ہے۔“ابن ساباط نے نام تو سن رکھا تھا مگر دیدار کی سعادت سے اب تک محروم تھا۔سوچا کہ آج اتفاقاً اس نیک و بزرگ ہستی کا دیدار ہی کر لوں۔اندر جا کر کمرے میں جھانکا تو دیکھا وہی رات والا عمر رسیدہ ساتھی مصلے پر بیٹھا درس دے رہا ہے۔

اور باادب لوگوں سے کمرا بھرا پڑا ہے۔
اتنے میں اذان ہوئی،سب نماز کے لئے مسجد جانے لگے۔بغداد کا مشہور اور ظالم چور ابن ساباط بے ساختہ روتے ہوئے آپ کے قدموں میں گر پڑا اور گزشتہ رات کی بد اخلاقیوں پر معافی کا طلب گار ہوا۔شیخ جنید بغدادی نے اسے زمین سے اُٹھا کر اپنے گلے سے لگا لیا۔اور مسکراتے ہوئے فرمایا۔”در توبہ ابھی بھی کھلا ہے۔

“ابن ساباط کی دنیا ایک لمحے میں بدل چکی تھی۔
وہ شیخ کے حلقہ وارادت میں داخل ہو گیا اور وہ ہاتھ کٹا شیطان و سابو بغداد کا شاطر چور شیخ جنید بغدادی کے زیر سایہ عبادت،ریاضت میں وہ نام لیا کہ اب اسے بغداد کے لوگ بغداد کے چور کے بجائے شیخ احمد ابن ساباط کے نام سے نہایت عزت و احترام سے جانتے تھے۔اسی ابن ساباط کو ایک مرد خدا جنید بغدادی کے حسن و اخلاق و کردار نے چند لمحوں میں بھی خاصان خدا کی صف میں داخل کر دیا اور بغداد کے چور کو چند لمحوں میں سیدھی راہ پر لانے کی کرامت کا چرچا زبان زد عام ہو گیا۔

Loading