Daily Roshni News

بلیو وہیل!۔۔۔(قسط نمبر1)

بلیو وہیل!

کیا واقعی کوئی گیم کسی انسان کی جان لے سکتا ہے؟

(قسط نمبر1)

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔بلیو وہیل)حالیہ کچھ ہفتوں سے ”بلیو وہیل“ اخباروں کی سرخیوں کا حصہ بنا ہوا ہے۔ اس کے علاوہ سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ پر اس کے بہت چرچے ہیں۔ بلیو وہیل چیلنج Blue Whale Challengeجسے کچھ لوگ موت کا کھیل Game of Death اور خودکشی کا کھیل Suicide Game بھی کہتے ہیں، ایک ایسا کھیل ہے جس کی جیت اس کے کھیلنے والے کو موت سے ہمکنار کر سکتی ہے۔ یہ گیم 2013 میں سب سے پہلے روس میں سامنے آیا۔ قریب چار سال میں اس نے دُنیا بھر میں 250 سے زیادہ لوگوں کی جان لے لی۔ صرف روس میں 130 سے زیادہ موتیں ہوئیں۔ اس کے علاوہ، امریکا سے لے کر پاکستان تک، کل بیس ممالک میں اس گیم کی وجہ سے خود کشی کے کئی واقعات سامنے آئے ہیں۔ کہا جارہا ہے کہ یہ ایک خونی گیم ہے جو اپنے صارف کو اپنے چنگل میں پھنسا کر اس سے الٹے سیدھے کام لیتا ہے ، ایسے کام جو ایک سمجھ نوجھ رکھنےوالا شخص نہیں کرتا لیکن یہ گیم اتنا طاقتور ہے کہ بہت سے لوگ کیا چھوٹے کیا بڑے اس کے چنگل میں پھنس کر رہ جاتے ہیں۔ اس کا آخری نتیجہ خود کشی کی شکل میں بھی نکل رہا ہے۔

بلیو وہیل گیم کے بارے میں انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا پر کئی طرح خبریں گردش میں ہیں۔ ان میں سے کئی خبریں ایسی ہیں، جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ بلیو وہیل کی وجہ سے دنیا بھر میں اموات نہیں ہوئیں، لیکن یہ ضرور ہے کہ اس کے متعلق خبریں بڑھا چڑھا کر پیش کی جارہی ہیں۔

اس گیم کے متعلق بعض لوگوں کے ذہنوں میں خوف وہر اس کے ساتھ کئی سوالات بھی ہیں۔ کیا کوئی گیم ، اس میں حصہ لینے والے کھلاڑی کو خود کشی کرنے پر مجبور کر سکتا ہے….؟ کیا ایسا ممکن ہے…..؟ آخر ایسا گیم ، ایسی جیت کس کام کی، جب جیتنے والے کی زندگی ہی نہ رہے….؟ ایسے گیمز کھیلنے والوں کی نفسیات کیا ہوتی ہے….؟ وہ کیا وجوہات ہیں

جو انہیں خود کشی پر مجبور کرتی ہیں ….؟

 بلیو وہیل گیم کیا ہے….؟؟

بلیو وہیل چیلنج نامی یہ انٹرنیٹ گیم 2013 میں روس کے دارلحکومت ماسکو سے تعلق رکھنے والے نفسیات کے طالب علم اور سافٹ ویئر ڈیویلپر فلپ بوڈیلکین Philipp Budeikin نے بنائی، سال 2011ء میں فلپ بوڈیکین کو کالج سے نکال دیا گیا تھا کیونکہ فلپ کی سرگرمیاں اور اس کے معمولات بہت عجیب و غریب تھے۔ اس کی یونیورسٹی میں حاضریاں کم تھیں۔ شعبہ نفسیات کے پروفیسر نے فلپ کا نام کالج انر ول منٹ سے خارج کر دیا تھا۔ یہاں سے فلپ بوڈیکین کو انسانی نفسیات کو استعمال کرتے ہوئے سٹے آلائیو“ کی طرز پر ایک ویڈیو گیم بنانے کا خیال آیا۔ اس نے ایک آن لائن گیم ”بلیو وہیل“ تخلیق کیا اور فیس بک کی طرز کی مشہور روسی سوشل نیٹ ورکنگ سائٹ VK پر اس کو شئیر کر دیا۔

 بلیو وہیل عام معنوں میں کمپیوٹر یا موبائل کی ویڈیو گیم کی طرح نہیں ہے بلکہ ایک نفسیاتی طور پر کھیلاجانے والا ایک چیلنج گیم ہے۔

اس سے قبل بھی سوشل میڈیا پر کئی طرح کے چیلنج گیم مثلا آئس بکٹ چیلنج، بک بکیٹ ، بوٹل فلپ ہاٹ پیپر ، ڈب میش، و غیر بے حد مقبول رہے ہیں، جن میں بل گیٹس سے لے کر کئی نامور فلمی شخصیات نے بھی حصہ لیا۔ لیکن یہ سب تفریحی اور مثبت سر گرمیوں والے گیمز تھے۔ اس کے برعکس فلپ نے بلیو وہیل گیم چیلینج کا استعمال منفی اور تخریبی طرز میں کیا۔ فلپ بوڈ یکلمین نے جب یہ گیم چیلنج تخلیق کیا تھا تو کھیلنے والوں کو ڈھونڈنے کے لیے VK نامی ویب سائٹ پر پلیئر ز کو انوائٹ کیا۔ vkontakte یا VK ایک سوشل نیٹ ورک سائٹ ہے بالکل فیس یک اور واٹس اپ کی طرح۔ جس طرح فیس بک پر کرو پس ہوتے ہیں ویسے ہی VK پر بھی بہت سارے گروپس ہوتے ہیں ان میں کچھ غمگیں گروپس بھی ہیں۔ یعنی اُن میں وہ لوگ آتے ہیں جو اپنی زندگی سے دکھی ہوتے ہیں اور ذہنی طور پر ڈپریس ہوتے ہیں، اسی سوشل سائٹ پر F57 نام کا ایک گروپ بھی تھا جس میں ایسے نوجوانوں کی ایک کثیر تعداد موجود تھی جو زندگی سے مایوس اور اپنے حالات سے نالاں تھی۔ فلپ نے اس گروپ سے کچھ مایوس نوجوانوں کو منتخب کیا اور انہیں اس ٹیم میں شامل کیا۔ اور اس کو 50 چیلنجر پر مبنی ڈیزائن دے کر پھیلا یا گیا۔ اس گیم کے شروعات کے چیلنجز نہایت دلچسپ ہوتے ہیں مگر آہستہ آہستہ وہ تشدد پسندانہ ہوتے چلے جاتے ہیں اور 50 ویں چیلنجز پر زندگی داؤ پر لگانے والے چیلنجز دیئے جاتے ہیں۔ یہ گیم بہت زیادہ مشہور ہوا تو گروپس سے باہر بھی پھیل گیا۔ اس کے بعد یہ نارمل ویب سائٹس پر بھی نظر آنے لگا۔

2015ء میں روس میں کئی نوجوانوں کی خود کشی کے واقعات سامنے آئے ۔ تحقیقات کے تانے بانے جوڑے گئے تو اس گیم تک پہنچے، روس کے اخبارات اور میڈیا میں اس گیم کے متعلق کھلبلی مچ گئی، گروپ پر پابندی لگائی گئی لیکن خود کشیوں کی واقعات کم نہ ہوئے اور بڑھتے بڑھتے 130 نوجوان زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ مئی 2017ء میں فلپ کو روس میں حراست میں لے لیا گیا۔

فلپ نے اس گیم کو بنانے کا مقصد کچھ یوں بیان کیا کہ وہ دنیا کو ایسے لوگوں سے پاک کرنا چاہتا ہے جن کی اس دنیا کو ضرورت نہیں۔ وہ اس منطق کو ”حیاتیاتی کچرا Biological Waste کا نام دیتا ہے۔ وہ کہتا کہ یہ لوگ ایک حیاتیاتی کچرا ہیں۔ یہ معاشرے کے لئے کوئی اہمیت نہیں رکھتے۔ یہ لوگ معاشرے کو نقصان پہنچارہے ہیں یا پہنچائیں گے۔ میں معاشرے کو ایسے لوگوں سے پاک کر رہا ہوں۔ فلپ کو گرفتار تو کر لیا گیا لیکن گیم ابھی بھی انٹرنیٹ پر دنیا بھر میں ایک کے بعد دوسرے ملک میں پھیل چکا ہے ۔ جن جن ملکوں میں خود کشی یا اس سے ملتے جلتے اقدامات رپورٹ ہوئے ان ملکوں میں

روس، اٹلی، ارجنٹائن، برازیل، چلی، چائنا، کولمبیا،پرتگال، امریکہ ، انڈیا اور کئی دیگر ممالک شامل ہیں اور اب یہ گیم پاکستان میں بھی اپنے پنجے گاڑ چکا ہے۔ اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ اگر یہ گیم اتنا ہی خطرناک ہے تو حکومت ایسے گیمز پر پابندی کیوں نہیں لگا سکتی ….؟ تو اس کا جواب ہے کہ بلیو وہیل عام کمپیوٹر یا موبائل گیم کی طرح نہیں ہے ، نہ ہی یہ کوئی موبائل ایپلی کیشن ہے جسے گوگل پلے اسٹور یا ایپل آئی او ایس سے ڈاون لوڈ کیا جاسکے ، نہ ہی اس کی کوئی ویب سائٹ ہے۔ دوسرے لفظوں میں کہا جائے تو بلیو وہیل گیم انٹرنیٹ پر کہیں موجود نہیں کیونکہ بلیو وہیل انٹر نیٹ نہیں بلکہ ڈارک ویب کا حصہ ہے۔

انٹرنیٹ کی عام دنیا سے پرے ایک ایسی آن لائن دنیا بھی موجود ہے جسے ”ڈارک ویب“ کہا جاتا ۔ ہے۔ ڈارک ویب دراصل دنیا بھر میں موجود ایسے ” کمپیوٹر صارفین کا نیٹ ورک ہے جن کا ماننا ہے کہ انٹرنیٹ کو کسی قانون کا پابند نہیں ہونا چاہیے اور نہ ہی

اس پر قانون نافذ کرنے والے اداروں کو نظر رکھنی چاہیے۔ ڈارک ویب ایک ایسا گمنام عالمی انٹر نیٹ نظام ہے جسے تلاش کرنا تقریباً ناممکن ہے اور اس کی یہی خصوصیت اسے سیاسی اور مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث افراد میں مقبول بناتی ہے۔

بلیو وہیل کے چیلنجز؟؟

ایک جرنلسٹ نے تجربہ کے لیے ایک جعلی پروفائل بنائی جس میں اس نے اپنی عمر پندرہ سال لکھی۔ وہ صرف ٹیسٹ کرنا چاہتا تھا کہ اس گیم سے جڑنے کے بعد ہوتا کیا ہے۔ لنک کے بعد اکاؤنٹ بنانے پر اسے ایڈمنسٹریٹر کا میسج ملا ہے۔ ایڈمنسٹریٹر مطلب اس گیم کو پھیلانے والوں میں سے ایک جسے ایڈ من کہتے ہیں۔ ایڈ من نے پہلے تو اسے انتباہ کیا کہ ایک بار اس کیم میں کھس گئے تو پھر واپس آنے کا کوئی راستہ نہیں۔ ایک بار تم نے گیم کھیلنا اسٹارٹ کر دیا تو پھر چاہ کر بھی چھوڑ نہیں پاؤ گے۔ ہر ٹاسک کو پوری لگن سے کرنا اور کسی کو پتہ نہیں چلنا چاہیے کہ تم یہ کیم کھیل رہے ہو ۔ جب وہ راضی ہو گیا تو ایڈ مین نے بتایا کہ آپ کو پچاس دن میں پچاس لیول یعنی ٹاسکس کو کمپلیٹ کرنا ہوتا ہے۔ ہر ایک دن میں ایک ٹاسک یعنی ،ایک چینج دیا جائے گا، جسے پورا کرنے کے بعد اس کی تصویر یا ویڈیو بھی شئیر کرنی ہے۔

ابتداء میں ہلکے پھلکے ٹاسک دیے جاتے ہیں جوبہت آسان اور تفریحی ہوتے ہیں جیسا کہ گرما گرم کافی دو گھونٹ میں پی جانا۔ صبح چار بجے اٹھنا، رات کو اکیلے میں ڈراونی فلم دیکھنا وغیرہ وغیرہ۔ آہستہ آہستہ یہ ٹاسک خطر ناک ہوتے جاتے ہیں جیسا کہ بلیڈ سے اپنے بازو پر ایک کٹ لگانا، یا سوئی کو ہاتھ میں چھبانا۔۔جاری ہے۔

بشکریہ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ  اکتوبر2017

Loading