بلیچ کریم اورمولوی صاحب🙈
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )میری اب تک کی سب سے ذیادہ پسند کی جانے والی مزاحیہ تحریر جیسے جتنی بار پڑھوں اتنی ہی ہنسی اتی ہے کچھ 😊نئے جڑنے والوں کے لیے ۔ہماری زندگی میں کبھی کبھی ایسے واقعات پیش آتے ہیں جن کو ھم بہت عرصہ گزر جانے کے باوجود بھی بھول نہیں پاتے کبھی کبھی کچھ ایسا ہو جاتا ہے کہ دل کرتا ہے کے ابھی کے ابھی زمین پھٹے اور انسان اس میں سما جائیں ایسا ہی ایک دلخراش واقعہ اوائل نوجوانی میں پیش آیا جب میں ایسی ہی تھی (خیر وقت میرا کچھ زیادہ بگاڑ نہیں پایا) چلتی تو رستے میں چیزیں خود آ آ کر میرے پیروں سے ٹکراتی ایک چیز رکھنے لگتی تو دوسری کا گرنا فرض ہو جاتا کوئی بھی کام سیدھا کرنے کی کوشش کرتی تو وہ کام مجھے بد نام کرنے کے لئے خود بخود الٹا ہو جاتا رونے والی باتوں پر ہنستی رہتی اور ہنسنے والی باتوں پر رو پڑتی جو بتانا ہوتا وہ چھپا جاتی اور جو چھپانا ہوتا سارے جہان کو بتاتی پھرتی آپ کی باجی میں یہ تمام صلاحیتیں پیدائشی طور پر انسٹال تھیں جن پر میں نے کبھی غرور نہیں کیا🙈🙈🙈
ہاں تو قصہ کچھ یوں ہے کے جب میرے دونوں بھتیجے جو بالترتیب چھ اور تین سال کے تھے تو گلی کی مسجد کے پیش امام جو سوات سے اۓ ھوۓ تھے ان دونوں کو مغرب کے بعد بیٹھک میں قرآن پاک پڑھانے آتے تھے دونوں بھتیجے بہت شریر تھے اور آوارہ گردی کے شدید شوقین بھی اور ان دنوں بچوں کو اغوا کرنے کے کافی واقعات پیش آ رہے تھے اس لیے میری ڈیوٹی تھی کے دروازے کے اِس پار بیٹھ کر دروازے کے اُس پار کی آواز پر دھیان رکھنا ہے کہ جیسے ہی مولوی صاحب سبق پڑھا کر باہر نکلے تو لپک کر باہر والے دروازے کی کنڈی لگا دینی ہے تاکہ بچے باہر نہ نکلے کیونکہ اگر وہ ایک بار باہر نکل جاتے تو ان کو پکڑ دھکڑ کر لانا مشکل ہوتا تھا اور اندر آ کر کافی دیر تک روتو راگ جاری رہتا تھا😭😭😭
اگلی صبح میری سیکنڈ ایئر کی فیر ویل پارٹی تھی اور میں دروازے کے اِس پار آئینہ لے کر اپنے منہ پر بلیچ کریم لگا رہی تھی بچوں کے سبق پڑھنے کی آواز میرے کانوں میں باخوبی آرہی تھی ہمارا باہر والا دروازہ چَرچراتا تھا اور اس کی چرچراہٹ سے پتہ چلتا تھا کے مولوی صاحب اب باہر نکل گئے ہیں یعنی ایکشن کا ٹائم شروع ہو گیا ہے لیکن اس دن آپ کی باجی کی شاید پِٹھی آئی تھی یا یہ سب یوں ہی تقدیر میں لکھا ہوا تھا چہرے اور گردن پر بلیج لگ چکی تھی اچانک مجھے دروازے کے چَرچرانے کی آواز آئی میں ایک سو اسی کی اسپیڈ سے بیٹھک میں داخل ہوئی اور باہر کے دروازے کی کنڈی لگا کر جیسے ہی پلٹی تو مانو بدن میں لہو نہیں رہا اور چراغوں میں روشنی نہ رہی مولوی صاحب صوفے پر براجمان تھے😮😮😮
مولوی صاحب کا تراہ نکل چکا تھا کیونکہ ایسی رنگین اور سنگین صورتحال ان کے ساتھ شائد کبھی پیش نہیں آئی تھی اور شائد مولونی جی بھی بلیچ نا لگاتی ھوں میرے گلے میں نہ ڈوپٹہ تھا نہ پیروں میں جوتی میرا منہ دیکھ کر بچوں نے الگ چیخیں چھوڑ دی تھی کہ ان بیچاروں نے کبھی کسی کو بلیچ لگائے نہیں دیکھا تھا یہ کارنامہ پہلی بار ان کی پھوپھی ہی انجام دے رہی تھی
میں پتھر کا بت بن چکی تھی لیکن با اواز بلند استغفراللہ استغفراللہ کی اواز نے مجھے یاد دلایا کہ یہاں سے بھاگنا ہے تاکہ مولوی صاحب اپنا رہا سہا ایمان بچا کر باہر نکل سکیں😜😜😜
اور کمرے کے اندر ا کر میں اور بھتیجے زمین پر لوٹ پوٹ ہو کر اتنا ہنسے کہ جس کی کوئی انتہا نہیں تھے اور ہمیشہ کی طرح یہاں بھی غلطی میری نہیں تھی مولوی صاحب نے چھوٹے بھتیجے سے کہا تھا ذرا دروازے سے جھانک کر دیکھو مسجد کے سامنے چار پانچ آدمی کھڑے ہیں اور پھر دو دن تک مولوی صاحب نہیں اۓ شائد بلیچ کریم والی چڑیل کو دیکھ کر بخار چڑھ گیا ھو پھر تیسرے دن آۓ بھتیجا اندر ایا اور کہنے لگا قاری صاحب کہہ رہے ہیں جب مجھے جانا ہوگا میں آواز لگاؤں گا میں جا رہا ہوں اور میں ایک بار پھر نان اسٹاپ ہنسنے لگی اور اس واقعے کے پیش آنے پر امی نے مرزا کی چپل سے جو عزت افزائی کی وہ ایک الگ داستان الم ہے😢😢😢
اب تو مولوی صاحب کافی بوڑھے ہو گئے ہیں میں امی کی طرف جاؤں تو کبھی کبھار گلی میں نظر آ جاتے ہیں اور میں اج بھی وہ سب یاد کر کے ہنسنے لگتی ھوں اور میرا بڑا دل کرتا ہے کہ میں انہیں بتاؤں یہ وہی لڑکی ہے جو اب کافی تمیز دار پروقار طرہ دار سمجھدار اور پردے دار ہو گئی ہے😊😊😊