Daily Roshni News

بچوں میں بگاڑ کیوں؟

بچوں میں بگاڑ کیوں؟

بشکریہ روحانی ڈائجسٹ  جنوری 2022

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔بچوں میں بگاڑ کیوں؟)اولاد کی تربیت کے حوالے سے سلسلہ عظیمیہ کےامام قلندر بابا اولیاء کا ارشاد ہے : قیامت کے روز والدین سے اللہ تعالی یہ نہیں پوچھیں گے کہ تم نے اپنی اولاد کو کیا کھلایا ہے…. کیا پلایا ہے…. اور کیسا لباس پہنایا ہے۔ اللہ تعالیٰ یہ پوچھیں گے کہ تم نے اولاد کی تربیت کیسی کی؟

اولاد کی اچھی تربیت کے لئے ضروری ہے کہ اپنے بچوں کو بات بات پر ڈانٹنے، جھڑ کنے اور برا بھلا کہنے سے گریز کیا جائے ، ان کی شرارتوں، کوتاہیوں پر بیزار ہونے اور غصے کا اظہار کرنے کے بجائے، محبت کے ساتھ اُنہیں سمجھائیے کہ وہ اچھی باتیں اختیار کریں….. کسی بچے کا جھوٹ بولنا اس کے والدین کو بہت برا لگتا ہے ، مگر وہ اس بات پر غور نہیں کرتے کہ آخران کا بچہ جھوٹ بول کیوں رہا ہے ….؟ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ بچہ آپ کے پاس آتا ہے اور اپنی غلطی کا اعتراف کرتا ہے ، اس پر اسے بہت زیادہ ڈانٹ ڈپٹ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ جب بچہ یہ دیکھتا ہے کہ اسے سچ بولنے پر سرزنش کا سامنا ہے، تو پھر وہ غلط بیانی شروع کر دیتا ہے۔ اس لیے والدین کو چاہیے کہ وہ بچوں کی چھوٹی غلطیوں کو معاف کریں، یا ان کے غلط کام پر ناراضی ظاہر کریں، تو ساتھ ہی سچ کہنے کو بھی سراہیں ، تاکہ اسے لگے کہ چلو اس نے غلطی یا غفلت کی، جھوٹ تو نہیں بولا اور سچ بولنا اچھی بات ہے۔

کبھی کچھ منفی جذبات بھی بچوں میں پنپنے لگتے ہیں، جیسے حسد کا جذبہ ، اسے ایک نظر نہ آنے والی آگ سے تعبیر کیا جاتا ہے، جو انسان کو اندر سے جلا کر رکھ دیتی ہے۔ اس لیے حسد سے دور ہی رہنا چاہیے اور پھر ماں ہوتے ہوئے ، تو آپ یہ کبھی نہیں چاہیں گی کہ آپ کا بچہ حسد کی آگ میں اتنا چلے کہ اس کی اپنی شخصیت مسخ ہو جائے، مگر افسوس یہ ہے کہ بعض والدین نہ چاہتے ہوئے بھی ایسا کر لیتے ہیں ، اس طرح وہ خود ہی اپنے بچوں میں حسد کی عادت ڈال دیتے ہیں۔ ظاہر ہے وہ براہ راست تو حسد کرنا نہیں سکھاتے، لیکن بالواسطہ یہ چیز ان کے ذہن میں انڈیل دیتے ہیں۔ وہ اس طرح کہ وہ بہن، بھائی، دوستوں اور کزن وغیرہ سے اپنی اولاد کا اتنا موازنہ کرتے ہیں کہ اس بچے کی اپنی ذات کہیں کھو کر رہ جاتی ہے۔ اس لیے اپنے بچے کا موازنہ کرنے سے پہلے یہ سوچ لیں کہ آپ اپنے بچے کی شخصیت کو مسخ تو نہیں کر رہیں۔ موازنہ ضروری ہو تو اس میں توازن رکھیں۔ اور اسے اس ڈھب پر رکھیں کہ وہ شوق کا کام دے۔ بچے کے جذبات کو گھائل نہ ہونے دیں۔

جب بچے کو چوٹ لگتی ہے ، ا ہے ، تو ہم اسے ہمت دلانے کے لیے یہی کہتے ہیں کہ بیٹا بہادر بنو ….! آپ تو میرے بہادر بچے ہونا، اٹھو جلدی شاباش ….! یعنی بہادر ہونا اچھی بات ہے، یہ بات بچپن سے بتائی جاتی ہے۔ بزدل ہونا اچھا نہیں اور اپنے بچے کو بزدل بنانا، تو والدین کبھی نہیں چاہتے، مگر کبھی کبھاریوں بھی ہوتا ہے کہ والدین اپنے بچے کو خود بزدل بنا دیتے ہیں، جیسے اگر کسی کام کےدوران بچے کو کسی کام میں کوئی مشکل یار کاوٹ پیش آرہی ہو تو وہ فوراً آگے بڑھ کر وہ کام کر دیتے ہیں۔ ایسے میں جب وہ زندگی میں کسی رکاوٹ کا سامنا کرتا ہے، تو اسے یوں محسوس ہوتا ہے کہ اس میں اتنی قابلیت ہی نہیں کہ وہ اپنی راہ میں آنے والی کسی رکاوٹ کو اپنے آپ دور کر سکے۔ اس لیے والدین کو چاہیے کہ ہمیشہ بچے کو اس بات کا موقع دیں کہ وہ اپنی راہ میں حائل رکاوٹیں پہلے خود دور کرنے کی کوشش کرے، تاکہ مستقبل میں اس بچے کواپنے زور بازو پر بھروسا ہو سکے۔ بچوں کو والدین اور پھر ان کی زندگی میں آنے والے دیگر لوگ اس بات کا احساس دلاتے ہیں کہ ان کی اپنی کوئی رائے نہیں، مگر نہ جانے کیوں جب بچے اپنی ذات کی نفی کرتے ہیں، تو وہ بھی والدین کو بہت برا لگتا ہے۔ اس لیے کم از کم اس معاملے میں انہیں چاہیے کہ زندگی میں انہیں اتنی نصیحت کریں، جتنا ضروری ہے اور زیادہ وقت اس بات کی کوشش کریں کہ وہ زندگی میں جو کر رہے ہیں یا کرنا چاہتے ہیں ، اس میں ان کا ساتھ دیں۔ ان کا حوصلہ بڑھائیں، تاکہ وہ کام یاب ہو تو اسے اپنی ذات میں اعتماد ہو۔

اکثر و بیش تر ایسا ہوتا ہے، محفل یا دعوت میں بچہ کوئی غلط بات کہہ دے، تو والدین وہیں ٹوکنا اور ڈاٹنا شروع کر دیتے ہیں، جس سے اس بچہ کو یہ محسوس ہوتا ہے کہ اس کے علاوہ اس دنیا میں سب صحیح ہے۔ والدین کو چاہیے کے بچوں کو کبھی بھی لوگوں کے سامنے خواہ ان میں ان کے دوست اور بھائی بہن تک شامل ہیں، روک ٹوک کا نشانہ نہ بنائیں۔ اگر ان سے کوئی غلطی ہو گئی ہے، تو بعد میں اکیلے میں انہیں یہ بات سمجھا دیں کہ ان سے یہ غلطی ہوئی ہے اور وہ کوشش کریں کے آئندہ ایسانہ ہو۔

بعض والدین بچوں کو خریداری کے لیے بازار لے جانا ضروری نہیں سمجھتے اور خود جا کر بچوں کے لیے ان کی چیزیں لے آتے ہیں، مگر جب وہ چیزیں بچوں کو دیتے ہیں، تو ان میں ان کی دل چسپی نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے اور وہ دوسروں کی چیزوں کو پسند کرتے ہیں۔ بچوں کا یہ انداز والدین کو پسند نہیں آتا، در اصل بعض والدین خود بچوں کو چیزیں پسند کرنے کی اجازت نہیں دیتے، اس لیے بچوں کو دوسروں کی چیزوں میں زیادہ دل چیپی ہو جاتی ہے۔ والدین کو چاہیے ہے کہ کہ : بچوں کو زیادہ نہ سہی، لیکن کبھی کبھی خریداری پر ساتھ لے کر جائیں، تاکہ ان کی اپنی پسند اور ناپسند ہو اور وہ اپنی خریدی ہوئی اشیا کو ہی

استعمال کرنے کو ترجیح دے۔ جب بچے بد تمیزی کرنے لگتے ہیں، تو اکثر والدین اس کی اصل وجہ دوستوں اور باہر کے ماحول وغیرہ میں ڈھونڈتے ہیں، مگر اس کے پیچھے والدین کا اپنا ہی رویہ بھی ہو سکتا ہے ، جب بچے اپنے بات والدین سے کہتے ہیں اور انہیں جواب اس انداز میں نہیں ملتا، جس انداز میں وہ توقع کر رہے ہوتے ہیں، تو پھر انہیں یہی محسوس ہوتا ہے کہ شاید بد تمیزی کرنے پر انہیں توجہ مل سکے۔ اس کا بہترین حل یہی ہے کہ والدین بچوں کی بات کو توجہ سے سنیں، تاکہ وہ غصہ اور بد تمیزی کے بجائے شائستگی اور تمیز سے بات کریں۔

جب آپ اپنے بچے کے احساسات کو اہمیت نہیں دیتے، تو رد عمل میں بچہ بھی اسی ڈگر پر گام زن ہو سکتا ہے۔ اس لیے اس حوالے سے احتیاط کی ضرورت ہے، اس کی باتوں کو منطقی اعتبار سے اہمیت دینے کے بجائےاس کے لیے اہم باتوں کو جگہ دینا ضروری ہے، کیوں کہ بچوں کا اپنا ذہن اور مزاج ہوتا ہے۔

بشکریہ روحانی ڈائجسٹ  جنوری 2022

Loading