Daily Roshni News

بچوں  کا  خوف زده ہونا ، انہیں نفسیاتی مریض بنا سکتا ہے ….؟

بچوں  کا  خوف زده ہونا ، انہیں نفسیاتی مریض بنا سکتا ہے ….؟

بشکریہ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ جنوری2024

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز نیوز انٹرنیشنل )بچوں کی تربیت میں یہ نکتہ پیش نظر رکھنا بہت ضروری ہے کہ خوف زدہ بچے بڑے ہو کر کئی قسم کے نفسیاتی مسائل اور خود اعتمادی کی کمی میں مبتلا ہو سکتے ہیں۔

بچپن کے دور میں بچے کے ذہن پر کسی بات کا خوف مسلط ہو جائے تو عموماً اس کی ساری زندگی اس خوف میں ہی بسر ہوتی ہے۔ خوف کے ماحول میں پرورش پانے والے بچے زندگی کے ہر موڑ پر ذراذراکی بات پر خوف زدہ ہو جاتے ہیں۔

بچوں کی تربیت میں یہ نکتہ پیش نظر رکھنا بہت ضروری ہے کہ خوف زدہ بچے بڑے ہو کر کئی قسم کے نفسیاتی مسائل اور خود اعتمادی کی کمی میں مبتلا ہو سکتے ہیں۔

بچوں کو مناسب آزادی اور اچھا ماحول فراہم کرنا والدین کا اولین فرض ہے۔ بچوں کو کچھ اختیارات بھی دیں تاکہ وہ انہیں استعمال کر کے اپنے اندر خود اعتمادی پیدا کر سکیں۔ صحت مند تربیت سے بچوں میں ڈراؤنے خواب دیکھنے کا امکان بھی کم ہو جاتا ہے۔

بعض بچے بہت زیادہ حساس یا ڈرپوک ہوتے ہیں۔ ذرا سی بات یا غلطی پر ان کے ذہن خوف سے بو جھل ہو جاتے ہیں ان کے دل میں طرح طرح کے وہم اور خدشے پیدا ہونے لگتے ہیں۔ بچوں سے بعض اوقات پیسے کھو جاتے ہیں یا ان سے کوئی چیز ٹوٹ جاتی ہے تو ماں باپ بہت زیادہ مار پیٹ کرتے ہیں۔ والدین یا گھر کے بڑوں کا یہ رویہ بچے کو کسی بھی وقت بہت زیادہ خوف زدہ کر سکتا ہے۔ والدین کار و یہ ہمدردانہ اور شفقت بھرا ہونا چاہیے۔ والدین اور بڑوں کا تھوڑا بہت خوف بچے کے دل میں ضروری ہے تاکہ وہ بے راہ روی اور غلط قسم کی حرکتوں کا مر تکب نہ ہو سکے۔ بچہ اگر کسی خوف میں مبتلا ہو گیا ہو تو اس کا

ازالہ کچھ مشکل نہیں۔ بچے کو کھیل کا سامان اور موزوں ساتھی تلاش کرنے میں مدد دیجیے اس کے جائز تقاضوں کا احترام کیجیے۔

آرام دہ ماحول اور پر مسرت فضاء میں پلنے والے بچوں کو ڈراؤنے خواب کم دکھائی دیتے ہیں۔ وہ بات بات پر لوگوں سے خوف زدہ نہیں ہوتے۔ نہ ہی مار پیٹ یا پابندیوں کے خوف سے گھروں سے بھاگتے ہیں۔ گھروں سے بھاگنے والے بچے اکثر خوف اور تشدد کے تحت ایسا کرتے ہیں۔ ذرا سا خوف ان کی ساری زندگی کو تباہ کر دیتا ہے۔ بسا اوقات بچے کو یہ محسوس ہونے لگتا ہے کہ وہ گھر اور اسکول کے ماحول میں بندھا ہوا ہے۔ خوف کا احساس اور مایوسی بھرا ماحول بچے کی شخصیت کی مناسب نشو و نما کو بہت متاثر کرتا ہے۔ بے جا پابندیوں کے باعث انہیں یہ سہولت میسر نہیں آتی کہ وہ آزادی سے کھیل سکیں۔ قدم قدم پر ان کو یہ دھڑکا لگارہتا ہے کہ اگر یہ کھیل کھیلا تو والدین کی جھڑکیاں کھانی پڑیں گی۔

کچھ بچے بزرگوں کے سخت رویے کی وجہ سے نفسیاتی مسائل میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ مثلاً بعض بچے نیند میں بڑ بڑانے لگتے ہیں یا بعض بچے ڈراؤنے خواب دیکھنے لگتے ہیں۔ کچھ بچوں کا پیشاب بستر پر خطا ہو جاتا ہے۔

بچوں کو اس تشویش ناک صورت حال سے محفوظ رکھنے کے لیے والدین کو چاہیے کہ وہ محبت شفقت کا دامن ہاتھ سے نہ جانے دیں اور نہ ہی اس قسم کا رویہ اختیار کریں جس سے بچہ خوف زدہ رہے۔

ماں باپ کے باہمی جھگڑے بھی بچوں میں خوف پیدا کرتے ہیں ۔ والدین کے درمیان چیخ و پکار بچے کو ذہنی طور پر متاثر کرتی ہے۔ ایسے بچے کی کئی صلاحیتیں پروان نہیں چڑھ پاتیں۔ گھر میں لڑائی جھگڑے کے ماحول میں پلنے والے بعض بچوں کے ذہن میں دوسروں پر عدم اعتماد، نفرت یا بدلہ لینے کے جذبات پروان چڑھتے ہیں۔ والدین کو چاہیے کہ اپنے جھگڑے کا اظہار یا توڑ پھوڑ، برتنوں کا پھینکنا بچوں کے سامنے بالکل نہ کریں۔ اس طرح خوف بچے کے ذہن پر بری طرح مسلط ہو جاتا ہے۔

کئی مائیں بچوں کو باپ کی سخت عادت یا جن بھوت کی باتیں کر کے خوف زدہ کرتی رہتی ہیں۔ زندگی کے ابتدائی پانچ سال میں بچے کو خوف و ہر اس کے ماحول سے دور رکھنا ضروری ہے۔ طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ تین برس کی عمر تک بچے کی جذباتی زندگی کی بنیادیں مضبوط ہو جاتی ہیں۔ اس عمر تک والدین جس انداز میں چاہیں، بچے کو ڈھال لیں۔ یہ وہ عمر ہے کہ اگر والدین چاہیں تو بچے کو متوازن شخصیت والے نڈر بالغ کی صورت پروان چڑھالیں، یا ایک ایسا غصیلا وہمی اور بزدل فرد بنالیں جس کی تمام زندگی طرح طرح کے خوف اور ڈر سے بھری ہو۔

عالمی ادارہ صحت کے زیر اہتمام بچوں کی نفسیات پر ایک تحقیق کی گئی۔ اس کا خلاصہ کچھ یوں ہے کہ کھلبلی مچانے والے واقعات بچوں کو بچپن میں بے پناہ نقصان پہنچاتے ہیں اور ان کی آئندہ زندگی میں بھی مسرت، مطابقت توازن اور کامیابی کے امکانات کو کم کر دیتے ہیں۔

والدین کو جاننا چاہیے کہ بچوں کو بے جا خوف سے نجات دلانا ابتدائی تربیت کا اہم پہلو ہے۔ والدین کے غلط رویوں کے باعث بچے کے دل میں کئی خوف گھر کر لیتے ہیں۔ بعض والدین بچے کو منع کرنے کی غرض سے کہہ دیتے ہیں کہ خبردار ایسا کیا تو جن پکڑ لے گا۔ بعض اوقات بچے کھیلتے کھیلتے کسی ایسی چیز کو پکڑ لیتے ہیں جس کے ٹوٹنے کا اندیشہ ہوتا ہے تو کچھ گھروں میں ایک دم چیخ مار کر بچے کو روکنے کی کوشش کی جاتی ہے اور خوف ناک پیچ کے باعث وہ چیز خود بخود گر کر ٹوٹ جاتی ہے۔ اس سے بچہ مزید خوف زدہ ہو جاتا ہے۔

ماں باپ یہ کام پیار اور آہستہ لہجے میں بھی کر سکتے ہیں۔ بعض مائیں کسی عام سی بات پر ناراض ہو کر بچے کو بری طرح مارتی ہیں۔ اس طرح بچے کو جسمانی تکلیف ہوتی ہے اور بچے اس قسم کی تکلیفوں سے بہت گھبراتے ہیں۔ ماں کو یہ سوچ کر سکون تو آجاتا ہے کہ بچہ اس پٹائی سے شرارت سے وقتی طور پر باز آ گیا ہے، مگر اس کو شاید یہ معلوم نہیں ہوتا کہ اس طرح بچے کی جذباتی زندگی بگڑ کر رہ جاتی ہے۔ بچوں کے بیشتر خوف اسی طرح کی نھی ننھی باتوں سے پیدا ہوتے ہیں۔ گھر کے دیگر افراد اور ملازمین کو یہ ہدایت کرنی چاہیے کہ وہ بچے کو جن، بھوت، چڑیل وغیرہ سے نہ تو دھمکیاں دیں، نہ ہی کچھ بتائیں۔ اس سے ان میں خوف کے علاوہ تو ہمات کی بنیاد پڑ جانے کا خدشہ ہوتا ہے۔

خوف کے باعث کئی ذہنی بیماریاں بھی جنم لے سکتے ہیں۔ بچپن کے خوف بالغ زندگی میں دیوانگی کی صورت میں بھی نمودار ہو سکتے ہیں۔ بچوں کو حسب ضرورت کسی حد تک تنبیہ ضرور کیجیے، کیونکہ یہ بہت ضروری ہے کہ نقصان دینے والے بعض مشاغل اور ضرور رساں اشیاء پر بے سوچے سمجھے ہاتھ ڈال دینے سے محفوظ رکھنے کے لیے بچے کو مناسب انداز میں تنبیہ کرنا ضروری ہے۔ بجلی کے تاروں، ریڈیو، ٹیوی کے سویچ وغیرہ کو چھونا۔ زہر یلے جانور کی غلاظت سے دور رہنا بچوں کے لیے بہت ضروری ہے۔ ان تمام باتوں کو آسان فہم زبان میں بچوں کو سمجھایا جائے کہ ان کو چھونا نہیں چاہیے۔ اس قسم کی تربیت سے بچوں میں صحیح حالت سمجھنے کی فراست پیدا ہو جاتی ہے۔

بشکریہ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ جنوری2024

Loading