“بہاری کواب”
تحریر: سیدہ شاذیہ مقصود
ہالینڈ(ڈیلی روشنی ن۔۔۔بہاری کواب۔۔۔ تحریر: سیدہ شاذیہ مقصود)یوز انٹرنیشنل اے بہن بس بھی کر دو کتنے مسالے پیسو گی؟ پڑوس سے رافعہ سفید رنگ کا دھاگہ واپس کرنے آئی تھی۔ جب دوگھنٹے پہلے وہ یہ دھاگہ لے کر گئی تھی جب بھی شازمہ مسالے چھیل کاٹ رہی تھی اور اب بھی اس کا کام ختم نہیں ہوا تھا۔ بس اب یہ خشخاش رہ گئی ہے اب ان سب کو پیسنا ہے۔ اس نے مصروف انداز میں جواب دیا۔ ابھی سے یہ سب کیوں پیس رہی ہو بقر عید تو کل ہے۔ ہم تو ہاتھ کے ہاتھ کام کرتے ہیں جو چیز پکتی ہے اسی حساب سے فٹافٹ مسالہ تیار کیا اور گرائنڈر میں پیس لیا بس۔ یہ تم کس خوشی میں انیس سو ساٹھ کی ہیروئن بنی ہوئی ہو؟۔ رافعہ نے اسے نیچے والےکیبنٹ سے سل اور بٹہ نکالتے دیکھا تو پوچھا جسے شازمہ اب سنک میں رکھ کر مل مل کر دھو رہی تھی۔ بھئی یہ کوئی عام مصالحے نہیں ہیں یہ سب بہاری کباب کے مصالحے ہیں اور سب کے سب سل پہ پستے ہیں۔ ابا بہاری کباب کے مصالحوں پہ کبھی کوئی کومپرومائز نہیں کرتے پتہ تو ہے تم کو۔ اس نے معصوم سی شکل بنا کر اپنی دوست کو جواب دیا۔ ہاں یہ تو ہے میں سالوں سے تمہارا روٹین دیکھ رہی ہوں لیکن پھر دوسرے دن جو تمہارے گھر سے اس بہاری کباب کی خوشبو آتی ہے تو بس نہ پوچھو اس کے دھوئیں سے بھی مجھے تو عشق ہے۔ رافعہ نے چٹخارے لیتے ہوۓ جواب دیا۔ ہم لوگ تو پورا سال تمہارے گھر کے بہاری کباب کا انتظار کرتے ہیں اتنے زبردست کباب کم از کم میں نے تو کہیں نہیں کھاۓ مطلب آؤٹ اسٹینڈنگ، نمک مرچ مصالے سب کچھ ایک دم بیلنس ہوتا ہے۔ گلے ہوۓ اتنے کہ دادی بھی آرام سے کھا لیتی ہیں مطلب کمال ہے واقعی۔ رافعہ بہاری کباب کی تعریفوں کے پل باندھ رہی تھی جسے شازمہ فخر سے مسکراتے ہوۓ سن رہی تھی۔ اور یہ واقعی حقیقت تھی۔ اس نے جب سے ہوش سنبھالہ تھا عید کے دوسرے دن ان کے گھر بہاری کباب بنتے تھے۔ ویسے تو خاندان کے اور گھروں میں بھی اسی ترکیب اور اجزاء کے ساتھ یہ ڈش پورے اہتمام سے بنتی تھی اور ذائقہ دار ہوتی تھی لیکن جو بہاری کباب ابا بناتے تھے ویسا ذائقہ واقعی کمال تھا لاجواب تھا خاندان کے سب لوگ اس بات کے معترف تھے۔اسی لیے خاندان کے بہت سارے لوگ خاص طور پہ دوسرے دن آتے تھے۔ ابا بہت محنت اور توجہ سے پارچے بناتے بقول انکے پارچے جتنے پتلے ہونگے کباب اتنا ہی اچھا بنے گا۔ کباب کا مصالہ ہمیشہ سل پہ پیسا جاتا اور یہ نیک کام ہمیشہ امی انجام دیتی تھیں۔ جب ننا کے گھر کباب لگتا تھا تب بھی یہ ڈیوٹی امی بڑی خندہ پیشانی سے نبھاتی تھیں۔ ایک بار شازمہ نے امی سے پوچھا تھا کہ اتنی محنت کیوں کرتی ہیں اتنے سارے مصالے ایک ایک کرکے سل پہ پیسو اس سے اچھا ہے کہ بس پانچ منٹ میں گرائنڈر میں پیس لیں ابو کو کیا پتہ؟ شازمہ نے امی کو شارٹ کٹ سمجھانے کی کوشش کی جس پہ امی مسکرائیں تھیں۔ بات جلدی اور دیر کی نہیں طریقہ کار کی ہے اگر مصالحے میں پانی زیادہ ڈال دیا تو ساری ترکیب تو یہاں سے ہی گڑبڑ ہوجاۓ گی اور وہ رزلٹ نہیں ملے گا جو ہونا چاہئے۔ اب اچھی چیز کے لئے اتنی محنت تو بنتی ہے اور بعد میں یہ محنت شازمہ اور اس کی بہنیں کرتی تھیں۔صبح سے یہ ساری تیاری شروع ہوتی تھی اور رات گئے کباب لگنا شروع ہوتا اور اس کار خیر میں گھر کے سب افراد مرد اور خواتین حصہ لیتے۔ سب اپنی اپنی بساط بھر کام کرتے مصالوں کی مکسنگ بھی ایک بہت دلچسپ سرگرمی ہوتی اور یہ مکسنگ چار بجے تک لازمی ہوجاتی تاکہ کم از کم پانچ چھ گھنٹے مصالحہ گوشت پہ لگ کر اندر تک جذب ہو جاۓ۔ گوشت کے نفیس پارچوں پہ لگے مزیدار مصالحوں کو چکھنے کا کام زیادہ تر شازمہ کے حصے میں آتا اس پر رونق اور ایکٹیوٹی سے بھر پور دن کا سب ہی کو سارا سال انتظار رہتا۔ پانچ چھ گھنٹوں بعد بڑے سے پتیلے کا ڈھکن اٹھتا تو گوشت کے پارچوں پہ لگا تمام مصالہ اچھی طرح جذب ہو چکا ہوتا اور مصالحے میں ڈالا گیا سر سوں کا تیل خود بخود اوپر آجاتا۔ ابا کے بقول یہ اس بات کی نشانی ہے کہ بس اب یہ کباب لگنے کے لئے بلکل تیار ہے۔ اینٹوں کو جوڑ کر اس پہ کوئلے دہکاۓ جاتے اور جیسے ہی سیخوں کا پہلا بیچ اترتا سب اس کی پذیرائی پورے ادب و احترام سے کرتے، بہاری کباب کو اور بہاری کباب بنانے والے کو دادوتحسین کے میڈل پہناۓ جاتے، ہر طرف واہ واہ ہوتی بہاری کباب کی بھی اور ابا کی بھی اتنی تعریفیں سن کر ابا کی ساری تھکن اتر جاتی اور ان کی آنکھوں کی چمک کچھ اور بھی بڑھ جاتی۔ سب سے زیادہ محنت پارچوں پہ لگتی جو ابا بناتے۔
بقر عید کی سب سے زیادہ محنت طلب ڈش “بہاری کباب” ابا کی اسپیشلٹی جو کہ سب کی طرح انکی بھی پسندیدہ ڈش تھی۔ ہمارے سارے معصوم بزرگوں کی طرح وہ بھی کباب کو کواب کہتے ہم سب باری باری ان سے بہاری کباب کی تعریف کرتے اور وہ مسکراتے ہوۓ کہتے بہاری کواب کا اتنا عمدہ ٹیسٹ کہیں اور ملے گا؟ الحمدللہ یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے بس ہوا یوں کہ یہ ذمہ داری نئی نسل نے سنبھال لی ہے۔ ویسے آپس کی بات ہے اپنے معصوم بڑوں کی طرح ہم بھی اپنی پسندیدہ ڈش کو بہاری کواب ہی کہتے ہیں۔
Bihari kabab is indeed one of the best and worldwide famous dish of bihari community
ہماری ایک پہچان بہاری کواب بھی ہے جس کا کوئی مقابلہ نہیں الحمدللہ💕