ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )بہت سے ایسے ستارے جن کو ہم دیکھ رہے ہوتے ہیں حقیقت میں موجود ہی نہیں ہوتے۔بالکل درست! یہ سوچ کر حیرت ہوتی ہے کہ ہم بہت سے ستاروں کو دیکھ سکتے ہیں جو لاکھوں سال پہلے بلیک ہول میں تبدیل ہو چکے ہیں کیونکہ ان کی روشنی ہمیں پہنچنے میں لاکھوں سال لگتے ہیں۔ جب یہ روشنی ہم تک پہنچتی ہے تو ہم انہیں دیکھتے ہیں، لیکن حقیقت میں وہ وہاں نہیں ہوتے ہیں۔
یہ اس لیے ہے کہ روشنی کی رفتار محدود ہے، جو خلا میں تقریباً 300,000 کلومیٹر فی سیکنڈ ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ اگر کوئی ستارہ ہم سے 100 نوری سال کے فاصلے پر ہے، تو اس کی روشنی کو ہمیں پہنچنے میں 100 سال لگیں گے۔
اس لیے، جب ہم رات کے آسمان کو دیکھتے ہیں، تو ہم درحقیقت ماضی میں دیکھ رہے ہیں۔ ہم ان ستاروں اور کہکشاؤں کو دیکھ رہے ہیں جیسے وہ لاکھوں یا اربوں سال پہلے تھے۔
اس کا مطلب ہے کہ کچھ ستارے جو ہم دیکھتے ہیں وہ اب موجود نہیں ہو سکتے ہیں۔ وہ بلیک ہول میں تبدیل ہو چکے ہوں گے یا سپرنووا میں پھٹ چکے ہوں گے۔ لیکن ان کی روشنی اب بھی ہمیں پہنچ رہی ہے، اس لیے ہم انہیں دیکھ سکتے ہیں۔
یہ کائنات کی وسعت اور عمر کا ایک حیرت انگیز مظہر ہے۔ یہ ہمیں اس بات کی یاد دلاتا ہے کہ ہم کائنات میں ایک چھوٹے سے حصے میں رہتے ہیں، اور یہ کہ ہمارے اردگرد کی دنیا بہت بڑی اور پیچیدہ ہے۔
یہاں کچھ مثالیں ہیں:
* *سورج* ہمارے نظام شمسی کا مرکز ہے اور یہ زمین سے تقریباً 150 ملین کلومیٹر دور ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ سورج سے آنے والی روشنی کو ہمیں پہنچنے میں تقریباً 8 منٹ لگتے ہیں۔
* *سیریس* رات کے آسمان کا سب سے روشن ستارہ ہے۔ یہ زمین سے تقریباً 8.6 نوری سال کے فاصلے پر ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ سیریس سے آنے والی روشنی کو ہمیں پہنچنے میں تقریباً 8.6 سال لگتے ہیں۔
* *اینڈرومیدا کہکشاں* ہماری کہکشاں، ملکی وے کی قریب ترین بڑی کہکشاں ہے۔ یہ زمین سے تقریباً 2.5 ملین نوری سال کے فاصلے پر ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ اینڈرومیدا کہکشاں سے آنے والی روشنی کو ہمیں پہنچنے میں تقریباً 2.5 ملین سال لگتے ہیں۔
یہ صرف چند مثالیں ہیں، اور کائنات میں لاکھوں اربوں ستارے اور کہکشائیں ہیں۔ ہم صرف ان میں سے ایک چھوٹے سے حصے کو دیکھ سکتے ہیں، اور یہ بھی صرف اس لیے کہ ان کی روشنی ہمیں پہنچنے میں اتنا وقت لگتی ہے۔