ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز نیوز انٹرنیشنل۔۔۔ بے زبان کی دعا۔۔۔ سلیم خان۔۔۔کراچی پاکستان)آج 21 دسمبر کی صبح کا آغاز تندو تیز اور یخ بستہ ہواوں سے ہوا مدتوں بعد یہاں کا درجہ حرارت منفی دو تک پہنچا تھا۔ آج یہاں میرا آخری دن تھا کیونکہ محکمانہ تبادلہ کی وجہ سے آج مجھے آخری دن اپنے دفتر پہنچ کر سارے معاملات دوسرے آفسر کو منتقل کرنے تھے اور میرا ارادہ تھا کہ میں صبح جلدی دفتر پہنچ کر اپنے حصہ کا کام مکمل کرلوں تاکہ وہاں سے جلد رخصت لے کر دوسرے شہر جانے کی تیاری جلد سے جلد مکمل کرسکوں ۔۔عین درختوں کے وسط میں واقع یہ شہر دیگر علاقوں سے قطعی مختلف تھا یہاں کا موسم عموماً خوشگوار اور معتدل ہی رہتا تھا اطراف میں اونچے درختوں کی وجہ سے سورج کی روشنی کافی دیر سے یہاں پہنچتی تھی۔۔ یہ بنیادی طور پر کم سہولیات والا ایک چھوٹا سا شہر تھا۔ خوبصورت مناظر اور دلفریب ماحول کے باوجود یہاں کی آبادی بہت ہی مختصر تھی۔ میرا تبادلہ جس دن یہاں ہوا تھا اس کے اگلے ہی دن سے میں نے یہاں سے تبادلے کی درخواست محکمہ کو روانہ کردی تھی کیونکہ یہاں کا ماحول لاکھ دلفریبی کے باوجود میرے مزاج سے قطعی مختلف تھا کیونکہ مجھ جیسا یار باش قسم کا انسان جو کیفوں اور دوستوں کی صحبتوں کو پسند کرتا تھا یہاں آکر سخت بوریت محسوس کر رہا تھا۔
میں نے کھڑکی سے باہر کا منظر دیکھنا چاہا تو سوائے دھند کے کچھ دکھائی نا دیا۔ میں نے دیوار پر لگی گھڑی کو دیکھا تو اس میں صبح کے 7 بج چکے تھے میں نے سردی سے بچنے کے لئے ضروری چیزیں پہنیں اور ٹارچ لیکر دفتر کے لئے نکل کھڑا ہوا۔ میرا دفتر گھر کچھ ہی فاصلے پر تھا اس لئے میں پیدل ہی دفتر آیا جایا کرتا تھا۔۔
میں چند قدم ہی چلا تھا کہ میرے کانوں میں کسی جانور کے کراہنے کی آوازیں سنائی دیں ۔۔ میں نے سمت کا تعین کرکے ٹارچ کی روشنی ایک جانب کی تھی تو دیکھا ایک کتیا اور اس کے چار بچے سردی سے برُی طرح کراہ رہے تھے۔۔۔ میں نے محسوس کیا کہ جیسے وہ کتیا مجھ سے اپنے بچوں کے لئے مدد مانگ رہی ہو۔۔۔
میرا گمان اس وقت یقین میں بدل گیا جب وہ میرے بالکل نزدیک آکر میرے گرد دم ہلاتی چکر کاٹنے لگی۔۔۔ میں نے گھٹنوں کے بل بیٹھ کر اس کا سر سہلا کر اسے یہ امید دلانے کی کوشش کی کہ میں ابھی اس کی مدد کرتا ہوں۔۔ یہ سوچ کر میں بجلی کی سی تیزی سے کھڑا ہوا اور الٹے قدموں لمبے لمبے ڈگ بھرتے واپس گھر کی جانب جانے لگا تو میں نے دیکھا وہ کتیا اپنے بچوں کی طرف ایک لمحہ کے لئے آئی انھیں چوما اور میرے پیچھے پیچھے چلی آئی (شاید وہ اپنے بچوں کو کچھ دلاسہ دے کے آئی ہو) میں نے گھر پہنچ کر کیک بسکٹ اور دودھ کی کچھ بوتلیں کچھ برتنوں کو ایک تھیلے میں جمع کیں اور ایک کمبل اور کچھ پرانے کپڑے ایک پلاسٹک کے صندوق میں رکھے (جو یہاں سے جانے کےبعد میرے کسی کام کا بھی نہیں تھا) میں تمام سامان لیکر باہر آیا تو وہ کتیا شدت سے میری منتظر تھی میں نے سامان لیکر تیز قدموں سے چلنا شروع کردیا اور چند منٹوں میں ہی میں وہاں پہنچ چکا تھا ۔۔میں نے صندوق کو کھول کر اس میں گرم کپڑے بھرے اور اس میں ان بچوں کو رکھ کر کمبل کو چاروں طرف سے یوں لگادیا جس میں گھس کر وہ سردی سے بچ بھی سکتے تھے اور جب چاہئے واپس باہر بھی آسکتے تھے میں نے ایک برتن میں دودھ اور دوسرے برتن میں کیک اور بسکٹ رکھ دیئے اور وہاں سے چلنے کا قصد کیا تو کتیا نے میرے جوتوں کو چوما اور میرے گرد ایسے چکر لگانے لگی جیسے میرا شکریہ ادا کر رہی ہو۔۔
میں اپنے دفتر پہنچا تو صبح کے نو بج چکے تھے غیر معمولی سردی کی وجہ سے دفتر کا عملہ تقریباً نا ہونے کے برابر تھا مگر جیسے جیسے وقت گزرتا گیا عملہ حاضر ہوتا گیا سب کی زبان پر دسمبر کی سردی کا ذکر تھا۔ دفتر کے تمام عملے نے مجھے بہترین الوادعی کلمات کے ساتھ رخصت کیا سوائے اس نئے آفیسر کے جو میری جگہ وہاں تعینات ہوا تھا اس کا خیال تھا کہ میں اپنی لاابالی طبیعت کے باعث کبھی اعلیٰ عہدہ حاصل نہیں کرسکوں گا اور شہر در شہر تبادلوں کے بعد بالآخر خالی ہاتھ ہی ریٹائرڈ ہو جاوں گا۔۔
میں نے کچھ برا نا مانا اور وہاں سے چلا آیا شہر میں کچھ دن لوگوں سے آخری ملاقاتیں کیں اور پھر شہر چھوڑنے کے لئے اسٹیشن جانے لگا تو خیال آیا کہ اس کتیا اور اس کے بچوں کو بھی دیکھ آوں اپنے ساتھ ملازم کو ساتھ لے کر میں جب وہاں پہنچا وہ اپنے بچوں کے ساتھ کھیل میں مصروف تھی مگر اس کی نظر جیسے ہی مجھ پر پڑی وہ ایک دم سے اچھل کر میرے پاس آئی اور میرے گرد چکر کاٹنے لگی۔ میں نے گھٹنوں کے بل بیٹھ کر اس کے بچوں کو پیار کیا اور سامان سے کچھ بسکٹ نکال کر انھیں کھلائے اور اپنے سابقہ ملازم کو ہمیشہ ان کا خیال رکھنے کا کہہ کر وہاں سے چلا آیا۔۔
کچھ دن بعد میں جب اپنے نئے دفتر پہنچا تو یہ سن کر حیران رہ گیا کہ میری ایک دو نہیں بلکہ چار درجہ ترقی پاکر تعینات ہوا ہوں میں نے ایک نظر اپنی دفتری کارکردگی پر ڈالی تو کوئی خاطر خواہ عمل نظر نا آیا میں بہت حیران تھا کہ میں نا تو میں کام ایسا تھا کہ اسقدر ترقی پاؤں نا ایسی کوئی سفارش پاس تھی۔۔۔ میرا کوئی ایسا اخلاقی عمل بھی نہ تھا کہ جو میں اللّٰہ کی خاص رحمت کا حق دار بنوں۔۔
مگر اللّٰہ تعالیٰ نے میری تقدیر بدل دی تھی۔۔۔ ایک ایسے عمل پر جسے میں انجانے میں کر بیٹھا تھا ۔۔ یعنی ایک بے زبان کی مشکل میں مدد۔۔۔
میں چند ہی سالوں میں اپنے ادارے کے سب سے بڑے عہدے پر پہنچ چکا ہوں۔۔۔آج اللّٰہ تعالیٰ نے مجھے اپنی تمام نعمتوں سے سرفراز کردیا ہے۔۔۔
صرف ایک نیکی کی بدولت۔۔۔جو میں نے بے غرض کی تھی۔۔۔
سلیم خان ۔۔۔کراچی پاکستان