ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )ایرانی قوم انسانی تاریخ میں ایک ایسی قوم کے طور پر پہچانی جاتی ہے جو ہر دور میں بہادری، غیرت، مزاحمت اور شعوری بیداری کی علامت رہی ہے۔ یہ سرزمین نہ صرف عظیم تہذیبوں کی پرورش گاہ رہی ہے، بلکہ یہاں کے باسیوں نے ہر دور کے ظلم و ستم، جارحیت اور سامراجیت کے خلاف جرأت مندانہ اور استقلال سے بھرپور کردار ادا کیا ہے۔
جب ساتویں صدی عیسوی میں عرب لشکر اسلامی پیغام لے کر ساسانی سلطنت کی حدود میں داخل ہوئے، تو ایرانیوں نے اپنی سرزمین اور سلطنت کے دفاع میں بے مثال مزاحمت کی۔ اگرچہ ساسانی سلطنت شکست سے دوچار ہوئی، لیکن ایرانی قوم نے دشمن کے غلبے کو اپنی تہذیبی شناخت کی شکست تسلیم نہیں کیا۔ زبان، ادب، علم و فن اور تمدن کو انہوں نے اس طرح زندہ رکھا کہ بعد میں فارسی اسلامی دنیا کی علمی اور ادبی زبان بن گئی۔ یہ وہ بصیرت تھی جس نے ایرانی قوم کو مغلوب ہو کر بھی غالب بنا دیا۔
تاریخ کا اگلا سخت مرحلہ منگولوں، سلجوقیوں، تیموریوں اور ترکوں کے حملوں کا تھا۔ ان خونریز یلغاروں نے ایشیا کی کئی تہذیبوں کو مٹا دیا، مگر ایران وہ واحد خطہ تھا جہاں اہلِ علم، شعور اور عوام نے نہ صرف ان حملہ آوروں کا علمی اور ثقافتی مزاحمت سے مقابلہ کیا، بلکہ اپنی تحریری، لسانی اور صوفیانہ روایتوں کو مزید نکھارا۔ رومی، سعدی، فردوسی، اور حافظ جیسے عظیم شعرا نے اسی دور میں فارسی ادب کو دنیا بھر میں پھیلایا، جو ایرانی قوم کی روحانی مزاحمت کی عکاسی ہے۔
1905 میں جب ایران میں مشروطہ تحریک اٹھی، تو یہ محض ایک سیاسی احتجاج نہیں بلکہ ایرانی قوم کی جمہوری شعور اور شہری آزادی کی آرزو کا اظہار تھا۔ اس تحریک کے نتیجے میں پہلی بار ایران میں آئینی بادشاہت، عدالتی نظام، اور منتخب پارلیمان جیسے ادارے وجود میں آئے، جو اُس وقت مشرق وسطیٰ کے دیگر ممالک کے لیے خواب سے کم نہ تھے۔ عوام نے طاقت کے مرکز کو چیلنج کیا اور ثابت کیا کہ ایرانی صرف تلوار ہی نہیں، قلم اور فکر سے بھی انقلاب لاتے ہیں۔
1979 میں آنے والا اسلامی انقلاب ایرانی قوم کی غیر معمولی قربانیوں اور مزاحمتی کردار کا ایک زندہ مظہر ہے۔ لاکھوں مرد و زن، طالب علم، علما، مزدور اور عام شہری شاہی آمریت کے خلاف سڑکوں پر نکلے۔ قید، تشدد، شہادت اور جلاوطنی کو گلے لگاتے ہوئے انہوں نے ایک ایسی حکومت کی بنیاد رکھی جو اسلامی اصولوں اور عوامی ارادے کی نمائندہ بن کر ابھری۔ اس انقلاب نے نہ صرف ایران بلکہ دنیا بھر کے محروم و مظلوم طبقات کو حوصلہ اور تحریک دی۔
ایران-عراق جنگ (1980–1988) ایرانی قوم کی مزاحمتی تاریخ کا ایک اور درخشاں باب ہے۔ صدام حسین نے غیر ملکی پشت پناہی سے ایران پر حملہ کیا، یہ سمجھتے ہوئے کہ انقلاب سے کمزور ملک جلد ٹوٹ جائے گا۔ مگر ایرانی قوم نے، خصوصاً جوانوں، طالب علموں، خواتین اور بزرگوں نے جس ثبات، ایمان اور قربانی کا مظاہرہ کیا، وہ جدید تاریخ میں کم ہی دیکھنے کو ملتا ہے۔ 8 سالہ اس خونریز جنگ میں “بسیج” کے نوجوان، بغیر کسی فوجی تربیت یا مکمل ہتھیاروں کے، دشمن کے سامنے سینہ سپر ہو گئے۔ یہ صرف ایک جنگ نہیں تھی، بلکہ ایمان اور استعمار کے درمیان معرکہ تھا۔
ایرانی قوم نے صرف عسکری میدانوں میں نہیں بلکہ سائنس، ٹیکنالوجی اور خود انحصاری کے شعبوں میں بھی دنیا کو حیران کیا۔ بین الاقوامی پابندیوں کے باوجود انہوں نے ایٹمی تحقیق، ڈرون ٹیکنالوجی، میزائل سسٹم اور طب و زراعت میں حیران کن ترقی کی۔ یہ ترقی صرف سائنس نہیں بلکہ ایک سیاسی پیغام تھی کہ: “ہم جھکیں گے نہیں، رکیں گے نہیں۔”
ایران نے ہمیشہ مظلوموں کی حمایت کو اپنا فریضہ سمجھا ہے۔ فلسطین کی حمایت ہو، لبنان میں حزب اللہ کی مدد، یا شام میں عوام کی حفاظت—ایرانی قوم نے عملی طور پر ثابت کیا کہ امت مسلمہ کا درد ان کے دل میں زندہ ہے۔ ان کی خارجہ پالیسی صرف مفاد پرستی نہیں بلکہ انصاف اور مزاحمت پر مبنی ہے۔
یہ سب شواہد اس بات کا ثبوت ہیں کہ ایرانی قوم کی بہادری وقتی جذبات یا جنگی واقعات تک محدود نہیں، بلکہ یہ صدیوں پر محیط فکری، تہذیبی، علمی اور سیاسی جدوجہد کا تسلسل ہے۔ یہ ایک ایسی قوم ہے جو کبھی ظلم، جبر، اور استعماری طاقتوں کے سامنے جھکی نہیں، بلکہ ہمیشہ وقار، خودداری اور روحانی عظمت کے ساتھ کھڑی رہی ہے۔