تازہ غزل
شاعر۔۔۔شہزاد تابش
رد ہو سکیں بلائیں نہ رد بلا کے بعد
پھر حبس ہے وجود میں تازہ ہوا کے بعد
محفوظ تھا وہ پردۂ نازک کے درمیاں
بکھرا ہوا ہے چار سُو بند قبا کے بعد
میرا وجود قید ہے، دستار میں مری
کچھ بھی نہیں ہوں دوست میں نار انا کے بعد
کچھ تو سہولتیں ہیں یہاں بھوک ننگ کو
پھر رقص ہو گا موت کا دست سخا کے بعد
کس کو بتائیں کیوں میرا جینا محال ہے
راہِ وفا میں ہر قدم اس بے وفا کے بعد
ایسا بھی کیاکہ شب کا رگ و پے میں ہو قیام
کچھ روشنی کا ساتھ ہو رقص ضیا کے بعد
بنجر زمین آنکھ کی بے آب ہی رہی
ٹپکی نہ ایک بوند بھی کالی گھٹا کے بعد
تابشِ نہ روک پایا ہوئیں کوششیں تمام
ہر اک دعا بھی رد ہوئی ہر اک دوا کے بعد
شہزاد تابشِ