تجارتی ڈیل سے متعلق امریکا اور بھارت کے درمیان اختلافات دور نہ کیے جاسکے۔
مغربی میڈیا کے مطابق امریکا کی جانب سے بھارت پر 25 فیصد ٹیرف عائد کیے جانے کے بعد بھی امریکا اور بھارت کے مذاکرات جاری ہیں۔
امریکی اہلکار کا کہنا ہے کہ بھارت ایک ایسی مارکیٹ ہے جو امریکا کیلئے بڑی حد تک بند ہے ۔ کئی جیوپولیٹیکل اشوز بھی ہیں جن میں بریکس تنظیم کی رکنیت اور روس سے تیل کی خرید بھی شامل ہے۔
دوسری جانب روس سے تیل خریدنے کے معاملے پر امریکی صدر ٹرمپ کی انتظامیہ مودی سرکار سے سخت مایوس ہے۔
امریکی وزیر خزانہ نے ایک انٹرویو میں کہا کہ بھارت روس سے تیل خریدتا ہے اور پھر اسے ریفائنڈ تیل کے طور پر بیچتا ہے، بھارت نے خود کو عالمی کردار ادا کرنے والے ملک کے طور پر پیش نہیں کیا۔
تاہم امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی دھمکی کے بعد بھارت کی سرکاری آئل ریفائنریز نے روسی تیل کی خریداری روک دی۔
واضح رہے کہ امریکا سمیت مغربی ممالک سن 2022 سے بھارت پر دباؤ ڈالتے رہے تھے کہ وہ یوکرین جنگ کے سبب روس سے دوری اختیار کرے تاہم مودی سرکار ماسکو سے نئی دہلی کے تاریخی تعلقات اور اقتصادی مجبوریوں کا حوالہ دیتے ہوئے یہ ناطہ کمزور کرنے سے گریز کرتی رہی تھی۔
امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ ترقی پزیر ممالک کی تنظیم بریکس کو امریکا کے خلاف تصور کرتے ہیں تاہم بھارت سمیت اس تنظیم کے اراکین کا مؤقف ہے کہ یہ تنظیم رکن ممالک کے باہمی مفادات کو پروان چڑھانے کا ذریعہ ہے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے تو بھارتی معیشت کو مردہ معیشت بھی قرار دیا۔
علاوہ ازیں بھارت کی جانب سے پاکستان پر مسلط جنگ کے معاملے پر بھی صدر ٹرمپ سیز فائر کا کریڈیٹ لیتے رہے ہیں۔
امریکی صدر کا کہنا ہے کہ انہوں نے دونوں ممالک پر واضح کیا تھا کہ اگر جنگ بندی نہ کی تو وہ تجارتی ڈیل نہیں کریں گے۔
حکومت پاکستان ڈونلڈ ٹرمپ کے اس بیان کو انتہائی اہمیت دے رہی ہے جبکہ بھارت یہ ماننے سے ہی انکاری ہے کہ امریکا نے جنگ بندی میں کوئی کردار ادا کیا تھا جس پر بعض حلقوں کے مطابق ٹرمپ انتظامیہ مودی سرکاری سے زیادہ خوش نہیں۔
واضح رہے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھارت میں قائم 7 کمپنیوں پر پابندیاں بھی لگائی ہیں۔ پابندیوں کا شکارساتوں کمپنیاں ایران سےتیل کی تجارت کرتی ہیں۔
امریکا کا کہنا ہے کہ ایران تیل سے حاصل آمدنی کو مشرق وسطیٰ کو عدم استحکام کا شکار کرنے کے لیے استعمال کرتا ہے اور اپنے عوام کا استحصال کرتا ہے۔