Daily Roshni News

تدوین حدیث۔۔۔ تحریر۔۔۔کوثر نیازی

تدوین حدیث

تحریر۔۔۔کوثر نیازی

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ تدوین حدیث۔۔۔ تحریر۔۔۔کوثر نیازی)یہ امر واقعہ ہے کہ ایک ہزار سال پہلے کی دنیا کی کوئی اقوام بھی تو ایسی نہیں ہے جو یہ بات پورے وثوق کے ساتھ کہہ سکے کہ اس کی مذہبی روایات کی تدوین، جدید انداز کی تاریخ نویسی کے معیار پر پوری اترتی ہے۔

میرا دعوی ہے کہ اسلام کے سوا کسی دوسری قوم کو یہ شرف قطعا نصیب نہیں ہوا ہے بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ حدیث و تاریخ نویسی کی ایجاد و اختراع ہی مسلمان محدثین و مورخین کی ہے۔ محدثین و مورخین اسلام نے اس سلسلہ میں جو محنت و کاوش کی۔ جس جستجو اور ذوق و شوق سے کام لیا اس کی مثال قدیم دنیا میں کہیں بھی موجود نہیں ہے۔ اول تو دنیا کی اقوام میں سے کسی ایک قوم نے بھی ، اپنے پیغمبر کے عہد میں ، اس کی زندگی اور اس کے طور و طریق کو کوئی اہمیت دی ہی نہیں ہے۔

جناب موسیٰ و عیسیٰ علیہم السلام کے ساتھیوں اور ان کے پیروکاروں نے ان کے اقوال و فرمودات اور طور و طریق کو روایت کی شکل دینے پر ، کئی سو سال تک توجہ ہی مبذول نہیں کی تھی، جناب موسی کے رفقاء نے ایسی تکلیف گوارا نہ کی اور جناب عیسی کے حواری تو تعداد میں صرف بارہ تھے اور ایسی اسناد موجود ہیں کہ انہوں نے کوئی بات بھی جناب عیسی کی قلم بند نہ کی تھی۔

اس کے بر عکس کتنی ہی ایسی تحریری اسناد اس بات کا ثبوت ہیں کہ حضور سرور دو عالم علم کے کتنے ہی ساتھی ایسے تھے جو حضور می یا نیم کے فرمودات و ارشادات کو لکھ لیتے تھے۔ ان ساتھیوں نے حضور علی یار نام کے یہ تحریری ارشادات و فرمودات تحریری شکل میں

نیازی اگلی نسل کے سپرد کیے۔ یہاں یہ اظہار بھی بے موقع نہیں ہے کہ حضور سرور کون و مکاں مسلم کی زندگی میں ان کے پیروکاروں کی تعداد لاکھوں سے متجاوز کر گئی تھی۔ مورخ القسطلانی نے بڑے اعتماد کے ساتھ دعوی کیا ہے کہ حضور طی می کنیم نے جب آخری حج کیا تو دو لاکھ کے قریب مسلمان اس حج میں شامل ہوئے تھے اور ان سب نے میدان عرفات میں حضور علمی بالا نیم کا وہ خطبہ سنا تھا جو خطبہ حجتہ الوداع کے عنوان سے تاریخ میں محفوظ ہے۔

یہ امر یقینی ہے کہ ان لوگوں نے حضور علی کریم کے خطبہ اور حج کی روداد آگے روایت کی اور حضور می یا اکرام کے بارے میں اپنے بچوں ، اپنے قبیلے کے لوگوں اور دوسروں کو بتایا۔

مورخ عبدالحکم اور دوسرے اولین مورخین نے دعوی کیا ہے کہ جب حضور ملی اینم اس دنیا سے رخصت ہوئے تھے تو حضور می یا نیم کے صحابہ کی اکثریت ایک ایسی جماعت معلمین کی شکل اختیار کر گئی، جس کی زندگی کا مشن حضور ملی ایم کی تعلیمات کو عام کرنے کے سوا کوئی اور نہ تھا۔ تابعین کے عہد میں یہ شوق اور بڑھا۔

تاریخ کہتی ہے کہ بسا اوقات ایسا ہوتا کہ ادھر بادشاہ کا جلوس جا رہا ہے کہ اچانک شور اٹھا کہ فلاں تابعی اور فلاں محدث آن پہنچے ہیں ۔ دیکھتے ہی دیکھتے بادشاہ کے جلوس کی نفری گھٹ جاتی ۔ ہزاروں کا مجمع چھٹ جاتا اور یہ سب لوگ محدث کی طرف دوڑ محدث کی طرف پڑتے تھے۔

مورخ الطبری کہتے ہیں کہ ایک روز ہارون الرشید (عباسی بادشاہ) خراسان کے کسی مقام پر خیمہ زن تھا۔ ہزاروں لوگ اس کے گرد جمع تھے کہ اچانک کسی نقیب نے ہانک لگائی کہ حضرت عبد اللہ بن مبارک تشریف لے آئے ہیں۔ اس آواز کا اٹھنا تھا کہ ہارون الرشید کی خیمہ گاہ آدمیوں سے خالی ہو گئی۔ کہاں وہاں ہزاروں لوگ جمع تھے اور کہاں اب وہاں صرف چند درباری رہ گئے تھے۔ ہارون الرشید بہت بو کھلایا۔ ایک اونچی جگہ چڑھا اور اس سمت نگاہ کی۔

انسانوں کا ایک سمندر تھا جو جناب عبد اللہ بن مبارک کی سواری کے گرد جمع تھا۔

ہارون الرشید چینا: – اصل بادشاہ تو وہ ہے “ تاریخ حدیث کے مولفین کا بیان ہے کہ یوں تو حدیث کی تدوین پہلی صدی ہجری کے نصف آخر ہی میں شروع ہو گئی تھی مگر اسے ایک باقاعدہ اہتمام کی شکل حضرت عمر بن عبد العزیز کے عہد میں ملی۔ مورخ عبد الحلیم کہتے ہیں کہ یہ جناب عمر بن عبدالعزیز تھے جنہوں نے سرکاری حیثیت سے تدوین حدیث کا حکم جاری کیا تھا۔ مدینہ کے سب سے بڑے محدثین کو ہدایت کی گئی تھی کہ ایک مجموعہ احادیث ان کے لیے خصوصی طور پر تیار کیا جائے جس کی تعمیل ہوئی۔ یوں یہ سبر العام مالک کے سر بندھا ہے کہ انہوں نے مستند احادیث کا ایک ایسا مجموعہ تیار کیا جس کی صحت ہر شبہ سے بالا تھی۔ یہ مجموعہ احادیث آج بھی ہر اسلامی لائبریری کی زینت ہے اور اس نے موطا امام مالک کا نام پایا ہے۔

امام مالک کے علاوہ ان کے عہد میں ، مدینہ کے جن محدثین نے احادیث کے مجموعے تیار کیے تھے ان میں ابن ہشام ، ابن اسحاق اور ابن سعد کے اسما سر فہرست ہیں۔ اس دور کے محدثین میں سے جن بزرگوں نے شہرت دوام حاصل کی اور حدیث کے مجموعے اپنے طور پر مرتب کیے ان میں ابن جریج ربیع بن صبیح، سعید بن ابی عروبہ، حماد بن سلمہ، امام سفیان ثوری ، امام اوزاعی ، امام میشم، معمر، جریر بن عبد الحمید ، عبد اللہ بن مبارک عبید اللہ بن موسی، مسدو بصری ، اسد بن موسی ، نعیم بن حماد امام احمد بن حنبل، امام اسحاق بن راہو یہ اور عثمان بن ابی شیبہ تھے۔ ابن الندیم کے بیان کے مطابق امام سفیان ثوری کے مجموعہ کا نام الجامع الکبیر اور الجامع الصغیر تھا، محدث ابو عبد الرحمن نے کتاب السنن تالیف کی تھی، ابن ابی الزناد نے کتاب الفرائض ، محدث عبد الملک نے کتاب المغازی اور محدث وکیع نے کتاب السفن لکھی۔ ابن ابی عروبہ الولید بن مسلم ، امام عبد الرزاق اور امام مکحول، امام المروزی، احمد بن محمد بانی ، علمی بین مدینی، المعمری، ابن ابی مقیمہ ، مسلم بن حجاج، یحیی بن معین، ابراہیم الحربي، ابن ایوب، ابو مسلم، ابن ابی داود ، جعفر الدقاق، محمد بن مخلد ، ابو عبد الله الحسین بھی جامعین حدیث میں سے تھے۔ ان میں سے ہر ایک نے اپنے اپنے طور پر احادیث جمع کی تھیں اور انہیں کتابی شکل دی تھی۔

العام الذہبی ، ابن الجوزی اور السیکی نے ان محدثین کی تعداد کئی سو بتائی ہے جنہوں نے احادیث کے مجموعے مرتب کیے تھے اور حدیث کی جانچ پڑتال اور میزان واعتدال میں محنت شاقہ کی تھی۔

جن محدثین کو شہرت دوام ملی ان میں سیر فہرست حضرت امام مالک، حضرت امام احمد بن حنبل، حضرت امام بخاری، حضرت امام مسلم، حضرت امام ترمذی، حضرت امام نسائی، حضرت امام ابوداود، حضرت ابن ماجہ، جناب دار قطنی ، محدث البیهقی ، محدث طحاوی اور محدث الحاکم ہیں۔ ان سب کے مجموعے قبول عام کی سند حاصل کر چکے ہیں اور

لائبریری اور اسلامی مکتب میں موجود ہیں۔ محد ثین کرام نے ( اللہ تعالی انہیں کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے) حدیث کے فن کو مزید نکھارنے کے لیے جو حیرت انگیز محنت کی ہے غیر مسلم اسکالر بھی اسے دیکھ کر دنگ رہ گئے ہیں۔ صرف حفاظت حدیث کے لیے حضرات محدثین نے 52 علوم مدون کیے ہیں جنہیں دیکھنے کے بعد کوئی عقل دشمن ہی احادیث کی صحت کے بارے میں شبہات کا شکار ہو سکتا ہے۔

یہ بلاخوف تردید کہا جا سکتا ہے کہ دنیا میں آج تک کوئی قوم اپنے پیغمبر یا اپنے کسی راہنما کی زندگی کو محفوظ کرنے کا وہ اہتمام نہیں کر سکی جو صحابہ و تابعین نے حضور علی ای ایم کے اقوال و افعال کی حفاظت کے لیے کیا ہے۔

حضور ملی اینم دنیا سے تشریف لے گئے لیکن جو شخص چاہے احادیث کا مطالعہ کر کے آج بھی آپ کے دیدار معنوی سے مشرف ہو کر سعادت دارین حاصل کر سکتا ہے۔

علامہ اقبال مرحوم نے خوب کہا

معنی دیدار آن آخر زماں! حکم او بر خویشتن کردن رواں

در جہاں زی چون رسولِ انس و جاں

تا چو او باشی قبولِ انس و جاں

باز خود را بیں ہمیں دیدار اوست

سنت او سر از اسر ار اوست

بشکریہ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ  اکتوبر  2021

Loading