تصوف اور مولانا روم
تحریر۔۔ڈاکٹر غلام مصطفیٰ خان
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ تصوف اور مولانا روم۔۔۔ تحریر۔۔ڈاکٹر غلام مصطفیٰ خان)حضور انور ﷺکی امتیازی خصوصیات میں سے جن چار کا ذکر سورہ آل عمران میں اس طرح ہوا ہے۔
ترجمہ: بے شک اللہ کا بڑا احسان ہوا مسلمانوں پر کہ ان میں انہی میں سے ایک رسول مبعوث فرمایا جو ان پر اس کی آیتیں تلاوت کرتے ہیں اور کتاب و حکمت سکھاتے ہیں اور وہ لوگ اس سے پہلے کھلی گمراہی میں تھے“۔ [آل عمران 164] یعنی حضور انور صلی الا الم کی ان خصوصیات میں سے ایک خصوصیت یہ ہے کہ آپ ترکیہ اور تصفیہ فرماتے۔ ہیں جس سے لوگوں کے باطنی امراض دور ہو جاتے۔ ہیں، یہی تزکیہ اور تصفیہ تصوف کی اصل اساس ہے اوراسی سے فرد اور جماعت کی اصلاح ہو سکتی ہے۔ امام ابو بکر ابن اسحاق چوتھی صدی ہجری کے بزرگ تھے، انہوں نے صوفیہ کے عقائد اور احوال پر ایک کتاب لکھی جو تصوف پر قدیم ترین کتاب سمجھی جاتی ہے، انہوں نے تصوف کے سلسلے میں جن اوصاف و فضائل پر بحث کی ہے، زہد، صبر، فقر، تواضع و تقوی، اخلاص، شکر، توکل رضا، یقین، ذکر، انس، رب، انصال صحبت، تجوید و تفرید، وجد غلبه ، سکر، غیبت، شهود، جمع و
تفر قیس، تجلی و استغناء، فنا و بقاء حقائق معرفت، توحید مرید، مراد، مجاہدات و معاملات، وعظ و نصیحت اور صوفیہ پر بعض اوصاف بیان کیے ہیں۔
توبہ، مجاہد، خلوت، غزلت، تقوی و ورع، زہد و خوف، رجا، رجوع، ترک شہوت، مخطوع و تواضع مخالف النفس، قناعت، توکل، شکر، یقین صبر ، مراء رضا، عبودیت ارادت، استقامت، اخلاص صدق، حیا، قنوت، فراست، جود و سخا، حلق فقر ادب، صحبت، توحید، محبت، شوق و عزم، ان جملہ موضوعات پر مثنوی مولانا روم میں عارفانہ گفتگو کی گئی ہے۔ یہ سارے اوصاف اور محاسن اور فضائل حضور انور سی علم کی صحبت سے صحابہ کرام میں پائے جاتے تھے۔ یہ حقیقت ہے کہ محض رسول اکرم صلی علم کی اتباع کامل سے ایسے انسان تیار ہو سکتے ہیں جن کی تلاش میں ہزاروں فلاسفر سر گرداں ہیں۔
مولانا رومی نے یونان کے ایک فلسفی درویش دیو جانس Diogenes کا واقعہ لکھا ہے جس کا زمانہ 412۔ 323 قبل مسیح ہے، وہ سورج کی روشنی میں ایک چراغ ہاتھ میں لیے بازار میں گھوم رہا تھا، لوگوں نے تعقب سے پوچھا آپ کیا ڈھونڈ رہے ہیں تو اس نے جواب دیا ” میں انسان کو ڈھونڈ رہا ہوں۔“ علامہ اقبال بھی اسی انسان کی تلاش میں مولانا رومی کے انہی اشعار اسرار خودی کے شروع میں مولانا رومی کے انہی اشعار کو تمہید بناتے ہیں، لیکن رومی اور اقبال کے ہاں انسان کامل وہی سو من کامل ہے جو حضور انور علی ایم کے انور سے مستنیر و مستفیض ہو۔
حقیقت میں انسان کامل وہی مومن ہے، جسے ان اکرمکم عند الله اتقکم کا منصب ملا ہے
اور وہ منصب حضور ﷺ اتباع تمام کے حاصل نہیں ہو سکتا، مولانا رومی کہتے ہیں۔
حضرت رومی کے تصوف کا خلاصہ ان کے ملفوضات فيه مافیہ آخر میں درج ہے۔ فرماتے ہیں میں وصیت کرتا ہوں کہ اللہ سے ظاہر و باطن میں تقویٰ رکھو، کم کھاؤ، کم سوڈ، کم بولو اور گناہوں اور برائیوں کو ترک اور خواہشوں کو ہمیشہ کے لیے چھوڑ دو، خلقت کی طرف سے سختیاں برداشت کرو، روزے رکھو اور عبادت کے لیے کھڑے رہو۔ فریدون سپہ سالار جنہوں نے اپنی ایک عمر حضرت رومی کی خدمت میں صرف کر دی تھی اپنے رسالے جو مثنوی کے ساتھ منشی رحمت اللہ رعد کے اہتمام سے کانپور سے شائع ہوا تھا، حجرت کی کچھ کیفیات اس طرح بیان کی ہیں۔ مستی و بے خودی کے باوجود آپ کبھی شریعت کے دائرے سے باہر قدم نہ رکھتے تھے، شب بیداری تہجد گزاری، کثرت نوافل و دام ذکر، ادائے نماز، میں انتہائی شغف، پھر نماز میں چہرے کا رنگ متغیر ہو جاتا و غیر ہ آپ کے درجات عالیہ کی نشاندہی کے لیے کافی ہیں۔ آپ کا تصوف خالص اسلام ہے، جس میں زہدو ورع اور اتباع شریعت ساتھ ساتھ ہے، آپ نے ایک خطبہ میں لکھا ہے۔
شریعت روشنی ہے وج راہ دکھاتی ہے اور تیرا اس راہ میں چلنا، پابند شریعت ہو کر زندگی گزارنا طریقت، یعنی تصوف ہے اور مقصود تک پہنچ جانا حقیقت ہے، حضرت رومی نے عمل پر بہت زور دیا ہے اور غفلت و کاہلی کو دور کرنے کے نسخے بیان فرماتے ہیں۔
توبہ کر اور مرد خدا کی طرح راستہ اختیار کر کیونکہ جو ذرہ برابر نیکی یا بدی کرے، اس کو وہ بچشم خود دیکھے گا۔ تو بہ آدم سے سیکھ جب ان سے خطا ہوئی تو فوراً آستانے پر جھک گئے، جب انہوں نے عالم غیب کا مشاہدہ کیا تو طلب بخشش کے لیے عاجزی سے کھڑے ہو گئے، جب انہوں نے اپنے آگے پیچھے اپنی اولاد کو دیکھا تو سب کی طرف سے عرض کیا کہ اے پروردگار ہم نے اپنی جانوں پر ظلم کیا، قیامت تک توبہ کا دروازہ کھلا ہوا ہے، وہ دروازہ کھلا رہے گا یہاں تلکہ سورج مغرب سے نکلے، پس تو بہ سے رو گردانی نہ کر۔ بہشت کے آٹھ دروازے ہیں ان میں سے ایک تو بہ کا ہے… پھر آپ اچھی صحبت کے فرائض لکھتے ہیں، کیونکہ اچھی صحبت اس راہ سلوک میں امر کا کام کرتی ہے، اور صحبت ہی نے صحابہ کرام کا درجہ انبیاء بنی اسرائیل جیسا بلند فرمایا، پھر فرماتے ہیں، اہل دل کی رفاقت اختیار کرتا کہ خدا کا انعام بھی پائے اور عالی بھی کہلائے۔ پھر فرماتے ہیں۔
اقبال مندوں میں بیٹھنا کیمیا کا حکم رکھتا ہے۔ ان کی نظر جیسی کیمیاد نیا میں کہاں….؟
یک زمانہ صحبت با اولیاء
بہتر از صد سالہ طاعت ہے ریا
صحبت صالح ترا صالح کند
صحبت طالح ترا طالح کند
اللہ کے ولی کی صحبت کے چند لمحے سو سال کی بےریا عبادت سے بھی بہتر ہے، نیک لوگوں کی صحبت نیک بنادیتی ہے برے لوگوں کی صحبت بر ابنادیتی ہے)
مولانا کے نزدیک عقل کی دو قسمیں ہیں ایک عقل جزوی جو ناقص ہوتی ہے، جو بحث واستدلال فلن و تخمین نفاق اور مصلحت اندیشی کی خوگر ہوتی ہے اور یہ عقل دنیاوالوں کی ہے۔ دوسری عقل تھی کھلی ہے، جس کا تعلق اہل اللہ سے ہوتا ہے اور وہ اللہ کے ذکر و فکر یقین وایمان اور عشق کی خوگر ہوتی ہے۔ فرماتے ہیں۔
عقل جزوی را وزیر خود مگیر
عقل کل را سازای سلطان وزیر
عقل جزوی عقل را بد نام کرد
کام دنیا مرد را ناکام کرد
یہی حکمت دینی عقل کلی سالک کو عقش کا خوگر بناتی ہے جو ہر اونی اور ہر اعلیٰ چیز کو اپنے اندر جذب کر لیتا ہے اور قوت فعال بھی۔
آخر میں اتنا عرض کر دوں کہ حضرت رومی نے جو عشق کے لیے فرمایا ہے کہ
عشق آن شعله است کوچون بر فروخت
ہر چه جز معشوق باقی جمله سوخت
( عشق تو وہ شعلہ ہے کہ جب یہ بھڑکتا ہے تومعشوق کے سوا سب کو جلا دیتا ہے)
تو اس سے مراد وہ وحدۃ الوجود ہے۔ جہاں محض فنا ہے، ان کے نزدیک وہ ایسی حالت ہے جہاں پہنچ کر خودی اور بے خودی میں تضاد باقی نہیں رہتا فرماتے ہیں کہ شمع کا شعلہ آفتاب کے سامنے ہست بھی ہے اور نیست بھی، ہست اس لیے کہ اگر اس شعلے کو روئی دکھاؤ گے تو روٹی جل جائے گی اور نیست اس لیے کہ آفتاب کی موجودگی میں وہ شعلہ روشنی دینے سے قاصر ہے ، یہی وحدۃ الوجود ہے۔ غرض حضرت روی کے جملہ علوم مسلم مگر
مولوی ہر گزنہ شد مولائے روم
تا غلام شمس تبریزی نہ شد
یعنی علم تصوف کا حصول نسبت سے ہو گا۔ راستہ چلنا را ہنما کے بغیر بہت مشکل ہے۔
بشکریہ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ مئی 2018