Daily Roshni News

تعلیمات قلندر بابا اولیاءؒ۔۔۔اعتدال کا راستہ

تعلیمات قلندر بابا اولیاءؒ

اعتدال کا راستہ

بشکریہ روحانی ڈائجسٹ جنوری2023

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔تعلیمات قلندر بابا اولیاء)اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ مادی زندگی گل زندگی کا نصف ہے، اگر اس نصف کا کسی مسلک میں کوئی مقام نہیں ہے تو معاشی زندگی کی تمام تعمیر میں مسمار ہو جائیں گی۔

انبیاء کرام کی تعلیمات میں دولت کے مثبت اور منفی دونوں رخوں کی نشاندہی کی گئی ہے ….. ایک صورت میں تو یہ نعمت ہے اور دوسری صورت میں سخت آزمائش ……

اگر دولت کی وجہ سے انسان میں انکساری، سخاوت اور فروتنی زیادہ ہو جائے تو یہ نعمت ہے اور اگر دولت کی فراوانی کے ساتھ بھل، تکبر اور طبیعت میں سختی زیادہ ہو جائے تو دولت مصیبت کا پیش خیمہ بنے والی آزمائش ہے۔

باب علم حضرت علیؓ فرماتے ہیں.

لَيْسَ الزَّهْدُ أَنْ لا تَمْلِكَ شَيْئاً. بَلِ الزُّهْدُ أَنْ لا يَمْلِكُكَ شَيْءٌ زہد یہ نہیں ہے کہ آپ کسی چیز کے مالک نہ بنیں۔ بلکہ زہد یہ ہے کہ کوئی چیز آپ کی ملکیت نہیں ہے۔“

حافظ شیرازی کہتے ہیں دولت و ثروت کا نہ ہو ناز ہد نہیں ہے، زہد یہ ہے کہ انسان ثروت کا اسیر نہ ہو اور دولت کی محبت انسان کے پاؤں کی زنجیر نہ بنے“۔

احمد نراقی ایک بہت بڑے عالم گزرے ہیں۔ وہ ایران کے شہر کاشان میں رہتے تھے۔ اُن کی مالی حالت بہت اچھی تھی۔ ایک شخص جو لوگوں میں اپنے لباس اور حلیے کی وجہ سے درویش مشہور ہو گیا تھا، نے اُن کی ایک کتاب ” معراج السعادة“ کا مطالعہ کیا۔ اس کتاب کا ایک باب ” باب تقویٰ“ اُس کی سمجھ میں نہیں آیا۔ کتاب پڑھ کر اُس کے دل میں احمد نراقی سے ملنے کی خواہش پیدا ہو گئی چنانچہ وہ درویش طویل سفر طے کر کے کاشان پہنچا۔ درویش وہاں پہنچ کر احمد نراقی کی شان و شوکت دیکھ کر مبہوت رہ گیا۔ دل میں سوچنے لگا کہ یہ سب کچھ کتاب ” معراج السعادة“ میں لکھے گئے

” باب زہد“ کے بالکل منافی ہے۔

کچھ روز اس درویش نے وہاں اسی کشمکش میں گزارے کہ اُن سے دریافت کرے کہ آخر یہ سب کچھ کیا ہے ؟…. لیکن جھجک کی وجہ سے سوال نہ کر سکا۔ تیسرے دن جب وہ جانے لگا تو آپ نےاُس سے پوچھا ” کہاں جارہے ہو ؟….۔درویش نے جواب دیا ” مقدس مقامات کی زیارت کرنے کے لئے جانا چاہتا ہوں“۔

آپ نے کہا ” میں بھی تمہارے ساتھ چلتاہوں۔

اس شخص نے کہا ” میں کچھ دن آپ کا انتظارکر سکتا ہوں ، آپ تیاری کر لیں“۔ دیا احمد نراقی نے فرمایا میں ابھی تمہارے ساتھنچلتا ہوں“۔ اُس نے حیران ہوتے ہوئے پوچھا ” یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ آپ یہ سب کچھ چھوڑ کر اچانک میرے ساتھ چل دیں گے ؟“ آپ نے کہا ”ہاں میں اسی وقت تمہارےساتھ چلنے کو تیار ہوں“۔

چنانچہ دونوں وہاں سے روانہ ہو گئے۔ وہ در ویش چلتے وقت اپنا کشکول اٹھانا بھول گیا تھا۔ شہر کاشان سے بارہ میل کے فاصلے پر جب دونوں نے ایک چشمے کے نزدیک پڑاؤ ڈالا تو درویش کو یاد آیا کہ وہ اپنا کشکول بھول آیا ہے۔ وہ واپس پلٹنا چاہتا تھا کہ جا کر اپنا کشکول لے آئے، آپ نے اُس سے کہا کوئی بات نہیں جب زیارت کر کے واپس آئیں گے تو تمہیں تمہارا کشکول مل جائے گا یا میں تمہیں دوسرا خرید کر دے دوں گا، لیکن درویش نے آگے بڑھنے سے انکار کر دیا اور کہا مجھے اپنے کشکول سےمحبت ہے ، میں اُس کے بغیر سفر نہیں کر سکتا۔ احمد نراقی نے پوچھا کیا تم اُس کشکول کو چھوڑنہیں سکتے ؟“

درویش نے کہا ” میں اُسے نہیں چھوڑ سکتا ۔ آپ نے فرمایا ” میرے اور تمہارے درمیان یہی فرق ہے، میرے پاس مال و دولت اور اختیار سب کچھ ہے، مگر مجھے اُن سے محبت نہیں ہے۔

تمہارے پاس ان میں سے کچھ نہیں ہے، تمہارےپاس صرف ایک کشکول ہے اور یہ تمہارے لئےایک بت کا درجہ رکھتا ہے “۔

غور کرنے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ انسان میں جو بنیادی خواہشات پائی جاتیں ہیں، اُن کی دو قسمیں ہیں، پہلی محدود اور سطحی جیسے کھانا، پینا اور سونا وغیرہ۔ ان خواہشات کا تعلق انسانی جسم سے ہے۔ اس قسم کی خواہشات میں جو نہی جسمانی طلب کی سیری ہوتی ہے انسان کی رغبت بھی ختم ہو جاتی ہے، لیکن خواہشات کی دوسری قسم بہت گہری اور بیکراں ہوتی ہیں جیسے مثبت خواہش میں علم کی طلب اور منفی خواہشات میں زر پسندی یا جاه طلبی و غیرہ۔ ان خواہشات کی حد کا تعین نہیں کیا جا سکتا۔

اگر انسان میں طلب علم کی خواہش پیدا ہو جائے اور وہ اپنی پوری زندگی بھی حصولِ علم میں صرف کر دے، پھر بھی سیر نہیں ہو سکتا۔ علم کی طلب ایک مثبت طلب ہے اس کی کوئی حد مقررنہیں، جہاں پہنچ کر انسان مطمئن ہو جائے۔ طلب اگر منفی رخ اختیار کرلے تو اس کی بھی حد مقرر نہیں۔ ایک خواہش کی تکمیل کے بعد دوسری کسی چیز کی طلب اس میں پیدا ہو جاتی ہے۔ شب و روز زیادہ سے زیادہ سرمایہ اکھٹا کرنے میں مگن شخص کی حالت یہ ہو جا یہ ہو جاتی ہے کہ ہے کہ سرمایہ جتنازیادہ ہوا سے کم محسوس کرتا ہے اور وہ مزید سرمایہ سمیٹنے کی فکر میں غرق رہتا ہے۔ اگر غور کیا جائے تو انسان دولت مند ہو یا

غریب اس کی بنیادی ضرور تیں کچھ فرق کے ساتھ کم و بیش برابر ہی ہوتی ہیں۔ مثلاً ہر شخص کی جسمانی۔۔جاری ہے۔

بشکریہ روحانی ڈائجسٹ جنوری2023

Loading