Daily Roshni News

تعلیمات قلندر بابا اولیاءؒ۔۔۔اچھا سوچیں اچھا کریں اور کامیابی پائیں۔

تعلیمات قلندر بابا اولیاءؒ

اچھا سوچیں اچھا کریں اور کامیابی پائیں۔

بشکریہ روحانی ڈائجسٹ جنوری 2023

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )مثبت طرز فکر زندگی کے ہر شعبے  میں اور ہر قسم کے حالات میں ثابت قدم رہنا سکھاتی ہے۔

ایک ڈاکٹر صاحب فرماتے ہیں کہ ایک لڑکا اپنے والد کے ساتھ اُن کے پاس آیا اس لڑکے کے ساتھ ایک عجیب مسئلہ در پیش تھا۔ اس کا خیال تھا کہ وہ جس چیز کو ہاتھ لگاتا تھا اُس میں کوئی نہ کوئی خامی لازماً پیدا ہو جاتی تھی۔ اُس نے ہر کام میں بہت محنت کی مگر ہر بار وہ ناکام رہا، حالانکہ اُس کے والد صاحب کا اچھا خاصا کاروبار تھا اور اُسے کئی تعلیمی مواقع بھی ملے مگر پھر بھی ناکامی ایک بڑا سانحہ تھا۔ ڈاکٹر صاحب بتاتے ہیں کہ میں نے اُسے ان پیچیدگیوں سے نمٹنے کا حل بتایا ایک ایسا حل جو ناکامی سے نجات دلانے کے بعد کامیابی کو ممکن بنا سکے اور ساتھ ہی اُس کی شخصیت کو ہردلعزیز بنانے میں بھی معاون ہو۔ کچھ ہی عرصے بعد میں اُس لڑکے کی کامیابی کودیکھ کر اس کی تعریف کئے بغیر نہیں رہ سکا۔ آپ سوچ رہے ہوں گے کہ میں نے اُس کو اُس کی پریشانی کا کیا حل بتایا ہو گا۔

حقیقت میں یہ ایک بالکل عام فہم اور سادہ بات ہے۔ میں نے اُسے یقین کی کرشمہ سازی کے بارےمیں بتایا۔ میری بات پر حیرت کا اظہار مت کیجیے۔

اگر آپ منفی سوچ رکھیں گے اور شکست کے بارے میں ہی سوچیں گے تو شکست ہی ہو گی اور اگر آپ مثبت طرز فکر اپنا کر ہر کام میں بہتری کا سوچیں گے تو بہتر ہی ہو گا۔

اس لڑکے نے اپنے اندر تبدیلی دیکھ کر کہا۔ میں نے محسوس کیا ہے کہ یہ ایک قسم کی کرامت ہی ہے۔ میں نے کہا کہ یہ کوئی کرامت نہیں ہے۔ دراصل اُسے معلوم ہو گیا کہ مثبت سوچ ایک بہت ہی عظیم قوت ہے اس لڑکے نے اپنی منفی سوچ کو مثبت سوچ یعنی یقین میں تبدیل کر دیا تھا۔

یقین، اعتماد اور مثبت طرزِ فکر وہ بنیادی عوامل ہیں جو کسی بھی کام کو پایہ تکمیل تک پہنچانے میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ جب آپ کسی کام کے بارے سوچتے ہیں تو آپ کا ذہن ایک مقنا قناطیسی قوت خارج کرتا ہے یہ مقناطیسی قوت ہی آدمی کو کامیابی دلاتی ہے۔ جو لوگ ناکامی کے بارے میں سوچتے ہیں۔

ان کے ذہن سے منفی لہریں خارج ہونے لگتی ہیں۔ اسٹریس، ڈپریشن، ٹینشن، اعصابی دباؤ اور مانگرین کیا ہیں ؟ یہ منفی طرزِ فکر کی سوغاتیں ہیں۔جب آپ اپنی سوچ کو مثبت راہوں پر ڈال دیتے ہیں تواطمینان کی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے۔ یہ سکون آپ کوذہنی عوارض کے علاوہ بہت سی جسمانی بیماریوں سےبھی دور رکھتا ہے۔حضرت با با قلند ر گا فرمان ہے

مذہب اور لامذہبیت میں یہ بنیادی فرق ہے کہ لامذہبیت انسان کے اندر شکوک و شبہات، وسوسے اور غیر یقینی احساسات کو جنم دیتی ہے جب کہ مذہب تمام احساسات، خیالات، تصورات اور زندگی کے اعمال و حرکات کو ایک قائم بالذات اور مستقل ہستی سےوابستہ کر دیتا ہے “۔

مثبت طرزِ فکر شخصیت کو چار چاند لگادیتی ہے جبکہ منفی طرز فکر شخصیت کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیتی ہے۔ غربت، افلاس، بیماری اور ناکامی کو ذہن میں جگہ دینے سے یہی چیزیں آدمی کی طرف آتی ہیں۔ کامیابی حاصل کرنے کی اہم کنجی یہ ہے کہ جو آپ حاصل کرنا چاہتے ہیں اُس کو دل کی گہرائیوں سے حاصل کرنے کی کوشش کیجیے۔ خود کو اس میں محو کر دیجیے۔ وہ کام جو آپ کر رہے ہیں اُس کے لئے خود کو وقف کر دیجیے۔ یعنی جو کام آپ کرنا چاہتے ہیں اُسےمکمل یکسوئی سے کیجیے۔

شکستہ دل لوگوں نے صلاحیتوں میں کمی کےباعث شکست نہیں کھائی بلکہ تہہ دل سے کام نہ کرنے کی وجہ سے وہ کامیاب نہیں ہو سکے۔ ایسے لوگ کامیابی کے بارے میں سوچنے کی زحمت گوارا ہی نہیں کرتے۔ انہوں نے خود کو مکمل طور پر کامیابی کے سپرد ہی نہیں کیا ہوتا۔ اس فکر کا نتیجہ کیا نکلے گا ؟ جب کوئی شخص خود ہی درست نتائج کے حصول کے لیے یکسو نہ کر پائے تو وہ درست نتیجہ کیسے حاصل کر سکے گا۔

اپنی صلاحیتوں پر آپ کو یقین ہے، محنت و توجہ سے اپنے کام میں مشغول رہتے ہیں وقت ضائع نہیں کرتے تو یقین کیجیے کہ آپ زندگی میں بلند مقام حاصل کر سکتے ہیں۔

سید محمد عظیم برخیا قلندر با با فرماتے ہیں شک کو دل میں جگہ نہ دیں اس لئے کہ شک

شیطان کا سب سے بڑا ہتھیار ہے “۔ اپنے دل میں ہر گز ہر گز منفی سوچ یعنی شک کو جگہ مت دیں کیونکہ شک شیطان کا سب سے بڑا ہتھیار ہے۔ شک بآسانی کسی بھی کامیابی کو ناکامی میں بدل سکتا ہے۔ وہ لوگ جو اپنے مقصد کو واضح طور پر سوچتے ہیں اور مسلسل جدوجہد میں مصروف رہتے ہوئے بادِ مخالف سے نہیں گھبراتے وہی آگے بڑھتے ہیں۔ ایسے لوگ جو منزل یا مقصد کے متعلق واضح سوچ نہیں رکھتے شش و پنج میں مبتلا ہو جاتے ہیں کیونکہ انہیں معلوم نہیں ہوتا کہ انہیں کہاں جانا ہے۔ ماہر نفسیات ایڈم ہون بتاتے ہیں کہ اُن کے پاس ایک شخص آیا جو بہت مایوس تھا وہ ذہنی طور پر پریشان ، تھکا ماندہ لگ رہا تھا۔ اس سے پہلے کہ وہ مجھ سے کچھ کہتا میں نے اُس سے سوال کیا کہ ” آپ زندگی سے کیا

چاہتے ہیں ؟“

میں قطعاً کچھ نہیں جانتا، اس نے جھجکتے ہوئے کہا ” میں صرف اتنا جانتا ہوں کہ مجھے کہیں جاناہے مگر کہاں جانا ہے یہ میں نہیں جانتا“ یہ بتائیے آپ کی کون سی صلاحیت بہترین

ہے ؟“ میں نے پوچھا !میں نہیں جانتا اُس نے دہراتے ہوئے کہا میں نے کبھی اس کے متعلق نہیں سوچا“لیکن آپ کیا کرنا چاہتے ہیں؟ آپ کی کوئی خواہش تو ہو گی“ میں نے مزید پوچھا ! ” میں اس کے متعلق نہیں جانتا، میں نے بھی سنجیدگی سے اس

بارے میں غور نہیں کیا “.

غور سے سنتے، میں اُن سے مخاطب ہوا … ” آپ کو اپنے تصورات منظم کرنے ہوں گے۔ اپنے سوچنے کا زاویہ درست کرنا ہو گا۔ شروع میں آپ کو اس معاملے میں مشکل پیش آئے گی مگر آپ کو اس بات پر یقین رکھنا ہو گا کہ جو آپ کر رہےہیں ٹھیک کر رہے ہیں۔

آپ کو میری تجویز پسند آئے یا نہ آئے بہر حال آپ اپنے خیالات کو مثبت طرزِ فکر میں تبدیل کرنے کی کوشش کیجیے۔ کیجیے۔ یہی آپ کا علاج ہے۔ ۔ بے مقصد سوچ جس کا کوئی مقصد نہ ہو بے مقصد انجام کی طرف لے جاتی ہے“۔

ڈاکٹر ایڈم ہون نے بتایا کہ مجھ سے ملنے کے بعد اس شخص کو مثبت طرزِ فکر کا طریقہ معلوم ہو گیا۔ اس نے جان لیا کہ اُسے کہاں جانا ہے اور کیسے جانا ہے۔ اب وہ مثبت طرزِ فکر کا حامل ہے اور دوسروں کے لئےبھی مثبت سوچ رکھتا ہے۔

یہی بات اہل روحانیت کس طرح بیان کرتے ہیں۔ ملاحظہ کیجئے۔ حضرت بابا فرید گنج شکر کے پاس ایک آدمی نے قینچی بطور تحفہ دی تو بابا فرید نے فرمایا

اے بھائی تم ہمیں سوئی دیتے جو جوڑتی ہے۔ قینچی تو قاطع (یعنی کاٹنے والی) ہے اور ہم تو یہاں جوڑنے بیٹھے ہیں “۔

یہ مثبت طرز فکر کی طرف اشارہ ہے کہ الل والے چھوٹی چھوٹی چیزوں میں بھی مثبت طرز فکر کا خاص خیال رکھتے ہیں۔ قینچی اور سوئی کا تو بہانہ ہے اصل بات تعلیم کی ہے۔یہاں یہ بھی ممکن ہے کہ یہ ساری باتیں آپ انھیں بالکل پڑھنے کے بعد بیکار سمجھی

اور سوچیں کہ کوئی بھی تصور ہمارے حالات پر کیونکراثر انداز ہو سکتا ہے ؟

اس اعتراض کا جواب اور حل نہایت آسان ہے۔ وہ یہ کہ ہم اپنے فضول تصورات کو کچھ عرصے کے لئے دفن کر دیں یعنی ذہن میں آنے والے منفی خیالات کو یکسر نظر انداز کر دیں۔ ایسا کرنے سے ہم خود بخود بہتری محسوس کریں گے۔ مثبت سوچ بچ پر مبنی حقیقت، جبکہ منفی سوچ جھوٹ پر مبنی فریب ہے۔ مثبت سوچ کے لئے حوصلہ اور کردار کی ضرورت پڑتی ہے۔ جن لوگوں کا یقین مستحکم ہوتا ہے وہ کامیاب ہوتے ہیں۔ یقین جانیں مثبت سوچ ذہن اور جسم کی صحت کے لئے تریاق کی حیثیت رکھتی ہے۔ مثبت سوچ کے حامل افراد صحت مند جسم و کردار کے مالک بن جاتے ہیں۔ ان کے دل کا اطمینان ان کے چہرے سے جھلکنے لگتا ہے۔ کامیابی ان کی راہ تکنے لگتی ہے۔

خود کو یقین دلائیے کہ اللہ آپ کے ساتھ ہے اور آپ اگر کوشش جاری رکھیں گے تو راستے کی مشکلات حل ہو جائیں گی۔ ہر گز مایوسی کو ذہن میں جگہ مت دیں اور نہ ہی فضول خیالات کو جگہ دیں اپنے خیالات بہتری کی طرف لائیں۔ اس طرح آپ کی سوچ میں منفی طرز فکر کی جگہ مثبت طرزِ فکر پروان چڑھنے لگے گی۔ ایسا کرنے سے آپ حقیقت سے

قریب تر ہو جائیں گے۔ یہی مثبت طرزِ فکر تمام قوتوںکو یکجا کر کے یقین مستحکم کرتی ہے۔

اللہ کے دوست حضرت قلندر بابا فرماتے ہیں ہر کام پوری جد و جہد اور کوشش سے کیجئے لیکن نتائج کو اللہ تعالی کے اوپر چھوڑ دیں“۔

بشکریہ روحانی ڈائجسٹ جنوری

Loading