تعلیمات قلندر بابا اولیاءؒ
کامیابی کیلئے انفرادیت پیدا کیجئے
)قسط نمبر(1
بشکریہ روحانی ڈائجسٹ جنوری2023
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔تعلیمات قلندر بابا اولیاءؒ)حضرت قلندر بابا اولیاء کے مطابق خود کو منوانا اور بہتر سے بہتر کار کردگی کی خواہش کرنا انسان کی سرشت میں شامل ہے۔ یہ تقاضہ ہر انسان کے اندر موجود ہے۔ ہمارے معاشرے میں بحیثیت مجموعی اس جذبہ کےاظہار میں کمی محسوس ہوتی ہے۔
اس کی کیا وجوہات ہیں …. آیئے جائزہ لیتے ہیں۔
حضرت قلندر بابا اولیاء کا خیال آتے ہی ذہن میں علم کے ایک بحر بیکراں کا تصور ابھرتا ہے۔ حضرت قلندر بابا نے فطرت کے سربستہ رازوں سے پردہ اُٹھا کر مخلوق کو اس کے خالق سے قریب ہونے کا راستہ دکھایا ہے۔
آئیے ….! ہم اس مضمون میں فطرت کے ایک سربستہ راز پر غور و فکر کرتے ہیں۔ اس کی عقدہ کشائی واقف اسرار ورموز حضرت قلندر بابا اولیاءان الفاظ میں کرتے ہیں :
دنیا میں ہزاروں انسان بستے ہیں۔ ہر انسان دوسرے کی زندگی سے ناواقف ہے۔ یعنی ہر انسان کی زندگی راز ہے۔ جس کو دوسرے نہیں جانتے۔ اس راز کی بدولت ہر انسان اپنی غلطیوں کو چھپاتے ہوئے خود کو بہتر پیش کرنے کی کوشش کرتا ہے اور مثالی بننا چاہتا ہے۔ اگر اس کی غلطیاں لوگوں کے سامنے ہوتیں تو پھر وہ خود کو بہتر ظاہر کرنے کی کوشش نہ کرتااور زندگی کا ارتقاء عمل میں نہ آتا۔(از لوح و قلم – صفحه 198)
یہ بات سادہ سی مثال سے یوں سمجھی جاسکتی ہے کہ جب ایک بچے کو دوسرے لوگوں کے سامنے اکثر و بیشتر برا بھلا کہا جاتا ہے، اس کی خامیاں اور برائیاں دوسرے لوگوں کو بتائی جاتی ہیں تو اس کا نتیجہ یہ ہوتاہے کہ وہ بچہ پہلے سے زیادہ نافرمانی یا برے کام کرنے
لگتا ہے۔ ایسا بچہ وہ کوششیں ترک کر دیتا ہے جو آدمی دوسروں کے سامنے خود کو اچھا اور بہتر ثابت کرنے کے لیے کرتا ہے۔ اس طرح بچے کے اندر اپنی صلاحیتوں کو ابھارنے اور ذات کی ترقی کا عمل ترک جائے گا ….
ایسا کیوں ہوا؟.
ظاہر ہے کہ جب بچے کی شخصیت کی خامیوں اور منفی پہلوؤں کو سر عام دوسروں پر افشاء کر دیا گیا تو اس کی زندگی سے اخفاء کا عمل ختم ہو گیا اسی اخفاء یاذات کی برائیوں کو چھپانے کے عمل کو ہی حضرت قلندر بابا اولیاء نے شعوری ارتقاء کی بنیاد قرار دیا ہے۔ اخفاء کے ختم ہونے سے بچے نے اپنے آپ کو اچھا اور مثالی ثابت کرنے کی کوششوں کو ترک کر دیا۔
اس کا مطلب یہ ہوا کہ انسان اپنی کئی خامیوں اوربرائیوں کو چھپانے کے لیے بھی اچھے اور تعمیری کام کرتا ہے۔ گویا انسان کی پوشیدہ برائیاں اور خامیاں بھی اس کے مثبت اور تعمیری سمت میں کیے گئے اعمال کےلیے تحریک پیدا کرتی ہیں …..
ہے نا عجیب بات ! . ایک عادی مجرم یاڈا کو جو کہ دنیا کے سامنے بے نقاب ہو …. وہ آئندہ مزید غلط کام کرتا ہی چلا جاتا ہے۔ عادی اس مجرم کی زندگی سے اخفاء ختم ہو گیا، اس کے جرائم لوگوں کے سامنے آگئے اس لیے وہ خود کو بہتر ظاہر کرنے کی کوششیں ترک کر دیتا ہے۔ قابل غور بات یہ ہے کہ اس کے اندر اچھائی کا پہلو اس کی ذات کے اندر ہی موجود ہے۔ اس مسئلے کا بہترین حل اللہ تعالی سے معافی یا تو بہ ہے۔ اللہ تعالیٰ تو ہر مخفی شئے سے آگاہ ہیں تو بہ وہ عمل ہے جو انسان کو مثالی بننے کی طرف دوبارہ مائل کر سکتا ہے۔
فرشتے گناہ سے اور برائی سے پاک، بے عیب ہوتے ہیں اور انسان خیر و شر کا مجموعہ اور خطا کاپتلا ہے۔
انسان خیر و شر سے مرکب ہے۔ دراصل برائی اور کوتاہی کو چھپانے اور اس کی تلافی کا عمل انسان کے اندر ایک اچھا اور مفید انسان بننے کی تحریک پیدا کرتا ہے۔ اگر انسان کے اندر شہر کا مادہ نہ ہوتا تو نہ وہ اپنی برائیوں اور خامیوں کو چھپانے کی کوشش کرتا اور نہ ہی
اس کے اندر سماجی قبولیت Social approval حصول Achievemen
سماجی موازنے Social Comparisonجیسی تحریکات ہوتیں۔
حضرت قلندر بابا اولیاء کے قول مبارک کو مثالوں کے ذریعے سمجھ لینے کے بعد اب ہم اس موضوع کو دوسرے رخ کی طرف موڑتے ہیں ….. جب انسان اپنے آپ کو مثالی بنا کر پیش کرنا چاہتا ہے تو وہ نئے سے نیا اور اچھا کام کرنا چاہتا ہے اور اسی طرح نئے نئے راستوں اور نئے نئے علوم کی داغ بیل پڑتی ہے۔
آج ہم ترقی یافتہ ممالک میں دیکھتے ہیں کہ وہاں لوگ کسی نہ کسی طور پر اپنی انفرادیت منوانا چاہتے ہیں کوئی یونیورسٹی میں ریسرچ کر رہا ہے، کوئی پہاڑ کی چوٹی سر کر رہا ہے، کوئی نت نئے کمالات دکھا رہا ہے، کوئی سائیکل پر ساری دنیا کا چکر لگانا چاہتا ہے، کوئی بحری جہاز کے ذریعے سات سمندروں کی سیر کو نکلا ہوا ہے، کوئی کسی ایک جانور کی حرکات و سکنات اور عادات سمجھنے میں اپنی پوری زندگی لگا دیتا ہے وغیرہ وغیرہ….. سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہمارے معاشرے میں شعوری ارتقاء کی رفتار اتنی تیز کیوں نہیں ہے ؟…. ہمارے ہاں لوگوں میں اپنے آپ کو مثالی بنا کر پیش کرنے اور اپنی انفرادیت کو منوانے کا جذبہ کیوں کم لم ہے ؟ ؟.. ….
کسی بھی معاشرے میں جب لوگ کسی بھی نوعیت میں اور کسی بھی سطح پر انفرادیت پیدا کرنے کی ٹھان لیتے ہیں، وہاں بہتری اور ترقی کا عمل شروع ہو جاتا ہے …. اور اجتماعی طور پر ایسا مزاج رکھنے والی قو میں ہی ترقی یافتہ اقوام کہلاتی ہیں …. آخر ہمارےمعاشرے کا مجموعی مزاج ایسا کیوں نہیں ہے ؟…. حضرت قلندر بابا اولیاء کے ارشاد مبارک کی روشنی
اپنے میں ہر انسان کے اندر اپنی برائیوں کو چھپانے او آپ کو مثالی بنا کر پیش کرنے کا تقاضہ موجود ہے۔ یقینایہ تقاضا ترقی یافتہ ممالک تک محدود نہیں ہو گا …..
بلکہ ہر خطہ زمین کے لوگوں میں موجود ہو گا یہ فطری تقاضہ ہمارے معاشرے میں بھی موجود ہے۔ اسی نقطہ نظر کی تائید ایک نفسیاتی ریسرچ بھی کرتی ہے۔
مشہور امریکی ماہر نفسیات ڈگلس میک گریگورکے مطابق Douglas McGregor زیادہ تر تنظیمیں انسانی فطرت کے متعلق مختلف مفروضات کے سیٹ کی بنیاد پر تشکیل پاتی ہیں۔ اس طرح کے مفروضات کے سیٹ کو وہ نظریہ X کہتا ہے۔ جس کے مطابق انسان بنیادی طور پر کام اور ذمہ داریوں کو ناپسند کرتا ہے اور اُس میں – مقصدیت کم ہوتی ہے۔ اس لیے کام کی صورت حال میں یا تو اسے انعام دینا پڑتا ہے یا جبر اور دباؤ سے کام لیا جاتا ہے۔
میک گریگور کے اپنے نظریے کے مطابق جسے وہ نظریہ لا قرار دیتا ہے انسان بنیادی طور پر تخلیقی اور ذمہ دار ہے، کسی کام کی کی صورت : ت میں توانائی کا استعمال ایک قدرتی عمل ہے۔ کسی حد تک کام کے مقاصد انسان کی ذاتی ضروریات مثلاً عزت نفس، تحبس اور
مقابلے کی ضروریات کو پورا کرتے ہیں۔
لہٰذا ایسے کاروباری ادارے جو نظریہ X کی بنیاد پر کام کرتے ہیں وہ پیداوار کی کوالٹی اور مقدار کوبڑھانے کے لیے معیاری ترغیبات دیتے ہیں۔
البتہ جب کچھ کمپنیوں نے اپنے سیٹ اپ کو Y نظریے کے مطابق تبدیل کیا تو کیے گئے کام میں ڈرامائی تبدیلیاں پائی گئیں۔ مثلاً کمپنی میں پہلے ہر شخص پراڈکٹ کے ایک ایک حصے کو بناتا تھا اور آخر میں اسے جوڑ دیا جاتا، لیکن پھر کچھ چھوٹے چھوٹے گروپس
بنائے گئے جن میں ہر شخص پراڈکٹ کے شروع سے لے کر آخر تک ہر مرحلے پر کام کرتا تھا۔ اس طرح ور کر ز میں اپنے کام کے متعلق فخر زیادہ بڑھا۔ چھوٹے گروپس کی صورت میں کام کرنے سے ان کے باہمی تعلق اور دوستی میں بھی اضافہ ہوا۔ کارکن اپنی۔۔۔جاری ہے۔
بشکریہ روحانی ڈائجسٹ جنوری2023