Daily Roshni News

تقریب کی رونمائی کرن کرن سورج۔۔۔ مصنف۔۔ ڈاکٹر مخدوم محمد حسین

تقریب کی رونمائی کرن کرن سورج

(کتاب۔۔۔۔۔۔۔۔ واصفِ باصفا)

مصنف۔۔ ڈاکٹر مخدوم محمد حسین

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ تقریب کی رونمائی کرن کرن سورج۔۔۔ مصنف۔۔ ڈاکٹر مخدوم محمد حسین )30جولائی 1986ء کی سہ پہر پرل کانٹی نینٹل لاہور میں ایک شاندا تقریب کا اہتمام کیا گیا جس میں واصف صاحب کے عقیدت مندوں کی ایک کثیر تعدار نے شرکت کی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بانو قدسیہ:

صاحب صدر! جناب واصف صاحب!

خواتین و حضرات! جب واصف صاحب نے مجھے کہا کہ میں “کرن کرن سورج” پر مضمون پڑھوں تو حیران رہ گئی ۔ شاعری ، القائے ربانی ، خلیل جبران جیسی نثر ، فلسفیانہ ملفوظات اور رب کی باتوں کو میں محسوس تو ضرور کرتی ہوں لیکن سمجھتی نہیں ہوں ۔ کچھ خواتین کمرے میں گھستے ہی بتا سکتی ہیں کہ فضا میں کون سی خوشبو رچی بسی ہے لیکن کچھ لوگ سونگھتے رہ جاتے ہیں لیکن بتا نہیں سکتے کہ کون سی خوشبو کس شخص سے آ رہی ہے وہ کمرے کی فضا سے آ رہی ہے کہ کھلی کھڑکی کے باہر پھولوں کی فرستادہ ہے ۔ کرن کرن سورج بھی خوشبو کا ایک تحفہ ہے لیکن جانتی نہیں کہ پوری کتاب میں مہک ہے یا کسی خاص سطر سے آتی ہے ۔ خوشبو خیالات سے نکل رہی ہے یا صاحبِ کتاب سے ، کہیں سے حاصل ہو سکتی ہے یا یہ عام مارکیٹ کے لئے نہیں ہے ۔ یہ جسم کو لگانے کے کام آئے گی یا روح کو خوشبودار کرنے کے کام آئے گی ۔ اس کا بہتر تجزیہ بڑے نکھار کے ساتھ آنے والے چند لوگ کریں گے ۔ آپ نے دیکھا ہو گا کہ جب کسی قابلِ ذکر انسان کی سواری کسی جلسہ میں آتی ہے پہلے پنڈال کی تیاری کے لئے مختلف انتظامات ہوتے ہیں ۔ فراش ، گملے لگانے والے مالی ، پھاٹک کو کیلے کے پتوں سے سجانے والے ، تخت پر سُرخ قالین بچھانے والے ، روسٹرم اور مائیکروفون کے انتظام وغیرہ وغیرہ ۔

اصل سواری سے پہلے ایک قیامت بپا ہوتی ہے ۔ میں بھی اسی قیامت کا ایک حصہ ہوں ۔ میرے بعد مقررین آئیں گے آپ ان کی باتوں کو سنیں گے تو آپ کو “کرن کرن سورج” اوراس کے مصنف کے بارے میں بہت سی معلومات حاصل ہوں گی جن کی اہلیت مجھ میں نہیں ہے میں تو صرف یہ جانتی ہوں کہ بزرگان دین کی ذات مجھ میں تحیر کا عالم بپا کرتی ہے انسان کی زد میں کون سی گردوں ہے اور اس کے امکانات کی ممکنات کن سرحدوں سے ملتی ہیں اس کی جھلکی سی دیکھ کر میرے لئے کچھ بھی کہنا آسان نہیں ہوتا ۔

کچھ بھولے بھالے واصف علی صاحبؒ سے ملتے ہیں تو ان کے دل میں کرید ہوتی ہے وہ سوال کریں گے ۔ “اے جوگی! بتا تو کس پہاڑ سے اترا ہے کیا وہاں برف تھی؟ بتا کہ کیا اونچے  ، درخت سدا بہار دھند میں ڈھکے رہتے تھے ۔ بتا! جوگی کیا تُو جانوروں کی بولی بولتا ہے ۔ کیا تُو آبشاروں سے ، خود رو بیلوں سے گفتگو کر سکتا ہے؟ بتا! کیا شیر اور ہرنیاں مل کر تیرے مجھ پر پہرہ دیا کرتے تھے کہ تو پہاڑوں میں اس لئے رہا کہ مردم گزیدہ تھا؟ کہ پہاڑوں نے تجھے اس لئے کھینچا کہ وہاں نُور کی سمتیں تھیں کہ کرنوں جیسی ان گنت آوازیں تھی اور گھٹتی بڑھتی تجلیاں تھیں بتا جوگی! تیرا ماضی کیا ہے؟ ” معصوم روحیں اپنے ایمان کو مضبوطی دینے کے لئے تجسس رکھتی ہیں جیسے بچہ اس کھوج میں رہتا ہے کہ ماں نے ٹافیاں کہاں چھپائی ہیں ، وہ ماں کے کسی راز سے آگاہ نہیں ہونا چاہتا ، کچھ لوگ واصف صاحب کے متعلق اس لیے متجسس رہتے ہیں کہ وہ ازلی انکار کا شکار ہیں ۔ مثبت سے منفی اور منفی سے مثبت کا دائرہ مکمل کرتے رہتے ہیں وہ ان کی شخصیت سے متاثر ہونے کے بعد ان وجوہات کی تلاش میں رہتے ہیں جن سے وہ اپنے انکار کی عادت کو تقویت دے سکیں ۔ وہ جاننا چاہتے ہیں کہ واصف صاحبؒ کون ہیں؟ کس گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں؟  “کرن کرن سورج” سے پہلے وہ کہاں تھے ؟ ان کی کتنی بیویاں ہیں؟ اگر گزشتہ عہد میں کسی محبوبہ کے ڈسے ہوئے ہیں تو اس ناگنی کا نام کیا ہے؟ کیا یہ صاحبِ جائیداد ہیں اور اگر ہیں تو ان کی زمینں کہاں ہیں اور کتنی ہیں؟ لوگ ہر لمحہ اس کوشش میں رہتے ہیں کہ “دیکھا! ہم نہ کہتے تھے ، ہمیں پہلے ہی معلوم تھا” جو شخص جیسی تلاش میں رہتا ہے اسے ویسے ہی جواب ملتے ہیں ۔ سبب اور کوائف ویسے ہی حاصل ہوتے ہیں ۔

ایک شام کا ذکر ہے کہ ہمارے گھر کے باہر ایک وین کھڑی تھی اس میں چند ہپی چھوٹے سے تیل کے چولہے پر چائے پکانے کا عمل کر رہے تھے اشفاق صاحب گھر لوٹے اور انہیں اندر لے آئے ۔ دورانِ گفتگو پتہ چلا کہ وہ سب مختلف ممالک کے ہیں اور شاہراہوں پر دورانِ سفر ایک دوسرے سے ملے تھے ۔ ان میں سے ایک انگریز نے بتایا کہ وہ سری لنکا سے آرہا تھا میں نے سوال کیا آپ سری لنکا واپس جائیں گے” “جی نہیں میں نے اس دیس کو ہمیشہ کے لئے چھوڑ دیا ہے”۔ “کیا وہ جگہ خوبصورت نہ تھی؟ پھر آپ وہاں کیوں رہنا نہیں چاہتے؟”  بڑی دیر تک وہ اپنی داڑھی کھجاتا رہا پھر بولا “غالباً Growth نہیں تھی ، کچھ دیر کے بعد میں اردگرد کے سبزے کی طرح Vegetable بن جاتا ۔ میں اس انجام کے لئے تیار نہیں تھا ” ۔ اللہ کے برگزیدہ بندے سبزی بننا پسند نہیں کرتے، وہ جوانی میں بچپن  ، بڑھاپے میں جوانی اور حسن خاتمہ کے قریب Involvement کے آرزو مند نہیں ہوتے ۔ اس لئے ان کا ماضی نہیں ہوتا ۔ ان کی صرف Growth ہوتی ہے ۔ان کا ماضی بڑھوتری کا اونچا نیچا زینہ ہوتا ہے ۔ جو باتیں عام زندگی میں گہری منافقت اور تضاد کی نشان دہی کر سکتی ہیں ، ان کے لئے فقط کوٹھالی کی آگ جیسی ہوتی ہیں ۔ جن میں تپ کر وہ کندن بنے ہوتے ہیں ۔ صاحبِ حال بھی کبھی بچہ رہا ہے ، اس پر بھی جوانی کا والہانہ حملے کئے ہیں لیکن عام انسان اور بزرگانِ دین میں یہی فرق ہے کہ ہر Crisis کو ہم نے کیسے Face کیا اور اس نے ان حالات سے کیسے ارتقاء کی سیڑهیاں بنائیں ۔ حالات سبھی کے سانجھے ہیں بچپن میں سبھی کھاتے ہیں ، کھیلتے ہیں  ، جھگڑتے ہیں ، جوانی میں سب مبتلا رہتے ہیں  ، گھر بناتے ہیں ، بچے پالتے ہیں  ، دوست بنانے اور دشمن بنانے کا عہد ہوتا ہے ۔فرق حالات ، تجربات یا واقعات کا نہیں ہے ۔ Building Blocks ہم سب کو ملتے ہیں فرق روح کی لطافت اور ردعمل کا ہے غم اور خوشی کے شدید احساس سے آگے نہیں بڑھتا ۔ خاص انسان ، خام مواد سے لطیفہ پیدا کرتا ہے لیکن خاص الخاص کے ہاتھ میں یہ حالات شعبدہ بازی کی مضبوط رسی ہے جس سے وہ آسمان میں ٹھیکری لگانے کا کام کرتا ہے اور پھر پویا ، پویا آسمانی مسافتوں کی جانب مضبوطی اور شکر گزاری کے ساتھ سفر کرتا ہے ۔

اس لیے مجھ جیسوں کو نہ تو واصف صاحب جیسوں کی سمجھ آ سکتی ہے نہ ان کی کتاب “کرن کرن سورج” کی ۔ ہم بیان کی غلطیاں دیکھنے والے ہیں ۔ ہم چاہے واصف صاحبؒ سے ملیں ، ان کی کتاب پڑھیں  ، یا ان کی محفل سے اٹھ کر واپس آئیں ، واپسی پر کار میں بیٹھتے ہی ہم تجزیئے کا شکار ہو جاتے ہیں ، چھان پھٹک کی عادت ہو تو عمل سے گریز کی توجیہہ بھی مل جاتی ہے ۔ ہمارے پاس اتنے سارے نظریے ہیں  ، پیمانے ہیں ، ہم ملک سدھارنے والے ہیں  ، راہیں بجھانے والے ہیں ، ہم اگر مان بھی جائیں گے  ، اعتراف بھی کر لیں گے تو کتنی دیر ۔ منفی سے مثبت کا سفر آخر کتنی دیر رہ سکتا ہے ۔

ابھی پچھلے دنوں کی بات ہے کہ ہمارے درمیان سے ایک مرد ابریشم خموشی سے سلیپر پہن کر چلا گیا ۔ جانے سے پہلے اس نے تمام لوگوں سے ملنے کی خواہش کی ، کوشش کی  ، سب کے دُکھ درد میں شریک ہوا ۔ مجھے پہلی بار احساس ہوا کہ میری سہیلی نثار عزیز نے قدرت اللہ شہاب کا نام مرد ابریشم رکھ کر کسی بڑی سخت چیز سے اس کو تشبیہ دی ہے ۔ ان کے جانے کے بعد لوگوں نے انہیں اور بھی سخت القاب دئیے ، کسی نے انہیں کہا کہ برا سی ایس پی تھا  ، آئی سی ایس تھا کسی نے انہیں عالم کہا ، کسی نے ادیب ۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہ نہیں کہ وہ یہ سب کچھ نہیں تھے ۔ وہ مختلف اوقات میں یہ سب کچھ رہے تھے لیکن یہ سب مراحل طے کرنے میں ، کرتے ہوئے  ، ان کی خامیوں  ، خوبیوں اور خرابیوں سے گزر کر وہ “ابریشم” ہوئے تھے ۔ جب غم شدید ہو تو ردعمل بھی شدید ہوا کرتا ہے ۔

فرط غم میں شہاب صاحب کے چاہنے والوں نے اپنے طور جان سے گزر جانے کا فیصلہ کیا ، اپنا وجود نذر دے کر ان کی ذات کو بقا دینے کا ارادہ کیا ہے ۔ کچھ نے تجویز کیا کہ وہ سال بہ سال ایک تقریب منائیں گے ، ایک صاحب نے مشورہ دیا کہ آؤ باہم مل کر کتاب لکھیں جس میں شہاب صاحب کی پیاری پیاری باتیں ہوں ، ایک دو نے کہا کہ چلو قبر پر ایسا سنگ مر مر کا روضہ بنائیں جو رہتی دنیا تک قائم رہے ۔ ہم سب انہیں اپنے اپنے طور پر انہیں ابدیت  بخشنے کی کوشش کر رہے تھے ۔ کسی کو بھی خیال نہ آیا کہ جب تک ہم میں سے ایک اور مرد ابریشم پیدا نہ ہو سلسلہ جاری نہیں رہ سکتا ۔

بڑے مزار اور چھوٹے مزار میں بزرگان دین کی چھوٹائی یا بڑائی کا مسئلہ نہیں ہے کیونکہ تمام بزرگان دین کا وجود ایک ہے بالکل ایسے جیسے آئینہ خانے میں ایک روشن میں ایک شمع روشن کریں تو چہار سمت موم بتیاں روشن ہو جاتی ہیں ۔ چھوٹے اور بڑے مزار میں فقط مرید کا ، ماننے والے کا فرق ہوتا ہے ۔ جب ماننے والا مولانا روم جیسا ہو تو شمس تبریز کی Myth بنتی ہے ورنہ بڑا آدمی تو بڑا ہی رہتا ہے چاہے اس کی یاد کتنی ہی چھوٹی کیوں نہ ہو ۔ ان لوگوں کے پاس ہمارے جیسے پیمانے نہیں ہوتے ۔ یہ بے وفائی کی ملاوٹ کے ساتھ وفا کرتے ہیں اور بے وفائی میں بھی وفا کا خمیر ڈال دیتے ہیں ۔ ان کا سچ جھوٹ کے فریم میں اور بھی خوبصورت لگتا ہے ۔ اور جھوٹ کے آئینہ میں سچ کی تصویر ابدیت حاصل کرتی ہے یہ لوگ شعبدہ باز ہیں ۔ ان سے انسانی ممکنات کے امکانات کھلتے ہیں یہ ہمارے جیسی حرکتیں کرتے ہیں لیکن ان کا عمل ارتقاء کا آئینہ دار ہوتا ہے ۔ اس لیے یہ کیمیا گر دنیا کو دین بنانے کا فن جانتے ہیں ۔

میں واصف صاحبؒ کو بہت اچھی طرح سے نہیں جانتی ۔ میں ان کی کتاب “کرن کرن  سورج” کو خوشبو کا جھونکا سمجھتی ہوں  ، جو محسوس تو کیا جا سکتا ہے ، سمجھا نہیں جا سکتا  ، پھر پتی پتی کرنے سے پھول میں باقی بھی کیا رہتا ہے ۔ اس لئے میں نے ان تجربات سے گریز کیا ہے جو وقتاََ فوقتاََ میرے ذہن میں  ، کار میں واپسی پر ابھرے ہیں ۔ میں آپ کے اور ان کے درمیان زیادہ دیر تک حائل بھی رہنا نہیں چاہتی ، کیونکہ کچھ لوگ مجھ سے بہتر جانتے ہیں میری ایک ہی دعا ہے کہ وہ تا دیر اپنے چاہنے والوں سے بے وفائی نہ کریں اور ان کے پیچھے چلنے والوں میں سے کوئی ایسا ضرور ہو جو مجسم واصف ہو اور ان کی جلتی ٹارچ کو لے کر اولپمیا کی پہاڑی پر بھاگنے والا ہو ، دنیا کو دین بنانے کا نسخہ ضائع نہ ہو اور ایسے کیمیا گر آنے والی نسلوں کے لئے باعثِ رحمت ہوں جیسی رحمت آج واصف صاحبؒ ہیں ، واصف صاحب ؒ میری طرف سے مبارک باد اور اس حوصلہ افزائی کا شکریہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(کتاب:- ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ واصفِ باصفا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ صفحہ نمبر 64  ، 65  ، 66  ، 67 ، 68  ، 69)

(مصنف :- ڈاکٹر مخدوم محمد حسین)

Loading