Daily Roshni News

تہذیبی زوال روکنے کے لئے بیٹوں کی تربیت ناگزیر

تہذیبی زوال روکنے کے لئے بیٹوں کی تربیت ناگزیر

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )پاکستانی معاشرہ اس وقت ایک خطرناک موڑ پر کھڑا ہے۔ اخلاقی اقدار، رواداری، نرمی اور برداشت جیسی صفات جنہیں کبھی ہمارے معاشرتی حسن کا حصہ سمجھا جاتا تھا، اب نایاب ہوتی جا رہی ہیں۔

معمولی باتوں پر غصہ، بدتمیزی، گالم گلوچ اور جان لیوا تصادم روزمرہ کا معمول بنتے جا رہے ہیں۔ ہم ان رویّوں کو انفرادی خرابی سمجھ کر نظرانداز کرتے ہیں، حالانکہ یہ مسئلہ دراصل ایک اجتماعی سماجی بیماری کی صورت اختیار کر چکا ہے۔

علمِ عمرانیات کے مطابق، فرد کا رویہ صرف اس کی ذاتی فطرت کا نتیجہ نہیں ہوتا بلکہ معاشرتی ماحول، ادارے، قانون، میڈیا اور روایات اسے تشکیل دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب معاشرہ مجموعی طور پر بے سمت ہو جائے، تو فرد بھی الجھن، مایوسی اور بے مقصدیت کا شکار ہو جاتا ہے۔ فرانسیسی ماہر عمرانیات ایمل دورکھائم نے ایسی کیفیت کو anomie کا نام دیا ہے یعنی ایک ایسا وقت جب معاشرتی ضابطےکمزور پڑ جائیں اور افراد کو زندگی کی رہنمائی میسر نہ رہے۔

آج یہی کیفیت پاکستان کے ہر طبقے، ہر عمر اور ہر علاقے میں محسوس کی جا سکتی ہے۔ چھوٹی چھوٹی باتوں پر لڑائیاں، دفاتر میں تحقیر، اسپتالوں میں مریضوں سے بدتمیزی، اور سڑکوں پر غصے کا لاوا، اب عام سی بات لگتی ہے۔ بااختیار طبقہ، جیسے کہ افسران، اساتذہ یا ڈاکٹرز، بدتمیزی کو اپنا حق سمجھنے لگے ہیں۔ جبکہ غریب طبقہ محرومیوں  میں جل کر اقدار کھو  رہا ہے ۔

سوشل میڈیا نے اس خرابی کو کئی گنا بڑھا دیا ہے۔ اب گالی، طنز، نفرت، اور فرقہ واریت کو “رائے کی آزادی” سمجھا جاتا ہے۔ ڈیجیٹل رائٹس فاؤنڈیشن کی ایک رپورٹ کے مطابق، ہر 10 میں سے 7 نوجوان آن لائن بدتمیزی یا ہراسانی کا شکار ہو چکے ہیں۔ انٹرنیٹ پر جو کچھ مقبول ہو رہا ہے، وہ نرمی یا تہذیب نہیں بلکہ اشتعال، غصہ اور چیخ پکار ہے۔ نوجوان نسل اسی طرز کو زندگی سمجھنے لگی ہے۔

معروف سوشیالوجسٹ ماکس ویبر کے مطابق، تعلیم، مذہب اور قانون کسی بھی معاشرے کی اخلاقی سمت متعین کرتے ہیں۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں یہ تینوں شعبے بری طرح متاثر ہو چکے ہیں۔ تعلیم کاروبار بن چکی ہے، مذہب فرقہ واریت کا ذریعہ، اور قانون کمزور کے لیے مذاق۔ ایسے میں ایک مہذب معاشرہ کیسے پنپ سکتا ہے؟

المیہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں “تربیت” صرف بیٹیوں کے لیے مخصوص ہو چکی ہے۔ انہیں چپ رہنے، برداشت کرنے، شرم و حیا کی تلقین کی جاتی ہے۔ مگر بیٹوں کو نہ نرمی سکھائی جاتی ہے، نہ احترام، نہ زبان کا لحاظ۔ یہی بیٹے جب شوہر، بھائی یا باپ بنتے ہیں تو صرف طاقت دکھاتے ہیں — محبت نہیں۔

بیٹے کی ہر زیادتی کو چھپانا، اس پر پردہ ڈالنا اور اسے “مرد” ہونے کا لائسنس دینا، دراصل آئندہ نسلوں کے لیے زہر گھولنے کے مترادف ہے۔ اگر بیٹی کو صبر سکھانا ضروری ہے تو بیٹے کو عدل، برداشت اور عزتِ انسان سکھانا اس سے کہیں زیادہ اہم ہے۔

ہمارے ہاں مرد کو رونا، نرمی سے بات کرنا یا جذبات کا اظہار کرنا “کمزوری” سمجھا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ لڑکے اندر سے جذباتی طور پر ناپختہ رہتے ہیں، اور غصے یا جبر کے ذریعے اپنی کمزوری چھپاتے ہیں۔ اصل مرد وہ ہے جو نرمی سے بات کرے، برداشت کرے، اور عزت دے۔

تبدیلی کی بنیاد گھروں سے رکھنی ہو گی۔ اگر والدین خود بچوں سے چیخ کر بات کریں، نوکروں کو جھڑکیں، یا ایک دوسرے کی تحقیر کریں، تو بچے وہی سیکھیں گے۔ تمیز صرف پڑھائی سے نہیں، ماحول سے سکھائی جاتی ہے۔

معاشرتی تربیت طبقاتی ہو چکی ہے۔ مراعات یافتہ طبقہ طاقت کے زعم میں بدتمیز ہو گیا ہے، جبکہ محروم طبقہ غربت کے زخم سہتے سہتے تلخ ہو چکا ہے۔ دونوں طبقات میں موجود غصے، بداعتمادی اور عدم برداشت کو سمجھنے اور ختم کرنے کے لیے ہمیں انصاف، برابری اور مواقع کی فراہمی کو بھی تربیت کا حصہ بنانا ہو گا۔

اب وقت آ گیا ہے کہ ہم اپنے تعلیمی نظام میں اخلاقیات، سوشیالوجی اور انسانی تربیت کے مضامین شامل کریں۔ میڈیا کو چاہیے کہ وہ صرف طاقتور مرد کا نہیں، بلکہ احساس رکھنے والے مرد کا ماڈل بھی دکھائے۔ مذہبی اداروں کو شدت پسندی کے بجائے درگزر اور انسانیت کا سبق عام کرنا ہو گا۔

ہمیں بیٹیوں کے ساتھ بیٹوں کی تربیت پر بھی توجہ دینی ہو گی۔ کیونکہ بیٹی کی تربیت سے خاندان سنورتا ہے، اور بیٹے کی تربیت سے معاشرہ بچتا ہے۔ اگر تربیت کو صرف صنف کی بنیاد پر کرتے رہے، تو یہ معاشرہ انا پرست، بے رحم اور بدتہذیب لوگوں کا جنگل بن جائے گا، جہاں عزت بچے گی اور نہ انسان۔

Loading