Daily Roshni News

تین پردے ” (اور میں وہاں بھی اکیلا نہیں تھا )

تین پردے ” (اور میں وہاں بھی اکیلا نہیں تھا )

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )کچھ بھی نہی تھا بس پانی کا  ایک قطرہ تھا … میری طرح کے ایک کروڑ قطرے اور بھی تھے – لیکن منزل پر میں ہی پہنچا – اس وقت تک مجھے بس جو ایک چیز یاد تھی وہ بس وہ وعدہ تھا جو میں نے شب الست پر اپنے رب سے کیا تھا .. الست بربکم  …کہ “تو ہی میرا رب ہوگا ” لیکن رب ؟ وہ کون ہے ؟ کہاں ہے ؟ – اس وقت نہیں علم تھا —

انڈے سے امتزاج کے بعد مجھ میں بہت سی تبدیلیاں آنے لگیں – میں ایک سے دو ، دو سے چار ، چار سے سولہ اور یوں جسامت میں بڑھتا گیا – ہر چار میں سے ایک زایگوٹ اس مرحلے پر ضائع ہو جاتا ہے – لیکن میں ان تین میں سے ایک تھا جو بچ گیا اور اپنا سفر جاری رکھے رہا – اب میرا نام “زایگوٹ” (Zygote) سے “بلاسٹو سائٹ ” (Blastocyst)  تھا اور میرا گھر “بیضا دانی” کی جگہ “رحم” تھا – اس نئی جگہ آنے پر میں سہما ہوا بھی تھا اور متجسس بھی – ابھی میں سوچ ہی رہا تھا کہ ایک جھلی نے مجھے اوڑھ لیا اور مجھے ایسے ڈھانپ لیا جیسے میری حفاظت کرنے آئ ہو – اس کا نام “امنیو ٹک سیک ” (Amniotic sac) تھا اور اب میرا نام امبریو (Embryo)  تھا –

اب پناہ گاہ مل گئی تو مجھے بھوک ستانے لگی تھی- پریشان ادھر ادھر دیکھ رہا تھا تو  تب اس جھلی کے ساتھ ایک بیگ آ ملا جس میں مجھے کھانا ‘ پانی اور آکسیجن ملنے لگی – جھلی نے بتایا کہ اس بیگ کو “پلے سنٹا ” (Placenta) کہتے ہیں – میں حیران تھا کہ میں جو سوچتا ہوں وہ فورا سے ہو جاتا ہے – اب تک مجھے وجود میں آئے چار ہفتے گزر چکے تھے – میرے بے نشان و گمنام وجود میں دو حلقے پڑنے لگے تھے جن کے ذریعے روشنی مرے وجود میں داخل ہورہی تھی – اس روشنی میں مجھے نظر آیا کہ میرا ایک چہرہ بھی ہے – میں اپنے وجود کو محسوس کر رہا تھا لیکن پھر بھی اس پاس کا سناٹا ہراساں کر رہا تھا – ابھی سوچ ہی رہا تھا کہ اس کو کیسے دور کروں کہ مجھے “دھک دھک ” کی آواز انے لگی جو ایک منٹ میں 150  دفعہ  کسی متواتر دھن کی طرح آرہی تھی – میں ارد گرد دیکھنے لگا کہ اس ساز کا کار ساز کون ہے – تب میری نظر اپنے سینے پر پڑی جہاں ایک چھوٹا سا دل دھڑک رہا تھا – یہ وہ مرحلہ تھا جب ہر سال چار ہزار دل اس مرحلے پر وقت پر نہی دھڑک پاتے اور پیچیدگیوں کی وجہ سے ان کی دھڑکن کا ساز بے ربط ہو جاتا ہے – میں ان خوش قسمت دلوں میں سے ایک تھا جس کی دھڑکن بہت نظم سے سر گرم تھی – لیکن ابھی تک مجھے سمجھ نہی آرہاتھا کہ کون تھا جو مرے ہر خدشے سے اگاہ تھا اور اس کا ایڈوانس میں بندو بست کر رہا تھا  –

اب ایک ماہ گزار چکا تھا اور میری جسامت چاول کے ایک دانے جتنی ہو چکی تھی – اگلے ایک مہینے میں میرے وجود میں دو  چھوٹے چھوٹے بازو اور ٹانگیں ظاہر ہونے لگیں تھی – مجھے اس وقت اس بات کا ادراک نہی ہوا تھا کہ ہر تین سو میں سے ایک ایسا وجود ہوتا ہے جس کی اس مرحلے پر ٹانگیں اور بازو نہں بن  پاتے – لیکن یہ کیا، میں یہاں بھی قسمت والا تھا – اس دوسرے مہینے میں میرا دماغ اور حرام مغز بن رہا تھا – میں سوچ رہا تھا – میں محسوس کر رہا تھا -اس احساس کو یاد رکھ سکتا تھا –  یہ مہینہ ختم ہوا تو میرے پاس دماغ تھا ‘ دل تھا ‘ معدہ تھا – آنتیں تھی – میں کھا سکتا تھا – میں پی سکتا تھا – میں سونگھ سکتا تھا – میں خارج کر سکتا تھا – میں خوش تھا اورشدید حیران بھی کہ اس مرحلے پر سو میں سے بائیس ایسے وجود ہوتے ہیں جن کے دماغ اور اعصاب میں کمی رہ جاتی ہے – لیکن یہاں بھی میں ان اٹھتر  میں سے تھا جو با لکل صحت مند دماغ و دل کے مالک تھے –  میں بہت نہال  تھا – میرا نام  بھی بدل کر ” فیٹس “(Fetus)  ہوگیا تھا اور میں بھی اپنے نام کی طرح بالکل “فٹ ” تھا – اگلے دو مہینوں میں میرے ہاتھ انگلیاں، جگر گردے ‘ کان اور منہ سب مکمل ہو چکے تھے – میں خوشی سے ہاتھ پاؤں کی انگلیاں کبھی کھولتا تھا اور کبھی بند کرتا تھا – اپنے اس گھر جس کا نام “یوٹرس ” تھا اس میں کبھی ادھر تیرتا اور کبھی ادھر گھومتا – اس خوشی میں مجھے احساس ہی نہ ہوا کہ ہزار میں سے ایک وجود کا نہ گردے بن پاتے ہیں اور نہ جگر کام کرتا ہے – لیکن میرے پاس یہ سب ٹھیک حالت میں تھے – ابھی تک مجھے اس کرشمہ ساز کا نام نہیں پتا تھا جو مرے وجود کی انجینیرنگ کر رہا تھا –

مہینے گزرتے جارہے تھے – میں توانا ہوتا جارہا تھا – اب زیادہ ہاتھ پاوں چلا رہا تھا – شرارت میں کبھی اپنے گھر کی ایک دیوار پر پاؤں مارتا اور کبھی دوسری طرف پلٹی کھاتا – جب جب میں یوں کرتا مجھے باہر سے کسی کے خوش ہونے اور ہنسنے کی آواز آتی – ایسا لگتا جیسے میری یہ شرارتیں کسی کو بہت لبھا رہی ہیں –

اس وقت مجھے نہی پتا تھا کہ یہ شرارتیں کرتے کرتے ہر سو میں سے تین کھلاڑی کھیل ہار جاتے ہیں- لیکن یہاں بھی میں کھیل جیت رہا تھا – میرا وجود بڑھ رہا تھا – مرے احساس توانا ہورہے تھے – میری پلکیں ، ناخن ‘ بھنویں اور سر کے بال بن رہے تھے —واہ- میں  تو خوبصورت لگنے لگا تھا – اب میرے پھیپھڑے بن رہے تھے – مرے جسم میں خون رواں دواں تھا – مجھ میں اب وہ احساس پیدا ہورہا تھا کہ مجھے کوئی دیکھے – مجھے کوئی سنے – میں اٹھایا جاؤں – میں کھلایا جاؤں – میرا گھر جہاں میں نو مہینے سے تھا اب مجھے الوداع کہنے کی تیاری میں تھا – میں نئی جگہ جانے سے خوفزدہ بھی تھا اور پر جوش بھی – میرے گرد جھلی سکڑنے لگی تھی – پانی کم ہونے لگا تھا – ایسا لگ رہا تھا کہ سب مجھے خدا حافظ کررہے ہوں – میں بھی ہاتھ ہلا رہا تھا اور پھر پلک جھپکتے میں مجھے ایک جھٹکا محسوس ہوا – میں نے خوف  سے آنکھیں بند کرلیں – اور جب آنکھ کھولی تو خود کو کسی کی گود میں پایا – میں  گھبرایا – جی بھر کر رونے لگا – میرے آس پاس لوگ میرے رونے پر ایک دوسرے کو مبارک باد دینے لگے – میں وجود میں آ چکا تھا – میں پیدا ہو چکا تھا – اور مجھے احساس تھا کہ میں اب بھی خوش قسمت رہا تھا کہ کیوں کہ ہر سو میں سے ایک بچہ  اس مرحلے پر جان سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے میں اس دفعہ بھی ننانوے میں سے تھا – میں ابھی اسی سوچ میں تھا کہ کہاں ہے میرا خالق ؟

کون ہے میرا مالک ؟ 

کون ہے وہ مجسمہ ساز ؟ کس کی تخلیق کا ہے یہ انداز ؟

اسی سوچ میں تھا کہ میرے کان میں ایک پر سرور سی آواز گونجنے لگی —

الله اکبر الله اکبر…الله اکبر الله اکبر —

اور میں جان گیا کہ وہ رب کون تھا ؟ وہ الله ہی تھا   جس نے اس جھلی کو میرے گرد لپیٹ دیا تھا – وہاں اندھیرے میں  میرے کھانے کآ سامان کردیا تھا  – جس نے میرا دل ، دماغ، جگر اور پھیپھڑے تخلیق کیے کہ میں سوچ سکوں، محسوس کرسکوں  –  جس نے میرے  چہرے پر آنکھیں ، آنکھوں میں روشنی اور روشنی میں خود کو ظاہر کیا تھا ——سب ڈاکٹر بول رہے تھے کہ میرا یہ رونا  میرے پیدا ہونے اور زندگی کی علامت  تھا  – لیکن وہ انجان تھے کہ پیدا تو میں نو ماہ پہلے ہی ہوگیا تھا – اور میرا یہ رونا اب اس رب  کا شکرانہ تھا جو الست بربکم سے لے کر پانی کے قطرے تک ‘ اور ماں کے  رحم سے لے کر  ماں کی گود تک Embryogenesis  سے  First Cry تک  ان تین پردوں میں ایک ایک مرحلے پر میرا کار ساز میرا ساتھی  بنا  رہا تھا  – اب میں نموں تھا –  دل پر سکوں تھا – اب میرا نام تھا – ایک پہچان تھی … سولہ انچ جسامت —-چھے پاونڈ وزن  اور میں اب شہد کھا رہا تھا ……..

يَخْلُقُكُمْ فِي بُطُونِ أُمَّهَاتِكُمْ خَلْقًا مِن بَعْدِ خَلْقٍ فِي ظُلُمَاتٍ ثَلاثٍ ذَلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمْ لَهُ الْمُلْكُ لا إِلَهَ إِلاَّ هُوَ فَأَنَّى تُصْرَفُونَ

“وہ تمہاری تخلیق تمہاری ماؤں کے پیٹ میں اس طرح کرتا ہے کہ تین اندھیروں کے درمیان تم بناوٹ کے ایک مرحلے کے بعد دُوسرے مرحلے سے گذرتے ہو۔ وہ ہے ﷲ جو تمہار پروردگار ہے ! ساری بادشاہی اُسی کی ہے، اُس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں ہے۔ پھر بھی تمہارا منہ آخر کوئی کہاں سے موڑ دیتا ہے؟”

Loading