تین ڈاکٹر اور قدرت کا انتقام
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )انسان اپنی زندگی میں کیے گئے گناہوں، جرائم اور غلطیوں کی سزا اسی دنیا میں بھگتتا ہے، اور میں اس حقیقت کی ایک زندہ مثال ہوں۔ پروفیسر صاحب کی آنکھوں میں نمی چھائی ہوئی تھی، جب انہوں نے اپنے سفید بالوں والے سر پر مفلر لپیٹا اور ایک ٹشو سے اپنے چہرے کی جھریوں میں بہتے آنسوؤں کو صاف کیا۔ آپ نے دنیا میں کئی ایسے بزرگ دیکھے ہوں گے جن کے چہروں پر انتظار کی گہری لکیریں کندہ ہوتی ہیں۔ یہ بزرگ اپنے کمروں کی تنہائیوں، گھروں کی بالکونیوں، دہلیزوں، گلیوں یا فٹ پاتھوں پر بیٹھ کر ادھر ادھر، اوپر نیچے دیکھتے رہتے ہیں۔ میں اکثر سوچتا تھا کہ یہ بزرگ آخر کیا تلاش کرتے ہیں؟ وہ خلا کی وسعتوں میں کیا کھوجتے ہیں؟ اس سوال کا جواب مجھے اسی ریٹائرڈ پروفیسر نے دیا۔ انہوں نے کہا، “ہم جیسے لوگ موت کے فرشتے کا انتظار کرتے ہیں، لیکن یوں لگتا ہے کہ ہمارے حصے کی موت بھی ہم سے روٹھ چکی ہے، اور ہماری سزا ابھی مکمل نہیں ہوئی۔”
انہوں نے مزید کہا، “جب آپ کے سارے کام ختم ہو جاتے ہیں، جب زندگی کو آپ کی کوئی ضرورت باقی نہیں رہتی، اور جب آپ اس دنیا میں ایک فالتو وجود بن کر رہ جاتے ہیں، تو آپ گلیوں میں بیٹھ کر موت کا انتظار کرتے ہیں۔ لیکن موت کا فرشتہ آپ کے قریب سے گزر جاتا ہے، اور اسی لمحے آپ کو احساس ہوتا ہے کہ آپ کی سزا ابھی باقی ہے۔ ابھی کچھ گناہ، کچھ جرائم اور کچھ ایسی غلطیاں باقی ہیں جن کی سزا آپ نے ابھی تک نہیں بھگتی۔” انہوں نے اپنے سرد ہاتھوں سے اپنے کان رگڑے اور دکھ بھرے لہجے میں کہا، “میں نے بھی اپنی زندگی میں ایک ایسی ہی غلطی کی تھی۔ اس غلطی کی سزا کا 75 فیصد حصہ میں بھگت چکا ہوں، لیکن 25 فیصد ابھی باقی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ جب تک یہ باقی سزا پوری نہیں ہوتی، میں اس دنیا سے رخصت نہیں ہو سکتا۔ اسی لیے میں ہر صبح گھر سے نکلتا ہوں، صدر کے علاقے میں جاتا ہوں، وہاں ایک پرانی کوٹھی کے سامنے بیٹھ جاتا ہوں، اور شام کو واپس گھر لوٹ آتا ہوں۔”
وہ ایک لمحے کے لیے سانس لینے کو رُکے۔ میں نے موقع غنیمت جانتے ہوئے پوچھا، “لیکن آپ وہاں کیوں جاتے ہیں؟” انہوں نے میری طرف گہری نگاہ سے دیکھا اور کہا، “میں وہاں چیخیں سننے جاتا ہوں۔ مجھے یقین ہے کہ جب تک اس کوٹھی سے چیخوں کی آوازیں نہیں اٹھیں گی، میری سزا ختم نہیں ہوگی، اور میں اس دنیا سے نہیں جا سکتا۔” میں نے کہا، “جناب، میں آپ کی بات ابھی تک سمجھ نہیں پایا۔” وہ ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ بولے، “میں پنجاب کے ایک تعلیمی بورڈ کا چیئرمین تھا۔ ایک بار ایف ایس سی کے امتحانات ہوئے۔ امتحانات کے چند روز بعد مجھے پنجاب کی ایک اعلیٰ سیاسی شخصیت نے اپنے دفتر بلایا۔ جب میں وہاں پہنچا تو وہاں ملک کا ایک نامور قانون دان بھی موجود تھا۔ میں صوفے پر بیٹھا تو سیاسی شخصیت نے دفتر کا دروازہ اندر سے بند کیا، ٹیلی فون بند کر دیا، اور میرے قریب آ کر بیٹھ گئے۔ میں ان کے اس رویے پر حیران ہوا۔ انہوں نے قانون دان کو بھی قریب بلایا اور پھر کہا، ‘ہم دونوں کے بچوں نے ایف ایس سی کے امتحانات دیے ہیں۔’ انہوں نے اپنی جیب سے ایک پرچی نکالی، اسے میز پر رکھا اور کہا، ‘یہ ان دونوں بچوں کے رول نمبر ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ ان کے نمبر اتنے زیادہ ہوں کہ وہ میڈیکل کالج میں داخلہ لے سکیں، اور یہ کام آپ نے کرنا ہے۔'”
وہ خاموش ہوئے۔ میں نے ڈرتے ڈرتے کہا، “جناب، میڈیکل کالجوں میں وزیراعلیٰ کا کوٹہ ہوتا ہے۔ اگر نمبر کم بھی ہوں، آپ اس کوٹے کے ذریعے اپنے بچوں کو داخلہ دلوا سکتے ہیں۔” وہ مسکرائے اور بولے، “ہم یہ کر سکتے ہیں، لیکن اس سے سیاسی بدنامی کا خطرہ ہے۔ اس لیے ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے بچوں کا داخلہ میرٹ پر ہو۔” اس وقت میں نے سوچا کہ میں انہیں صاف انکار کر دوں، لیکن ایک سرکاری ملازم بہت کمزور ہوتا ہے۔ اپنی اسی کمزوری کی وجہ سے میں انکار نہ کر سکا۔ میں نے وہ پرچی اٹھائی اور واپس آ گیا۔ دو تین دن تک میں سوچتا رہا، لیکن نوکری کی مجبوری نے مجھے جھکا دیا۔ میں نے دونوں بچوں کے پرچے اپنی مرضی کے ایگزامینر کو بھیجے، اور اس نے انہیں دل کھول کر نمبر دیے۔ جب یہ کام ہو گیا تو میں نے سوچا کہ میرا اپنا بیٹا بھی ایف ایس سی کے امتحانات میں شریک تھا، تو وہ کیوں پیچھے رہے؟ چنانچہ میں نے اپنے بیٹے کے پرچوں میں بھی اچھے نمبر دلوا دیئے۔ نتیجہ آیا، اور ہم تینوں کے بیٹوں نے میڈیکل کالج میں داخلہ لے لیا۔ میری اس “خدمت” کے بدلے اس سیاسی شخصیت نے مجھے لاہور میں ایک پلاٹ الاٹ کر دیا۔
دو سال بعد میرا تبادلہ ہو گیا، سیاسی حالات بدل گئے، اور ہم تینوں کے رابطے ختم ہو گئے۔ میرا بیٹا نالائق تھا، لیکن اس نے ہمت نہ ہاری اور ایم بی بی ایس مکمل کر لیا۔ میں نے اپنی سفارش سے اسے ایک سرکاری نوکری دلوا دی۔ وہ لاہور کے ایک ہسپتال کے ایمرجنسی وارڈ میں کام کرنے لگا۔ ایک دن اس کے پاس ایک ایکسیڈنٹ کا کیس آیا۔ زخمی ایک درمیانی عمر کا شخص تھا، جو بری طرح زخمی تھا۔ میرے بیٹے کو اس قسم کے کیسز ہینڈل کرنے کا کوئی تجربہ نہیں تھا، میرے بیٹے نے اس کو اپنی محدود سمجھ کے مطابق انجیکشن وغیرہ لگائے ۔ لیکن الٹا ریکیشن ہوگیا اور وہ زخمی شخص دم توڑ گیا۔ اگلے دن جب اخبارات میں خبر چھپی تو میں دنگ رہ گیا۔ وہ شخص وہی ماہر قانون دان تھا، جس نے دس سال قبل مجھ سے اپنے بیٹے کے نمبر بڑھوانے کی درخواست کی تھی۔ میں قدرت کے اس انتقام پر حیران رہ گیا۔ وہ شخص، جس نے اپنے نالائق بیٹے کو ڈاکٹر بنوایا، میرے نالائق بیٹے کے ہاتھوں مارا گیا۔
بزرگ خاموش ہوئے۔ میری آنکھیں حیرت سے پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ انہوں نے ایک گہرا سانس لیا اور کہا، “میری کہانی ابھی ختم نہیں ہوئی۔ میرے دو بیٹے اور ایک بیٹی تھی۔ میرا بڑا بیٹا ڈاکٹر بن گیا، چھوٹے بیٹے نے ایم بی اے کیا اور ایک ملٹی نیشنل کمپنی میں منیجر بن گیا۔ میں نے اپنی بیٹی کی شادی کر دی، لیکن داماد نالائق نکلا۔ اس نے میری بیٹی کو تنگ کرنا شروع کر دیا۔ وہ کاروبار کرنا چاہتا تھا۔ بیٹی کی تکلیف دیکھ کر میں نے وہ پلاٹ بیچ دیا اور اسے رقم دے دی۔ داماد نے وہ رقم کاروبار میں لگائی، لیکن نقصان ہوا اور سارا سرمایہ ڈوب گیا۔
ایک دن میرے چھوٹے بیٹے کو سینے میں درد ہوا۔ ہم اسے ڈاکٹروں کے پاس لے گئے تو پتہ چلا کہ اس کے دل کی ایک رگ بند ہو چکی ہے۔ میرا بڑا بیٹا اسے لاہور کے ایک مشہور کارڈیالوجسٹ کے پاس لے گیا، جو امریکہ سے اعلیٰ تعلیم حاصل کر کے آیا تھا۔ اس نے معائنہ کیا اور بائی پاس سرجری کا مشورہ دیا۔ میرے ڈاکٹر بیٹے نے بھی یہی رائے دی۔ ہم نے آپریشن کی اجازت دے دی، لیکن آپریشن کے دوران میرا بیٹا وفات پا گیا۔ جب میں اس کی نعش لے کر باہر آیا تو میں نے اس کارڈیالوجسٹ سے اس کے والد کا نام پوچھا۔ جب اس نے اپنے والد کا نام بتایا تو میں سکتے میں آ گیا۔ وہ اسی ماہر قانون دان کا بیٹا تھا، جس کے کہنے پر میں نے اس کے نمبر بڑھوائے تھے۔
میں نے اپنے بیٹے کو دفن کیا، اور اس دن سے لے کر آج تک، میں روزانہ اس سیاستدان کے گھر جاتا ہوں۔ اس کے گھر کے سامنے ایک چائے خانہ ہے، جہاں میں بیٹھ جاتا ہوں اور اندر سے چیخوں کی آوازوں کا انتظار کرتا ہوں۔ مجھے یقین ہے کہ ایک دن وہاں سے چیخیں اٹھیں گی، لوگ جمع ہوں گے، میت کو غسل دیا جائے گا، اور جب اس سیاستدان کی نعش باہر نکالی جائے گی، تو میں آگے بڑھوں گا، اس کے جنازے کو کندھا دوں گا، اور اس کے بعد میری سزا مکمل ہو جائے گی۔”
وہ خاموش ہو گئے۔ میری ریڑھ کی ہڈی میں سردی کی لہر دوڑ گئی۔ اکیسویں صدی کے اس سائنسی دور میں میں اس بزرگ کی بات پر یقین کرنے کو تیار نہیں تھا، لیکن ان کے چہرے کی جھریوں اور آنکھوں کی چمک جھوٹ نہیں بول رہی تھی۔ وہ سچ کی چمک تھی۔ میں نے کچھ کہنا چاہا، لیکن اس سے پہلے وہ بول پڑے، “اور مجھے یقین ہے کہ اس سیاستدان کی موت بھی کسی ڈاکٹر کے ہاتھوں ہوگی۔ قدرت ہمارے گناہوں اور جرائم کی سزا ہمیں اسی دنیا میں دیتی ہے۔ ایک مجرم مر گیا، دوسرا مر جائے گا، اور میں ان دونوں کے مقابلے میں زیادہ عبرت ناک موت مروں گا۔ لیکن ان تین ڈاکٹروں کا کیا بنے گا؟”
وہ رُکے، ایک لمبا سانس لیا، اور پھر بولے، “میرا بیٹا اب ٹھیک ٹھاک صحت مند ہے۔ اسے حکومت میں چند اچھے دوست مل گئے ہیں، اور وہ لاہور کے ایک بڑے ہسپتال کا ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ بن گیا ہے۔ قانون دان کا بیٹا ملک کا مشہور کارڈیالوجسٹ بن چکا ہے، جبکہ سیاستدان کا بیٹا ایک چوٹی کا سرجن بن گیا ہے۔ یہ صرف میں جانتا ہوں کہ یہ تینوں نالائق ہیں۔ ان کی شہرت کی وجہ صرف میڈیا اور سیاسی روابط ہیں۔ میں اکثر سوچتا ہوں کہ ہم تینوں مجرم عبرت ناک انجام سے دوچار ہو کر مر جائیں گے، لیکن قدرت نے ان تین ڈاکٹروں کو کس کے انتقام کے لیے بچا رکھا ہے؟ ہم لوگ اپنی نالائقی کا بدلہ کس کس سے لیں گے؟” وہ خاموش ہو گئے، اور ان کی باتوں نے مجھے گہری سوچ میں ڈبو دیا۔